مال مفت اور بے رحم پانامہ لیکس


\"angel\"کہانی کا آغاز ہو تا ہے ایک کرکٹر سے جو انگلینڈ میں کاونٹی کھیلتا تھا اور چند سو پاونڈ کماتا تھا۔ اس کی دوستی ایک پاکستانی سے ہو گئی جو ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے کئی ریسٹورنٹ ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ پاکستانی صاحب ا پنے کرکٹر دوست سے اپنے ایک نئے ریسٹورنٹ کا افتتاح کروانے کی درخواست کرتے ہیں اور کرکٹر کے ایک فلاحی پراجیکٹ کے لئے چندہ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ افتتاح والے دن پاکستانی صاحب کرکٹر کو بارہ ہزار پاونڈ کا چیک دیتے ہیں جس پر یہ کرکٹر ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہیں، سرگوشی کرتے ہوئے وہاں موجود سب لوگوں نے دیکھا۔ سرگوشی کے بعد وہ پاکستانی جنہوں نے اس کرکٹر کو بارہ ہزار پاونڈ چندہ کا چیک دیا تھا تین ہزار پاونڈ نقد نکال کر اس پاکستانی کرکٹر کو دیا۔ افتتاحی تقریب ختم ہوئی تو ریسٹورنٹ کے مالک سے اس کے دوستوں نے کرکٹر کی کان میں سرگوشی اورتین ہزار پاونڈ مزید دینے کی وجہ پوچھی تو ریسٹورنٹ کے مالک پاکستانی نے ہنس کر اپنے دوستوں سے صرف یہ کہا، \” یار، مفت بر نے اپنا آپ ظاہر تو کرنا ہوتا ہے۔ جیب خرچ مانگ رہا تھا۔ اس طرح کے لاتعداد واقعات اپ کو بیرون ملک مقیم پاکستانی بتا سکتے ہیں۔ آج کل یہ کرکٹر سیاست میں سرمایہ داروں کے جہازوں پر اور ان کے مال پر مفت بری لگا رہا ہے اور لیک لیک کا شور بھی کر رہا ہے ۔

لیک لیک کا شور کرنے والے اس کر کٹر کے انتہائی قریبی دوست جانتے ہیں کہ سیاسی کرکٹر کے دن اور رات میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ان کے قول اور فعل میں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر بے ہنگم اور الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں اور اپنی ہی کی ہوئی باتوں سے پھر جاتے ہیں۔ اس کرکٹر کے ساتھی ان کی بے ہنگم باتوں کا دفاع کرتے کرتے زچ ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس کرکٹر صاحب کی ان عادات کی وجہ سے ملک کے کئی حلقے ان کو مستقبل کا ایک ایسا لیڈر تصور کرتے ہیں جنک ی تقاریر پر آخر کار عدالت کو پابندی لگانی پڑے گی ۔پھر بالآخر وہ اپنی تقاریر سے اپنی حقیقی سوچ دنیا کے سامنے لے ایا اور ہمیشہ کے لئے سیاسی موت مر گیا۔

ایک اور مفت بر ساری زندگی مذہبی مجالس کی روٹی کھاتے رہے۔ یہ صاحب اپنے آپ کو صاحب علم اور کئی کتابوں کا مصنف بتاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کا دعوی ہے کہ ان کی مذہب پر بڑی ریسرچ ہے۔ اب ان سکالر صاحب کو دیکھ لیجئے کہ جھنگ سے شروع ہوئے اور اب پوری دنیا میں سیر کرتے ہیں۔ ان سے جھنگ کا ذکر کیا جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔

ان مفت بر کرداروں کے ذکر کا مقصد صرف یہ سوال اٹھانا ہے کہ ان مفت بروں نے جو اتنا عوامی فلاحی کام کیا ہے، اس میں ان دونوں نے اپنے ذاتی رقم کتنی ڈالی ہے۔ ان مفت بروں کی ذاتی جائیدادوں کی تفصیل دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان مفت بروں نے ایک پائی کی جائیداد بیچ کر عوامی فلاح پر نہیں لگائی۔

ابھی ملک کی خاطر اور عوام کی فلاح کے نام پر جو ریلیاں نکالی گئی ہیں نکالی ہیں، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ان کے انتظامات میں ان مف بروں نے اپنی جیب سے کتنی رقم ڈالی ہے یا ہمیشہ کی طرح مال مفت دل بے رحم ۔

اہل پاکستان کو معلوم ہے کہ ان ریلیوں میں نومبر تک مزید گرما گرمی آئے گی۔ اس کے بعد پھر کچھ سکون ہو گا۔ اس کے بعد اسلام آباد مین برسراقتدار پارٹی اپنے جلسے شروع کر دے گی جس کے جواب میں یہ مفت بر پھر سے میدان میں اتر آئیں گے اور پھر تمام سیاستدان مل کر عوام کو ایک نیا خواب دکھائیں گے۔ نئے نعرے ایجاد ہوں گے، نعرے بازی ہو گی۔

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ مفت بروں کی ریلیوں میں ابھی تک جتنی زندگیاں گئی ان کا ذمہ دار کون ہو گا۔ بچے یتیم ہوئے، خواتین بیوہ ہوئیں، ماوں کے بچے گئے، کون ذمہ دار ہو گا؟  کیا کوئی تبدیلی آئی؟ ملک میں کیا بدلا؟ غریب عوام کو کیا ملا؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments