یوم دفاع۔ ماؤں کے دل دہلتے ہیں


\"zafarullah-khan-3\"

ابن انشاء بیمار تھے۔ قدرت اﷲ شہاب ملنے گئے۔ انشا جی سے پوچھا کہ اگر دوبارہ زندگی مل جائے تو اسے کیسے گزارنی چاہے گا؟ شہاب لکھتے ہیں کہ انشاء کی تشنہ تکمیل تمناؤں، آرزؤں اور امنگوں کی تفصیل اتنی طویل تھی کہ سناتے سناتے آدھی رات بیت گئی۔ اس کے بعد انشاء نے شہاب سے یہی سوال پوچھا تو شہاب نے کہا، ’بہت سی کج فہمیوں، کمزوریوں، خطاکاریوں اور غفلتوں کی اصلاح کر کے میں دوسری زندگی بھی مجموعی طور پر ویسے ہی گزارنی چاہوں گا جیسے کہ موجودہ زندگی گزار رہا ہوں‘۔ حقیقت کیا ہے؟ افسانہ کیا ہے؟ یہ شہاب جانے یا انشاء جانے۔ کل ایک مکالمہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ کردار یہیں کہیں موجود ہوں گے بند شیشوں اور دریچوں کے پار یا پاس۔

معززخاتون نے بالک سے پوچھا۔ دوبارہ زندگی ملے تو کیسے گزارو گے؟

بالک سوچتا رہا۔ اسے یاد آیا وہ کہاں سے چلا تھا۔ سخت سردی میں صبح سویرے تختی پر ملتانی مٹی کا لیپ پوت کر وہ گیلی تختی ہاتھ میں پکڑے، سٹاپو کھیلتے سکول کی جانب رواں ہے۔ ہاتھ میں دس پیسے کے دو سکے اور پانچ پیسے کا ایک سکہ۔ پچیس پیسے۔ اس کی کل دولت پچیس پیسے اور ساری کائنات اس کے قدموں تلے۔ منظر بدلتا ہے۔

بالک سکول سے واپس آتا ہے۔ اسے بھوک لگی ہے۔ ماں باسی روٹی اور رات کا سالن لا کر سامنے رکھتی ہے۔ وہ ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ دو چار نوالے کھانے بعد وہ ماں سے کہتا ہے، ماں سالن سے بدبو آ رہی ہے۔ ماں سالن سونگھتی ہے۔ کہتی ہے، نہیں میرے لال ٹھیک ہے۔ پھر ماں دو چار لقمے لیتی ہے مگر بالک کھانے سے انکار کر دیتا ہے۔ ماں بھاگ کر اس کے لئے قہوہ بنا کر لاتی ہے۔ وہ قہوئے میں باسی روٹی بھگو کر کھاتا ہے۔ ماں کی آنکھوں سے چند قطرے آنسوؤں کے بہتے ہیں۔ بالک ماں کی گود میں سر رکھتا ہے۔ ماں کے ٹخنوں میں دراڑیں پڑی ہیں جن میں خون جما ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کائنات کو تو ان خون آلود قدموں تلے ہونا چاہیے تھا۔ اس منظر کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

بالک رومال میں چار کتابیں باندھتا ہے۔ وہ کالج جا رہا ہے۔ چھ کلومیٹر پیدل چلنا ہے۔ اس کی جیب میں دس روپے کا نوٹ ہے۔ راہ چلتے وہ خود سے بولتا رہتا بے تکان۔ لاتعداد موضوعات ہیں۔ سوال بھی اس کے اپنے ہیں۔ جواب بھی وہ خود دیتا ہے۔ راہ چلتا کوئی راہ گیر اس کو بڑبراتے دیکھ کر مسکراتا ہے تو بالک جھینپ سا جاتا ہے۔ وہ کالج سے واپس شہر پہنچتا ہے۔ سخت گرمی ہے۔ گھر تک تانگے کا کرایہ دس روپے ہے مگر اسے بھوک لگی ہے۔ وہ تندور سے ایک گرم روٹی خریدتا ہے۔ گرمی سے بچنے کے لئے ایک دوکان میں گھستا ہے۔ دوکان کا مالک اچار کی بالٹی میں چمچ بگو کر اس کی روٹی پر ملتا ہے۔ بالک انکھیں چرا کر دوکان سے نکلتا ہے۔ گاؤں کے سامنے والی پہاڑی پر جا کربیٹھتا ہے۔ تھوڑی دیر خاموش رہتا ہے۔ پھر آسمان کی جانب انگلی اٹھا کر لمبی تقریر کرتا ہے۔ پاس سے ایک کسان نکل آتا ہے۔ وہ بات ادھوری چھوڑ دیتا ہے۔ نالوں کے جواب کب آتے ہیں۔ منظر ایک اور انگڑائی لیتا ہے۔

معزز خاتون پھر پوچھتی ہے۔ دوبارہ زندگی ملے تو کیسے گزارو گے؟

بالک خیال سے نکل آتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ دوبارہ زندگی ملے تو بلستان کے کسی دور افتادہ مقام پر جاؤں گا۔ انگوروں والے گاؤں سے پرانی لکڑی کے چند ستون مانگ کر لاؤں گا۔ جھرنوں کر کنارے سے خودرو گھاس کاٹ کر سکھاؤں گا۔ ایک جھونپڑی بناؤں گا۔ اس کے پاس ایک ویران مسجد بناؤں گا۔ چار بکریاں پالوں گا۔ صبح دم بکریوں کو سر سبز میدانوں کی طرف لے کر جاؤں گا۔ بکریاں گھاس کھائیں گی۔ میں بانسری بجاؤں گا۔ پیٹ بھر جائے تو خوشی محسوس ہوتی۔ سارے جھگڑے اس بھوک کے ہی تو ہیں ۔ بکریوں کا پیٹ بھرے گا تو وہ سستانے کے لئے قریب آئیں گی ۔ میں خوشی سے چلا اٹھوں گا۔ آواز کی گونج پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آئے گی تو بکری کا چھوٹا بچہ ڈرکر ادھر ادھر بھاگے گا۔ میں دوڑ کر اسے گود میں اٹھا کر پیار کروں گا۔ انسان تھک بھی تو جاتا ہے۔ شام کو سب گھر لوٹتے ہیں۔ کوئی نکل کر لوٹ نہیں پاتا۔ کسی کی بھوک اسے نگل جاتی ہے۔ میں بھی بکریاں لے کر گھر لوٹوں گا۔ ویران مسجد کے اندر جا کر گیلی مٹی پر ماتھا رگڑوں گا۔ کیوں رگڑوں گا؟ معلوم نہیں۔ ستونوں سے لپٹ کر ان پر گال مس کروں گا۔ کیا مانگوں گا ؟ معلوم نہیں۔ شاید گاؤں کے پہاڑی پر ادھورا چھوڑا مکالمہ پورا کروں گا۔ مگر نالوں کے جواب کب آتے ہیں۔

تخیل میں جنت کی تخلیق میں کیا برائی ہے۔ کیا برا ہے کہ انہی ویرانوں میں مدتوں بعد کوئی بے چین روح خود کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان پہاڑوں تک آئے ۔ چرواہا سانس کی مالا دھار پر رکھتا ہے تو بانسری سے ایسے نکلتے ہیں کہ بہرا بھی سن لے۔ وہ بانسری بجاتا ہے۔ ایک بے چین روح سنتی جاتی ہے۔ وہ حراموش جاتے ہیں۔ فیری میڈوز کے میدانوں سٹاپو کھیلتے ہیں۔ جھرنے، جھیل اور پہاڑوں پھر آوارہ پھرتے ہیں۔ چرواہا صبح دم فروری کی دھوپ میں ہرن کی کھال پر بٹھاکر اس کے لئے قہوہ بناتا۔ تعلق کے تار الجھ جاتے ہیں۔ مگر چرواہا تو بالکا ہے۔ مرید بن سکتا ہے محبوب نہیں۔

معززخاتون خاموشی سے سنتی چلی جاتی ہے۔ بالک بے خودی سے نکل آتا ہے۔ چلیں چھوڑیں۔ واپس آتے ہیں حقیقت کی دنیا میں۔ جہاں ٹماٹر پیاز بکتے ہیں۔ خاتون کہتی ہے۔ اس سب کے بعد بھی حقیقت کی دنیا اتنی بری نہیں۔ بالک کہتا ہے۔ اچھے برے میں دکھ سکھ کے مقام کا فرق ہوتا ہے۔ مطلق اچھا یا برا کچھ نہیں ہوتا۔ جو سکھ میں ہے اس کے لئے سب اچھا ہے۔ جو دکھ میں ہے اس کے لئے سب برا ہے۔ بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ کچھ کہانیاں ادھوری چھوڑ دینی چاہیں۔

بالک رات کے پہر ماں کو فون کرتا ہے۔ ماں گھبرا کر پوچھتی ہے خیریت؟ بالک کہتا ہے۔ جی اماں بس آپ کی یاد آ رہی تھی۔ ماں سب سمجھتی ہے۔ وہ کہتی ہے۔ بیٹا وقت پر سویا کرو۔ بالک کہتا ہے۔ جی اماں۔ ماں دعائیں دیتی ہے۔ پھر گفتگو ختم ہوتی ہے۔ ماں کی آواز ابھرتی ہے۔ بیٹا بات سن! جی اماں۔ بیٹا وہ کل پاکستان کا کوئی دن ہے؟ جی اماں یوم دفاع ہے کل۔ بیٹا کل باہر نہ نکلنا۔ ہر جگہ دھماکے ہو رہے ہیں۔ بم پھٹ رہے ہیں۔ میرا دل دہلتا ہے۔ جی اماں! نہیں نکلوں گا۔

آج یوم دفاع ہے۔ دیکھیے آج کے دن بھی ماؤں کے دل دہلتے ہیں۔ آپ سب کو یوم دفاع مبارک ہو۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments