کراچی، تین جنّات کے قبضے میں نازک پری


\"khurramابھی پچھلے بدھ کو سوچا کہ انگلستان واپسی سے قبل اس علاقے کی زیارت بھی کرلی جائے جہاں ہمارا وہ اسکول واقع ہے جس سے ہم نے میٹرک کیا تھا۔ یہ جگہ ایم کیو ایم کے مرکز نائین زیرو سے بالکل نزدیک عزیز آباد میں ہے۔ لیکن اس وقت یعنی 1983ء میں نہ ایم کیو ایم بنی تھی نہ ہی کسی نے سوچا تھا کہ یہ علاقہ پاکستان کے سیاسی افق پر اس قدر اہمیت کا حامل ہوگا۔ ہماری کار گلشنِ اقبال سے نکلی ہی تھی کہ واضح ہوگیا کہ کراچی کے معاملے میں ریاست کی وہی پالیسی ہے جو روزِ اول سے تھی یعنی یہ کہ جھوٹ بولا جائے، جھوٹ سنا جائے، جھوٹ دیکھا جائے اور جھوٹ دکھایا جائے!!

سوائے مکا چوک کے جس پر سے الطاف حسین کی تصاویر اتار کر ویڈیو میڈیا کو ارسال کردی گئیں تھیں ہمہ اطراف ایم کیو ایم کے قائد کی قدِ آدم تصویریں اسی شان سے آوایزاں دکھائی دیں جیسے گزشتہ 25 سال سے چلی آرہی ہیں۔ سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے بس \’کن فیکون\’ کہا اور ایم کیو ایم وجود میں آگئی اور اس قدر مقبول ہوگئی۔

روشنیوں کا شہر کراچی پاکستان میں صنعت و حرفت کا مرکز تھا، یہاں کا مزدور اپنے حق کے لئے لڑتا تھا، یہاں کی طلباء تحریکوں نے پورے ملک میں تعلیم کو سستا اور عام کرنے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ 1965ء اور 1972ء میں ہونے والے لسانی فسادات نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے، 22 گھرانوں کی دولت کا ڈنکا پیٹ کر کی جانے والی نیشنلائزیشن کو یہاں کے تاجر اور صنعتکار نے نسلی انتقام سے تعبیر کیا، خواندگی کی شرح اور معیارِ تعلیم بلند ہونے کے باوجود تعلیم یافتہ نوجوان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا تھا، بنگلہ دیش میں پھنسے بہاریوں کو واپس لانے کا وعدہ ڈیڑھ عشرہ گزرنے کے بعد بھی ٹال مٹول کا شکار تھا، اعلیٰ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں شہری اور دیہی نشستوں کی تقسیم کے نتیجے میں میرٹ کو روندنے کا تاثر عام تھا۔

اس پس منظر میں 15 اپریل 1985ء کو روڈ کراس کرتی طالبہ بشریٰ زیدی کی المناک موت کے بعد پہلے سے موجود بے چینی اور بے اطمینانی نے یکایک نسل پرستی کی آندھی کا روپ دھارا اور پھر چند سالوں میں اس نے شخصیت پرست فاشزم کی شکل اختیار کرلیا اب تیس سال بعد نتیجہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہ علاقہ اور اس سے متصل نارتھ ناظم آباد اور ناظم آباد جو کبھی پڑھی لکھی لوئر مڈل کلاس کے پرامن مسکن سمجھے جاتے تھے اب پہچانے بھی نہیں جاتے۔ ان علاقوں میں موجود تمام پارکس اور پلے گراؤنڈز اب صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور ان کی جگہ کہیں پورشن والے مکانات قائم ہوگئے ہیں تو کہیں کثیرالمنزلہ اپارٹمنٹ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کے طول و عرض میں موجود اس طرح کے گھروں میں لاکھوں خاندان آباد ہیں جنہوں نے ان غیر قانونی تجاوزات کو حق حلال پیسے دے کر خریدا ہے۔ اسی کا نام چائنا کٹنگ ہے۔ یہ کراچی کے ایک جِن ایم کیو ایم کا اپنے ہی شہر کو سب سے بڑا تحفہ ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اب ان تعمیرات میں بسنے والوں کو بے دخل نہیں کرسکتی اور ان تعمیرات کی موجودگی میں ممکن ہی نہیں کہ صاف پانی کی ترسیل اور گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام وضع ہو سکے۔ اب اس شہر کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ غلاظت، عفونت اور تعفن کی آماجگاہ بنا رہے اور مڈل کلاس، مڈل کلاس کی رٹ لگا کر اس کے نمائندہ بننے والے لینڈ مافیا کے پرزے بن کر پرتعیش بستیوں، بیرونِ ملک یا عالمِ بالا میں منتقل ہوتے رہیں۔

اس شہر کا دوسرا جن پیپلز پارٹی ہے، متعدد مواقع ملنے کے باوجود کراچی کے ساتھ جس کا سلوک سوتیلی ماں کا سا رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ نسلی توازن کب کا تبدیل ہوچکا ہے اور اگر ایک بااختیار بلدیاتی حکومت قائم ہوتی ہے تو اس کا فائدہ صرف اردو بولنے والوں ہی کو نہیں پہنچے گا بلکہ شہر میں آباد پٹھان، سندھی اور بلوچ سب اس سے مستفید ہوں گے۔ آپ 1989 اور 1990 کے اخبارات اٹھا کر دیکھئے، جب شہید محترمہ بے نظیر کو اقتدار ملا تو ایم کیو ایم سے مذاکرات میں کس بے دلی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس دور میں دونوں فریقین میں کشیدگی بڑھتی گئی جس کا شکار سب سے پہلے پیپلز پارٹی میں موجود اردو بولنے والے بنے۔ اب نوبت یہ ہے کہ ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی شناخت وفاق کی حامی جماعت کے طور پر کی جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے کراچی میں اس کا تاثر بہت مختلف ہے۔

اس شہر کا تیسرا جن \’اسٹیبلشمنٹ\’ ہے۔ آزادی کے نتیجے میں ایک کمزور سیاسی اشرافیہ کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرنے والی اس مشینری کا کردار کراچی کی گلی کوچوں میں ضیاء اور مشرف ادوار میں بھی اتنا کھلا ہوا نظر نہیں آتا تھا جتنا ہم نے اگست کے مہینے میں اپنے قیام کے دوران دیکھا۔ ان کی ہاؤسنگ اسکیمیں، اسکول، اسپتال، شادی ہال وغیرہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بدقسمتی سے ان کی سوچ میں غیر جمہوری، غیر سیاسی اور عارضی پن نمایاں ہے۔ سیاسی جماعتوں میں دھڑے بنانے کا کام اب بالکل کھلے عام ہوتا ہے۔ رات بھر میں ایک شخص کی وفاداری تبدیل کروالی جاتی ہے اور ذرا نہیں سوچا جاتا کہ اس کے دور رس اثرات کیا مرتب ہوں گے۔

کراچی میں اقتدار کی رسہ کشی میں ان تین جنات کی مثلث کبھی چوکور ہوجاتی ہے تو کبھی گول۔ کہیں ان کے مفادات ٹکراتے ہیں اور کہیں ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ نقصانات تو بہت ہوئے اور نوحہ بھی بہت طویل ہو سکتا ہے لیکن تینوں نے مل کر سب سے کاری ضرب یہاں کی تعلیم کو لگائی۔ جو میرٹ کی گردان کرتے تھے وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وقاراور معیار کے درپے ہوگئے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر وائس چانسلروں کی نشستوں میں ایسے گوہرِ نایاب متعین کئے گئے جن کی اصل میرٹ آدابِ درباری سے ان کی واقفیت تھی۔ میٹرک اور انٹر بورڈز کی سربراہی ان اعلیٰ شخصیات کو سونپی گئی کہ ساری تعلیم ہی بے وقعت اور بے توقیر ہوگئی۔ حد تو یہ کہ پی ایم ڈی سی جیسے اہم ادارہ جو پرائیوٹ میڈیکل کالجز کو لائسنس دینے کا مجاز ہے کی ساکھ کو گرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ ایک منظم انداز میں کراچی میں جہالت کا راج کروا کر اس شہر کو خطاؤں کی بھرپور سزا دی گئی۔

یہ تصور ہی گمراہ کن ہے کہ کوئی غیر معمولی شخصیت سیاسی یا سماجی تبدیلیوں کا محور ہوتی ہے۔ اسی خیال پر مبنی منصوبہ کہ اگر ایک شخص کو قربانی کا بکرا بنا لیا جائے تو اتنے بڑے شہر کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتی، بے اعتنائی اور بد انتظامی عوام کی نظروں سے اوجھل ہوجائے گی عقلمندی نہیں پرلے درجے کی حماقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments