قران مجید میں ڈائنوسار کا ذکر کیوں نہیں


\"Azeem-Ur-Rehman-Usmani\"سوال:
قران مجید میں ڈائنوسار کا ذکر کیوں نہیں ہے؟
۔
جواب:
قران مجید میں شارک مچھلی کا ذکر بھی نہیں ہے۔ بھالو بن مانس کا ذکر بھی نہیں ہے بلکہ یوں کہیئے کہ گنتی کی چند اقسام کے سوا جانوروں کی اکثر اقسام کا ذکر قران حکیم میں موجود نہیں ہے۔ سائنس کے مطابق ڈائنوسار کے علاوہ بھی کروڑوں ایسی حیات کی اقسام زمین پر موجود رہی ہیں جن کا اب نام و نشان مٹ چکا ہے، ان کا ذکر بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ذکر آخر کیوں ہو؟ ہر کتاب کا ایک بنیادی موضوع ہوتا ہے اور اس موضوع سے غیر متعلق چیزوں کا ذکر اس کتاب میں نہیں کیا جاتا۔ کوئی ناقد کسی کتاب میں کسی خاص شے کے ذکر نہ ہونے پر اسی صورت تنقید کرسکتا ہے جب وہ شے اس کتاب کے موضوع کے عین مطابق اور لازم ہو۔ بصورت دیگر یہ اعتراض مسترد کردیا جائے گا۔ قران مجید الله کا کلام ہے جس کے اصل موضوعات حیات بعد الموت اور تزکیہ نفس ہیں۔ ان ہی موضوعات کو بیان کرتے ہوئے کلام پاک میں بعض اوقات ضمنی طور پر کچھ مثالیں دے دی جاتی ہیں جن میں کبھی تاریخی تو کبھی سائنسی حقیقتوں کا بیان آجاتا ہے۔ مگر اس سے یہ اخذ کرلینا بعید از عقل ہے کہ قران کوئی سائنس یا تاریخ کی کتاب ہے جس میں ہر ہر سائنسی حقیقت اور تاریخی واقعہ کا لازمی ذکر موجود ہوگا۔ قران آیات یعنی نشانیوں کی کتاب ہے سائنس کی ہرگز نہیں۔ لہٰذا یہ تقاضہ کہ قران مجید میں ڈائنوسار کا ذکر موجود ہو، درست نہیں۔ اس کا انسانی ہدایت، تزکیہ نفس یا آخرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کوئی بھلا مانس یہ حسرت رکھتا ہے کہ اگر قران حکیم میں ڈائنوسار کا ذکر مل جائے تو کفار ایمان لے آئیں گے؟ تو ایسا سوچنا اسکی خام خیالی ہے۔ انہوں نے پھر نئے اعتراضات تراش لینے ہیں جیسے برمودا ٹرائی اینگل کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ یا اسپیڈ آف لائیٹ کیوں نہیں لکھ دی گئی۔ خاطر جمع رکھیں کہ وہ اذہان جو حقیقت میں ہدایت کے طالب ہیں، ان کے لئے اسی قران میں اصل موضوع کے بیان میں بیشمار ایسی سائنسی و تاریخی حقیقتوں کا ذکر موجود ہے جو انہیں اس کلام کے الہامی ہونے کا انہیں یقین دلا دیتی ہیں۔ جنہوں نے نہیں ماننا، انہوں نے ڈائنوسار کا ذکر پڑھ کر بھی نہیں ماننا۔
۔
یہ تو تھی بنیادی بات۔ اب اس کی بھی کچھ تحقیق کئے لیتے ہیں کہ کیا کلام مجید میں کوئی ایسے قرائن موجود ہیں جو ڈائنوسار کی جانب اشارہ کرتے ہوں؟ اس ضمن میں سب سے پہلے یہ جان لیں کہ لفظ ڈائنوسار حال ہی میں سائنسدانوں کا پیش کردہ ہے جس کے معنی \’خوفناک چھپکلی\’ کے ہیں۔ لہٰذا یہ سوچنا حماقت ہوگی کہ لفظ ڈائنوسار آپ کو قران مجید سمیت کسی بھی الہامی یا غیر الہامی کتاب میں مل سکے۔ اس کے لئے تو کوئی دوسرا لفظ یا اشارہ ہونے کا ہی امکان ہوسکتا ہے۔ ڈائنوسار کے حوالے سے سائنس کی دنیا میں دو آراء موجود ہیں۔ پہلی رائے جو خاصی مستند و مقبول ہے، اسکے مطابق سیارہ زمین پر ڈائنوسار کا زمانہ انسانوں کے وجود سے بہت پہلے کا ہے۔ گویا انسان نے کبھی ڈائنوسار کو اپنی آنکھ سے زندہ نہیں دیکھا۔ دوسری رائے جو پائی جاتی ہے وہ خاصی کمزور اور محدود ہے جس کے مطابق ڈائنوسار اور انسان ایک زمانے میں ساتھ سیارہ زمین پر موجود رہے ہیں۔ میرا کام اس مضمون میں ان دونوں آراء کا تقابل کرکے ان میں سے ایک کی صحت ثابت کرنا نہیں ہے۔ لہٰذا میں دونوں زاویوں کو امکانی طور پر درست مان کر قران حکیم سے اس کا تقابل پیش کروں گا۔ جیسا عرض کیا کہ محققین کی اکثریت پہلی رائے کو درست اور دوسری رائے کو محض اختراع مانتی ہے، اسلئے ہم بھی پہلی رائے ہی کو پہلے موضوع بناتے ہیں یعنی ڈائنوسار انسان کی آمد سے پہلے اس دنیا سے مٹ چکے تھے۔
۔
سوره العنکبوت / ۲۰ میں ارشاد ہے کہ ”آپ کہہ دیجئے! کھ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ھے اس کے بعد وہی آخرت دوباره پیدا کرے گا بیشک وه ھر شے پر قدرت رکھنے والا ھے“
۔
گویا مندرجہ بالا آیت میں زمین پر تخلیق کے ابتدائی مراحل پر غور کرنے کی باقاعدہ ترغیب دی گئی ہے اور یہ اشارہ مل رہا ہے کہ مخلوق مختلف مراحل سے گزری ہوگی۔ قران مجید میں سابقہ صحائف کیطرح بیان ہوا کہ کائنات کی تخلیق چھ یوم میں کی گئی مگر ساتھ ہی یہ صراحت بھی کردی کہ اللہ کے یوم کو اپنے یوم پر قیاس نہ کرلینا۔ ایک مقام پر اس یوم کو انسانی یوم کے ہزار سال کے برابر اور دوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کا بتا کر کسی خاص وقت کی قید کو اٹھا دیا گیا۔ گویا کائنات کی تخلیق کے چھ یوم سے چھ زمانے یا چھ مراحل مراد لئے جائیں گے جو لاکھوں سالوں پر بھی محیط ہوسکتے ہیں۔ اس سارے زمانے میں زندگی و تخلیق بہت سے مراحل سے گزری ہے اور آج ان گنت اقسام زندگی ناپید ہوچکی ہیں۔ یعنی قران بائبل کی طرح چھ یوم کو انسانی یوم نہ مان کر ڈائنوسار جیسی تخلیق کے اس سیارے پر کسی وقت میں موجودگی کی راہ میں کوئی روک نہیں پیدا کرتا۔ یہ بات بھی متعدد آیات اور متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آدم علیہ السلام کی زمین پر آمد سے قبل ہی ہمارے اس سیارے پر زندگی اور اسباب زندگی موجود تھے۔ نمونے کے طور پر سورہ الفصلت کی ١٠ آیت کو دیکھیئے
۔
“اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سب سامان معیشت مقرر کیا (سب) چار دن میں۔ (اور تمام) طلبگاروں کے لئے یکساں“
۔
اسی طرح سورہ البقرہ کی ٣٠ آیت ملاحظہ کیجیئے
۔
“اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تُو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں۔ (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے“
۔
مفسرین نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ فرشتوں کا یہ استفسار و الزام کہ انسان زمین پر کشت و خون کرے گا، اس حقیقت کا غماز ہے کہ زمین پر پہلے سے مختلف مخلوقات تھیں جو کشت و خوں کرتی تھیں اور یہی مشاہدہ انکے اس بیان کا محرک بنا۔ ڈائنوسار یقینی طور پر ان ہی مخلوقات میں شامل تھے۔ جیسے بیان کیا جاچکا کہ
ڈائنوسار کی اصطلاح حال ہی میں استعمال ہوئی ہے۔ قران مجید میں ایک لفظ دَابَّةً استعمال ہوا ہے جو بڑے وحشی حیوانوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لفظ کو سورہ البقرہ کی ١٦٤ آیت میں یوں ذکر ہوا
۔
“۔ ۔ اور زمین پر ہر قسم کے جانور (دَابَّةً ) پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانےمیں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔ عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں“
۔
ہم جانتے ہیں کہ ڈائنوسار میں چھوٹی، بڑی، گوشت خور، سبزی خور، چلنے والی، اڑنے والی، رینگنے والی، دو پاؤں والی، چار پاؤں والی بہت سی اقسام تھیں۔ سورہ النور کی ٤٥ آیت جہاں آج موجود اقسام حیوان کا احاطہ کرتی ہیں وہاں ڈائنوسار کی ان اقسام کا بھی بیان کئے دیتی ہے۔ ملاحظہ ہو
۔
“اور خدا ہی نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار (دَابَّةً ) کو پانی سے پیدا کیا۔ تو اس میں بعضے ایسے ہیں کہ پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، بےشک خدا ہر چیز پر قادر ہے“
۔
درج بلا استدلال میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ڈائنوسار کا ذکر خاص الفاظ میں نہ بھی کیا گیا ہو تب بھی قران حکیم میں ایسے کئی اشارے موجود ہیں جو ڈائنوسار کی اس زمین پر سابقہ وجود کو انسانی موجودگی حیات سے قبل ظاہر کرتے ہیں۔ اب ہم ان شاء للہ اس دوسری رائے کو موضوع بناتے ہیں جس کے مطابق ایک زمانے میں اسی سیارہ زمین پر انسان اور ڈائنوسار ایک ساتھ موجود رہے ہیں۔ جیسا ابتداء میں عرض کیا تھا کہ یہ رائے کمزور اور کم مقبول سمجھی جاتی ہے مگر اس کے حاملین بڑی زور و شور سے اس کی صحت کے قائل ہیں۔ ان کے اس یقین کی تین بڑی وجوہات نظر آتی ہیں۔ پہلی وجہ وہ دریافتیں ہیں جن میں ایسے آثار ملے ہیں جن سے حیوانوں کے عظیم البحثہ ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسری وجہ پرانے الہامی صحائف اور تاریخی کتب میں انسانوں اور حیوانوں کے غیرمعمولی قد کا ذکر ہے۔ تیسری وجہ پرانے تاریخی کھنڈرات اور غاروں میں دیواروں پر کندہ وہ نقوش ہیں جو ڈائنوسار جیسے جانوروں کی تصویر معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال ہمارا کام تو فقط اس دوسرے امکان کے سچ ہونے پر قرانی رو سے ڈائنوسار کی موجودگی کا جائزہ لینا ہے۔ ایک لمحے کو مان لیجیئے کہ ڈائنوسار کی نسل انسان کی موجودگی کے وقت بھی معدوم نہیں ہوئی تھی، اب دیکھتے ہیں کہ کیا قران میں اس امکان کی گنجائش موجود ہے؟
۔
قران و سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ ابتداء میں انسان کی عمر نہایت طویل اور قد نہایت اونچے تھے۔ جیسے قران مجید کے بیان کے مطاق نوح علیہ السلام نے ٩٥٠ برس اپنی قوم کو تبلیغ کی۔ اسی طرح صحیح البخاری حدیث نمبر ( 3336 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 7092 ) کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے قد کو ٦٠ ہاتھ یعنی کوئی ٣٠ گز بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہود علیہ السلام کی قوم عاد کے طویل قامت ہونے کا بھی قران حکیم میں واضح ذکر موجود ہے۔ سورہ الفجر کی ٦-٨ آیت ملاحظہ کریں
۔
“یا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا۔ ارم (کہلاتے تھے اتنے) دراز قد۔ کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے“
۔
سورہ الحاقہ، آيت ۷ کو دیکھیئے، جس میں قوم عاد کا بعد عذاب حال بیان ہوا ہے
۔
\’\’اگر تو وہاں ہوتا تو مشاہدہ کرتا کہ وہ سارى قوم منہ کے بل گرى پڑى ہے اور سوکھے اور کھوکھلے درختوں کى طرح ڈھير ہوگئے ہيں\’\’
۔
درختوں کے تنوں سے انسانوں کو تشبیہہ دینا ان کے درختوں کی طرح طویل قامت ہونے کا عندیہ دیتا ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انسان اتنے طویل قامت تھے تو کیا ان کو مہیا جانور طویل قامت نہ ہونگے؟ کیا ان کی مرغی اور بکری اسی قامت کی نہ ہوتی ہوگی جو ان انسانوں کے قد کے تناسب سے ہو؟ آج ہم سائنسی اعتبار سے کم از کم اس پر متفق ہیں کہ اوائل دور میں جانوروں کی بہت سے موجود اقسام آج سے کہیں زیادہ طویل قامت تھیں۔ جیسے آج کا موجودہ ہاتھی اس وقت کے ”میمتھ ہاتھی“ سے خاصہ چھوٹا ہے۔ اسی طرح شیر اور دیگر درندوں کے قد آج سے کہیں زیادہ بڑے ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح ارتقائی مراحل کے بیان میں محققین مختلف چھپکلیوں، مگرمچھ، گینڈے ، وہیل مچھلی وغیرہ کو ڈائنوسار ہی کی ارتقائی شکل قرار دیتے ہیں۔ گویا اگر قران و سنت میں مذکور اشاروں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے کہ انسان اور جانور ابتداء میں عظیم البحثہ تھے اور وقت گزرتے گزرتے بتدریج ان کا قد گھٹتا گیا تو شائد غلط نہ ہوگا۔ اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ ماننے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ ڈائنوسار جیسے طویل قامت جانور زمین کے اوائل دور میں موجود رہے ہونگے۔ ایک آخری اشارہ ہمیں قران و حدیث سے ان قیامت کی نمائندہ نشانیوں میں بھی ملتا ہے جس میں زمین سے ایک بڑے جانور (دَابَّةً الْأَرْضِ) کے نکلنے کی خبر دی گئی ہے۔ گو اس خبر کا شمار متشابہات میں ہے اور اس کی حقیقی صورت کا ٹھیک ادراک اسکے وقوع سے قبل شائد ممکن نہ ہو۔ غرض قران مجید میں ڈائنوسار کا لفظی ذکر نہ بھی ہو تب بھی ایسے قرائن و اشارے بکثرت موجود ہیں جو ان کی موجودگی پر دلیل بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments