ایک جلا وطن کے نام خط – در زبانِ کوئٹہ


سلام علیکم اسلم رانا

کیسا ہے زوے؟ اتنا ٹیم ہو گیا تمہارا سائیڈ سے نہ حال ہے نہ حوال۔ یہ تو خر نازوانی والا پاٹ ہے۔ تمہارا پتا بھی ہم نے مت پوچھو کیسا مشکل سے ڈھونڈا۔ خیر چوڑو، اپنا حال دیو۔ نیا جگہ میں سیٹ ہو گیا ہے یا نہیں؟ ویسے زوے، جیسا حال میں تم لوگ اِدھر سے گیا ہے ہمارا یہ بولنا بنتا تو نہیں ہے کہ چکر لگاؤ لیکن سچا بات ہے کہ ہم اور باقی کا سارا ہانڈی وال اور علاقہ کا سب سفید ریش، تم کو، تمہارا باپ ماشٹر اصغر صاب کو اور سب لوگ کو بہت یاد کرتا ہے۔ اس طرف کا، پچھلا چھ مہینے کا حال حوال ایسا ہے کہ ماما جان محمد لانگو کا لڑکا محمد وفا، ابھی بھی شارٹ ہے۔ ماما مسکین کا تو تین سال سے عدالت، تھانے، ایف سی کا دفتر کا چکریں لگا لگا کر خانہ خراب ہوگیا ہے۔ محمد وفا کا ماں، آئی سکینہ بے چارہ کا رو رو کر ایک آنکھ بالکل ختم ہوگیا ہے اور دوسرا بھی سمجھو بس ختم ہے۔ وفا کا چھوٹا بھائی جہانگیر کو اسکول سے نکال کر کسی عزیز کا پاس کراچی بھیج دیا ہے کہ کدھری اس کو بھی بھائی کا طرح شارٹ نہیں کر دیویں۔ حالانکہ تم کو تو معلوم ہے کہ اس لوگ کا کسی پارٹی، کسی سیاسی قصے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور جنگ جھگڑے سے بیزار لوگ ہے، مگر کیا بولے۔ بس قسمت خراب ہے۔

ویسے صحیح بات تو یہ بھی ہے کہ تمہارا خاندان کا بھی تو فوج، سرکار یا سیاست کا ساتھ کوئی کام نہیں تھا۔ ماشٹر صاحب چالیس سال سے محض بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ اور تمہارا بڑا بھائی، خدا اس کو بخشے، اکبر لالہ کیسا شریف اور مسکین آدمی تھا۔ نہ کسی کا لینے میں تھا اور نہ کسی کا دینے میں۔ واللہ کہ خبر کس نازوان نے اس کو سیٹلر بول کر اپنا دکان میں بیٹھے بیٹھے گولی مار دیا۔ علاقے کا تو کوئی آدمی ایسا نہیں کر سکتا، سب تو ماشٹر صاب کا شاگرد ہے، لیکن کیا بولے، کس نے یہ ظلم کیا۔

وہ اخبار والا انور بول رہا تھا کہ یہ لوگ جو اچانک شارٹ کر دیا جاتا ہے، یہ قتل متل اس کے جواب میں ہو رہا ہے۔ لیکن ہم لوگ تو بولتا ہے کہ یہ بھی محض فالتو قصہ ہے۔ محمد وفا کا شارٹ ہونے کا بعد اس کا باپ کو سارا درخواستیں اکبر مسکین لکھ کر دیتا تھا اور ماشٹر صاب ماما جان محمد کا ساتھ دفتروں میں خوار ہوتا رہا کہ محمد وفا کا کوئی درک لگ جائے۔ تمہارا ماں سارا دن آئی سکینہ کو تسلی دیتا تھا۔ خیر، لوگوں کا باتیں گم کرو، ہم کو تو ہر ٹیم یاد آتا ہے کہ تم لوگ ماشٹر صاب کو زبردستی رکشے میں بٹھا کرآخری وار سٹیشن لے جا رہا تھا تو وہ کیسا رو رہا تھا کہ ہم کو ادھری چھوڑو، ہمارا وطن یہی ہے، ہمارا ماں باپ اور اکبر کا قبریں ادھری ہے، سب ہمارا ہانڈی وال، شاگرد اور اکبر اور اسلم کی طرح کا بچے ہیں۔ ہم لوگ بھی بچہ بڑا سب، ٹائٹ رو رہا تھا لیکن کیا کر سکتا تھا۔۔ ویسے تم لوگ نے صحیح کیا۔ ادھر آج کل مرد، نامرد، شناختہ، نا آشنا، زوان نازوان، معزز اور لغڑی کا فرق نہیں ہے۔ تم کو ہم لوگ کا فٹ بال کا ساتھی شبیر ہزارہ یاد ہے؟ آج کل میزان چوک پر، اینڈرسن روڈ کا سائیڈ پر اس کا چَوَٹ کا دکان تھا۔ اس دن اس کا دکان پر کسی نے دستی بم پھینک دیا۔ شکر ہے جان بچ گیا لیکن مسکین کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ وہم سے گھر والا نہیں نکلنے دیتا۔ موبائل بھی نہیں اٹھاتا ہے۔ کیا بولے، واللہ!

ہاں، ایک اور قصہ تمہارا پیچھے ہوا ہے۔ اسحاق نورزئی نہیں تھا پرچون کا دکان والا؟ اس کا لڑکا حبیب جو ہم لوگ سے چھوٹا تھا۔ کچھ ٹیم سے داڑھی ماڑھی بڑا کیا تھا اور تبلیغ کا نام پر گھر سے شارٹ رہتا تھا۔ اسکول مسکول بھی چھوڑ دیا تھا۔ اسحاق بھی خوش تھا کہ چلو اچھا کام میں لگا ہوا ہے۔ کم از کم لغڑیوں موالیوں یا چھوکرا بازوں کا ساتھ تو نہیں ہے۔ ابھی دو ہفتے کا بات ہے، ہم لوگ رات کو گھریں اندر سے بند کر کے سو رہا تھا کہ اچانک گلی میں ھڑا دوڑی ہوگیا۔ وہی گاڑیوں کا شور، سیٹیاں، گالیاں مالیاں۔۔ ہم لوگ تو سچا بات ہے، پہلے بھی بہت دفعہ چھاپوں کو دیکھ چکا ہے، اور خوار بھی ہو چکا ہے، سو اپنا اپنا جان کو جمعہ خان ڈال دیا ۔جب کچھ قراری ہو گیا تو حال حوال لینے باہر نکلا ۔ معلوم ہوا کہ حبیب کو لے گیا ہے۔ بولتا تھا کہ طالبان مالبان کا کوئی قصہ ہے۔ اسحاق بولتا ہے کہ اس کا اپنا تربور کا ساتھ چمن میں جائیداد کا پھڈا ہے۔ اس تربور کا ایجنسیوں کا ساتھ سلام دعا ہے۔ اس نے جھوٹا سی آئی ڈی کیا ہے حالانکہ بقول اس کا، حبیب کا جنگ منگ کے ساتھ کوئی کم نہیں تھا۔ ابھی اللہ کو معلوم ہے کہ اصلی قصہ کیا ہے۔

ہم نے جہانگیر کا قصہ تم کو کیا کہ اس کو ماما جان محمد نے سکول سے اٹھا کر کراچی مزدوری پر لگا دیا ہے، کسی خراد کا دکان پر۔ دوسرا دن اس کا چاچے کا لڑکا فیصل بول رہا تھا کہ اس سے موبائل پر بات ہوا تو اس کا چورت بہت خراب تھا۔ بولتا تھا کہ ادھر بھی حالات اچھا نہیں ہے۔ کبھی کوئی گینگ والا بھتہ مانگنے آ جاتا ہے کبھی کوئی تنظیم، کبھی کوئی پارٹی۔ بندہ حیران ہے۔ بارش سے ہٹایا تو پرنالہ کا نیچے کھڑا کر دیا۔ غریب آدمی کدھر جاوے۔ ویسے آپس کا بات ہے، ہم لوگ کا محلے کا سکول بھی محض نام کا سکول تھا۔ گزارہ لائق ٹیچریں تو سب شارٹ ہوگیا۔ کوئی نوکری چھوڑ کر پنجاب چلا گیا، کسی کو مار دیا۔ ہم لوگ جو سوچ رہا تھا کہ چلو ہم تو لغڑی رہ گیا مگر تمہارا بھتیجے فہد جان کو پڑھا کر ڈاکٹر بناے گا، لیکن بہت مشکل لگ رہا ہے۔ ٹیچریں نہیں ہووے گا تو پڑھائی کیا خاک ہووے گا؟

باقی اس سائیڈ کا حال حوال پہلے جیسا ہے بلکہ اس سے بھی خراب۔ روڈیں ویسا ہی سب کھڈوں سے بھرا ہوا ہے، بجلی ایک گھنٹہ آتا ہے تو دس گھنٹہ شارٹ ہو جاتا ہے۔ پانی کا بھی وہی ٹینکروں پر گزارا ہے۔ ہسپتالیں برباد ہیں، نہ دوائی ہے نہ ڈاکٹر۔ سب سے برا بات یہ ہے کہ ہمارا باپ بولتا ہے کہ لوگوں میں آپس کا چھوٹا موٹا بد نیتی تو پہلے بھی تھا مگر اس ٹیم اس قدر بد لحاظی نہیں تھا۔ پہلے لوگ زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو کٹ کٹ دیکھ کر گزر جاتا تھا۔ بہت ہوگیا تو تھوڑا بہت فینٹ بازی ہو جاتا تھا، بس۔۔آج کل بات بعد میں کرتا ہے، گولی پہلے چلاتا ہے۔ دو آدمی کا آپس کا شخصی پھڈا ایک دم قومیتی اور مذہبی پھڈا بن جاتا ہے۔ ہم جیسا جنگ سے بیزار آدمی کدھر جاوے۔ تمہارا طرح جانے کا اور جگہ بھی تو نہیں ہے۔

اُس دن ہم کو چودھری عزیز بینک منیجر کا لڑکا فرید مل گیا۔ اس لوگ کا گھر پر بھی دستی بم پھینکا تھا۔ یہ لوگ شارٹ ہو کر فیصل آباد چلا گیا ہے۔ وہ اپنا باپ کا پنشن کا کوئی کاغذ ماغذ برابر کروانے آیا تھا۔ بول رہا تھا کہ فیصل آباد میں اس لوگ کا بیخی ٹیم پاس نہیں ہورہا۔ ادھر کا لوگ اس لوگ کا اردو پر ہنستا ہے، نہ کوئی شناختہ ہے، نہ کوئی ہانڈی وال۔ دکان نکالا تھا لیکن شناخت نہیں تھا تو لوگوں نے اس کا ساتھ پاٹیں کیا اور کاروبار تاوان کر کے بند کر دیا۔ بول رہا تھا کہ چودھری عزیز بہت دق رہتا ہے اور اکثر بیمار۔۔ امید ہے تمہارا باپ ماشٹر صاب کا دل لگ گیا ہووے گا۔

افضل کو تم جانتا ہے، ماما اختر کا داماد، مستونگ والا۔ ہاں وہی وہ جو ڈی سی آفس میں کلرک ہے۔ کل مسجد کا تھڑے پر بیٹھا گپ مپ کر رہا تھا۔ بولا کہ ابھی حالات ٹھیک ہونے والا ہے۔ چین والا کوئی کاری ڈور بنا رہا ہے۔ جس سے سب لوگ خوشحال ہو جاے گا۔ سب کو کاروبار اور نوکری ملے گا۔ ہم خوش خوش گھر آیا تو ہمارا باپ نے بولا، زوے تم بھی محض لیونہ ہے۔ اس سے پہلے ادھر سونا، تانبہ،ماربل، کوئلہ، سوئی گیس نکل رہا ہے۔ جب اس نے ہم تم کو امیر نہیں کیا تو کاری ڈور کیسے خوشحالی لاے گا؟ پہلے تو لا اچھا تھا کہ کم از کم ماشٹر اصغر نمونہ ٹیچریں تو تھا جس سے پڑھ کر کوئی نہ گزارہ نوکری، سرکاری نہیں تو پراویٹ مل جاتا تھا۔ آجکل تو زوے لڑکے کا ساتھ بی اے کا ڈگری بھی ہے اور اس کو اپنا نام بھی لکھنا نہیں آتا۔ کاری ڈور چھوڑو، ادھر سونے چاندی کا بارش بھی ہو جاے تو ہم تم اسی طرح خوار اور زار رہے گا۔ جب تک کوئی سیدھا راستہ بتانے والا کالی ڈور میں ہم لوگ کا جائز حصہ لینے والا اور اس کو ہم لوگ تک صحیح پہنچانے والا لوگ نہیں ہووے گا۔ نہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہر میر، معتبر، خان، ٹکری، سرکاری افسر کا یہ بڑا بڑا بنگلہ بن گیا، وہ لوگ گدھا گاڑی سے پجارو پر آگیا اور ہم تم سہراب سائکل سے بھی رہ گیا۔ ہمارا تو سر خلاص نہیں ہے کہ کیا قصہ ہے ۔ تم کو معلوم ہے تو بتاؤ۔

خیر، ابھی تم بھی فورآ سے پیشتر ہمارا خط کا جواب دیو، ماشٹر صاب کو ہم سب لوگ کا سلام بولو۔ اپنا نیا موبیل نمبر بی بھیجو۔ ہمارا تو وہی پرانا والا ہے۔ ہم لوگ کا لائق کار خذمت ہووے تو اپنا بچپن کا ہانڈی وال سمجھ کر بے دھڑک لکھ دیو۔ ہمارا تمہارا بیچ میں تو کوئی تکلف والا پاٹ نہیں ہے نا۔

اڑے، تمہارا یار

علی جان

(عثمان قاضی کو گمان ہے، کہ بلوچستان کی فریاد کی لے کو پکڑنے کے لئے انسان کا کن رس ہونا کافی نہیں بلکہ اس مخصوص درد سے دل ریش ہونا ضروری ہے جس کے سبب یہ نالہ اٹھ رہا ہے، ویسے ہی انہیں یہ خیال ہے کہ ان کی کوئٹہ کی مخصوص اردو بلوچستان سے باہر نہیں سمجھی جاے گی۔ “ہم سب” ان کے خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ چند ایک مخصوص الفاظ کے باوصف ، اس آہ و فریاد کو، کہ نہ عجمی ہے نا کہ تازی، پاکستان میں ہر جگہ سمجھا جاے گا۔ “حال حوال” کے خصوصی شکریے کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے.)

Published on: Sep 5, 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments