چھ ستمبر! آؤ کہ ایک عہد کریں


\"farnood\"

دو قومی نظریہ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کی رات بخیر وخوبی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ دو قومی نظریہ اگر آج بھی زندہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا۔ اگرپاکستان کا قیام عمل میں آچکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دو قومی نظریہ ختم ہوچکا ہے۔ اب ہم نے اپنی آزاد و خود مختار حیثیت کے ساتھ ہندوستان کو اپنا پڑوسی تسلیم کرنا ہے، اور یہ کہ بہتر تعلقات قائم کرنے ہیں۔

مشکل یہ ہے کہ سفارتی تعلق کو بھی یہاں دو قومی نظریہ کی میزان پہ تولا جاتا ہے۔ جو بہتر تعلق کی بات کرے، گویا اس نے پاکستان کے وجود سے انکار کردیا۔ حالانکہ جب آپ سفارت کی بات کرتے ہیں یا ہندوستان کو پڑوسی کہتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان ایک خود مختار وجود ہے جو اپنی باقاعدہ شناخت رکھتا ہے۔ مگر کوئی ہے جس نے اس بیچ ہمیں یہ بتادیا کہ چونکہ ہندو کے بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہوتا ہے اس لیے ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ نفرت بیچنے والوں نے ہمیں یہ بھی پڑھایا کہ ہندو کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے کی کسی بھی درجے میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جو بھی گنجائش نکالے اس سے سوال کرو کہ اگر آج ہندوستان کے ساتھ رسم و راہ بڑھانی ہے تو پھر یہ ملک کس لیے بنایا گیا تھا۔

آپ اگر اس خون کو بچانے کی کوشش کریں جو آج گر رہا ہے یا کل گرے گا، تو آپ کے سامنے ماضی میں گرنے والا وہ خون رکھ دیا جائے گا جو اس دھرتی کے لیےگراتھا ۔ یہ خون آپ کو دکھا دکھا کر ہجرت کرنے والے قافلوں کا واسطہ دے کرکہا جائے گا کہ ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھانا۔ یعنی ہم روز اپنے بچوں کے خون سے گلیوں، بازاروں، عدل گاہوں اور تعلیم گاہوں کو اس لیے رنگیں گے کہ اس وطن کے لیے ہمارے اجداد نے لہو دیا تھا ؟ ٹھیک یہی معاملہ سرحد کے اس پار ہے۔ نفرت کے کچھ سوداگر بیٹھے ہیں۔ ان کے گھر کا چولہا صرف اس ایک نعرے پر جل رہا ہے کہ اس دھرتی ماتا کا ہم پر قرض ہے کہ ہم پاکستان سے تقسیم ہند کا بدلہ لے کر رہیں۔ وہاں بھی کچھ صحافی ہیں جو غداری کی اسناد کوٹ کی جیب میں لیے پھرتے ہیں۔ کچھ پردھان منتری وہاں بھی ہیں جو پالش کی ڈبیہ احتیاطاً گاڑی میں رکھتے ہیں۔ کچھ محب وطن وہاں بھی ہیں جنہیں یہ بات آخری درجے میں سمجھ آچکی ہے کہ ایک مسلمان پر اور خاص طور سے پاکستانی پر بھروسے کا کہیں کوئی امکان موجود نہیں ہے۔

آج چھ ستمبر ہے۔ ہمیں ایک عہد کرنا ہے۔ تعلق اور رواداری کا عہد۔ استحکام کا عہد۔ یہ عہد مگر ناتمام ہے اگر ہم یہ سمجھنے سے انکار کردیں کہ ہماری شہہ رگ پر لٹکی ہوئی تلوار کے پیچھے ہاتھ کس کا ہے۔ کابل کی مرکزی شاہراہ پر شربت بیچنے والا بچہ اپنے دل میں آپ کے لیے نفرت رکھتا ہے۔ دلی کے مندر میں بیٹھے پجاری پجاری کی بات نہیں کرتے، احمد آباد اور حیدر آباد دکن کے جذبات آپ کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ تہران و زاہدان کے بازاروں میں کبھی چلیے تو تنہائی اور اجنبیت کا احساس آپ کو مار ڈالے گا۔ میرے منہ میں خاک، مگر دیوار چین پر ابھرتے ہوئے نوشتے کا رنگ بھی کچھ سرخی مائل ہے۔ حالات اگر یہی رہے تو شاہراہ قراقرم بھی کبھی کسی بیوہ کی اجڑی ہوئی مانگ بن کر رہ جائے گی۔ ایک لاوا ہے جو شمال کے فلک بوس پہاڑوں کے سینوں میں دہک رہا ہے۔ کسی نقب زن نے رات کے کسی پہر کمند اچھال دی تو لاوا ابل پڑے گا۔ آپ کہاں کہاں سے دامن بچائیں گے؟ کہاں تک اور کب تک نگاہ رکھیں گے۔

آپ صبح کہتے ہیں کمر توڑ دی، سر شام اپنی کمر پکڑے کراہ رہے ہوتے ہیں۔ آپ شام کہتے ہیں دشمن کو نیست ونابود کردیں گے، صبح اپنے بچوں کے چیتھڑے اکٹھے کر رہے ہوتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ کیوں؟ کیونکہ آپ نےاس زرخیزمٹی میں نفرت کے بیج بو دیئے ہیں۔ اس زمین پرتاحد نگاہ دشمنی کی فصلیں لہرہا رہی ہیں۔ دشمنوں میں اضافے کے سوا ہم نے کیا ہی کیا ہے ؟ ہم دشمن پیدا کرتے ہیں، پھر بتاتے ہیں کہ ساری دنیا کی آنکھ میں پاکستان کے لیے میل ہے۔ کیوں بھئی۔ ؟ کیونکہ یہ اسلام کا قلعہ ہے۔ اسلام کے قلعے اور لال قلعے والا یہ سبق ہمیں اس ملک کے کچھ ایسے سپوتوں نے پڑھا رکھا ہے جن کی مذہب بیزاری پر امرتسر تک پھیلی ہوئی ہاوسنگ سو سائیٹیوں کی ہر شام گواہ بن کر کھڑی ہے۔ پھر انہی بیزارگان نے مذہب و جہاد کی آبیاری پہ اتنا سرمایہ لگا دیا کہ بچےاپنی ماؤں کوروتا چھوڑ کرکوہساروں سے ٹکرانے جارہے ہیں۔ یہ سوداگر اس قدر سفاک ہیں کہ کرائے کے قاتلوں کی اجرت دبانے کے لیے صحائف بیچ میں لے آتے ہیں۔ روکھی سوکھی کھا کر حملہ کیجیے، بدر و احد میں بھی یہی تو ہوا تھا۔ ہم کمر پہ بیلٹ باندھیں گے، تم پتھر باندھو۔

کون ہے جو دہشت گردی سے بیزار نہیں۔ کیا کوئی گھر ایسا بھی رہ گیا ہے جس کے در و بام تک چنگاری نہ پہنچی ہو ؟ کبھی سوچا کہ کیسے پہنچی؟ آپ نے ایک جبڑے سے ملا فضل اللہ کو گالی دی دوسرے جبڑے سے خراسانی کو، مگر کبھی غور کیا ان خاکی گملوں پر کہ جن میں خراسانیوں کے دماغ اگتے ہیں؟ غور کیا کبھی؟ آج چھ ستمبر ہے۔ میری ماں جب ملی نغموں کے سحر سے نکل آئے، تو کچھ دیر یہ سوچ لے کہ اس کی گود اجاڑنے والے الیاس کشمیری کو بائیس برس تک جہادی کیمپوں کا سربراہ کس نے بنا کر رکھا تھا۔ میری بہن نے سوچنا ہے کہ اس کا سہاگ اجاڑنے والے عصمت اللہ معاویہ کو گیارہ برس تک پاکستان بھر میں جہاد کی تبلیغ پر کس نے مامور کر رکھا تھا؟ میری بیٹی نے سوچنا ہوگا کہ اس کو بے آسرا و بے سہارا کر دینے والے بدر منصور کو کارگل کے محاذوں پہ کس نے لڑوایا تھا۔

یہ سارا پاکستان جو ایک سو چونتیس بچوں کی لاشیں دیکھ کرمبہوت ہوگیا تھا، وہ بھی سوچے کہ پاکستان کے دارالخلافہ میں ایک جہادی تنظیم کا کنالوں کو محیط مرکز کس کی ناک کے نیچے سرگرم ہے؟ اس مرکز کے بوسیدہ کمروں میں مستقل دراز رہنے والے یہ زلف دراز کون ہیں؟ یہ صبح بچوں کو قطار میں کھڑا کر کے کیا پڑھاتے ہیں ؟ کراچی یونیورسٹی کی بغل میں تین کنال کے پلاٹ میں جہادی سرگرمیاں کس کی اجازت سے جاری ہیں؟ یہ ایک ریشمی دستار والے صاحب جو ہرصبح سیاہ شیشوں والی ویگو سے کھنچتے چیمبروں کے شور میں یہاں اترتے ہیں یہ کون ہیں ؟ ان صاحب کو سیکورٹی کمپنی کھول کر قانونی طریقے سے اسلحہ جمع کرنے کا مشورہ کس نے دیا ؟ کراچی چرچ پہ حملے میں نامزد اس جہادی رہنما کو سیکورٹی کمپنی اور جدید اسلحے کا لائسنس کس کی مدد سے ملا ؟ کراچی کے جید علمائے کرام کو یہ شخص بلامعاوضہ سیکورٹی کیسے فراہم کررہا ہے؟ یہ چپٹی ناکوں والے جو یہاں آتے ہیں، راتوں کو ٹھہرتے ہیں، یہ کس ملک کے باشندے ہیں ؟ کیا یہ یہاں اون کا کاروبار کرنے آتے ہیں؟ پاکستان کے سب سے بڑے جہادی رہنما کے پانچ سو سے زائد اسکولوں میں کون سا نصاب پڑھایا جارہا ہے؟ یہاں کمسن بچوں کو لیکچرز دینے کے لیے آنے والے خوفناک چہرے کس کے ہیں ؟ جہادی نصاب کس کی اجازت سے پڑھایا جارہا ہے؟ مرید کے کی فضاؤں میں موجود ہراس کا یہ عالم کس کا مرہون منت ہے ؟ ان کے قائم کردہ طبی مراکز میں کن لوگوں کا علاج معالجہ ہورہا ہے؟ کوئٹہ کے نوے کلے میں بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیاں کس کے دم قدم سے دھول اڑاتی ہیں ؟

پچھلے گیارہ برس میں نفرت کی فصل لگانے والوں نے اس قوم کو بتایا کہ تحریک طالبان کے کارندے اپنے جنگجووں کو منشیات کا عادی بناتے ہیں، انہیں خیالوں میں بہشت اور حور و غلمان دکھاتے ہیں، پھر انہیں مرنے پہ آمادہ کرتے ہیں۔ اپنے کیے کو چھپانے کے لیے اس سے اچھا جھوٹ تخلیق ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ میں حیرت سے مرا جاتا ہوں کہ اس ملک کے ماہرین نفسیات بھی اسی جھوٹ پہ ایمان رکھتے ہیں۔ او بندہ خدا ! یہ بیانیہ ہے بیانیہ۔ یہ فکر ہے فکر۔ یہ سوچ ہے سوچ، سمجھتے کیوں نہیں۔ یہ وہ فکر ہے جو ان جہادی مراکز میں آج بھی پڑھائی اور سکھائی جارہی ہے جو اوپر ذکر ہوئے۔ کیا الیاس کشمیری منشیات کا عادی تھا؟ کیا خراسانی گانجا پیتا ہے؟ کیا فضل اللہ چرس پیتا ہے ؟ کیا حکیم اللہ محسود صمد بونڈ کا نشہ کرتا تھا؟ کیا طارق آفریدی گردے کا رسیا تھا؟ کیا بدر منصور شیواز کا مارا ہوا تھا؟ انہوں نے جو کیا پورے شعور کے ساتھ کیا۔ جنہوں نے جسموں پہ بم باندھے بقائمی ہوش وحواس باندھے۔ اس اقدام کے پیچھے اس بیانیے کی طاقت ہے جس کے خلاف آپریشن ضرب عضب کرنا دراصل اس فصل کو آگ لگانا ہے جس پہ بڑے مان سے سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ کوئی لگائے گا آگ ؟ نہیں ؟ تو پھر یہ ماتم کیسا ؟

آج یوم دفاع ہے۔ آؤ کہ عہد کریں۔ دفاع کا عہد۔ استحکام کا عہد ۔ سچ کہنے کا عہد، سوال اٹھانے کا عہد، کھوج لگانے کا عہد، پناہ مانگنے کا عہد ۔ خدا کی پناہ مانگیں ہندوستان کی بی جے پی، آر ایس ایس شیو سینا بجرنگ دل اور ان کے مالکان سے۔ خدا کی پناہ مانگیں جماعۃ الدعوہ جیش محمد حرکت المجاہدین غلبہ اسلام اور ان کے مالکان سے۔ اگرنہیں، توپھر روئیے مت۔ پھر چلائیے مت۔ کمر مضبوط رکھیے۔ ٹوٹی کمر والے آتے ہوں گے۔ ابھی کچھ ضروری حملے رہتے ہیں۔ ابھی کچھ اہم لاشیں دفنانی ہیں۔ ابھی کچھ گالیاں باقی ہیں۔ جو فضل اللہ کو دینی ہیں۔ کیونکہ ابھی بیانیہ باقی ہے۔ بیانیہ باقی، فضل اللہ باقی۔ ہر بغل سے فضل اللہ نکلے گا۔ تم کتنے فضل اللہ ماروگے ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments