بک شیلف کے پیچھے کھڑا ہیرو اور پاکستانی خواتین


\"malihaیہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ہم نئے نئے یونیورسٹی میں وارد ہوئے تھے۔ پہلی محبت کی طرح یونیورسٹی کی طالب علم ہونے کا نشہ بھی سر چڑھ کے بول رہا تھا لیکن پھر یہ نشہ ہرن ہوگیا۔ وجہ ایک فقرہ بنا جو ایک ایسی محترمہ نے اچھالا تھا جنہوں نے بذات خود یونیورسٹی تو کیا کالج کی شکل بھی نہ دیکھی تھی۔ فرمانے لگیں کہ اچھا تو کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ آپ لائبریری کے بک شیلف میں سے کتاب نکالیں اور دوسری جانب ہیرو کا چہرہ دکھائی دے۔ سوال کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ ہم ہونق بنے ان کی شکل دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر شدید مایوسی کے عالم میں جواب دیا کہ نہیں ہماری لائبریری میں بک شیلف نہیں لوہے کی دروازوں والی الماریاں ہیں۔ یہ ہے میڈیا کی طاقت! ظاہر ہے کہ حصول تعلیم کے لئے گھر سے قدم نہ نکالنے والوں کی معلومات کا کلی انحصار ابلاغ عامہ کے مختلف ذرائع پر ہی ہوتا ہے خاص کر ڈرامے یا ڈائجسٹ کہ عموماً گھریلو خواتین کو سب سے زیادہ دلچسپی بھی انہی میں ہوتی ہے اور بدقسمتی سے یونیورسٹی کے پس منظر میں ہیرو ہیروئن کے ٹاکرے کے لئے استعمال کیا جانے والا یہ گھسا پٹا سا آئیڈیا ان دونوں ہی میڈیمز میں اس قدر شدومد سے استعمال ہوتا ہے کہ ہیروئن کے لائبریری میں داخل ہوتے ہی قاری یا ناظر یہ جان جاتا ہے کہ اب ہیرو سے ملاقات ہونے سے پیمرا کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔

گزرے وقتوں کا یہ قصہ گزشتہ روز اس وقت دوبارہ ذہن میں تازہ ہوا جب سوشل میڈیا پر کپڑوں کے نئے برانڈ کا اشتہار نگاہ سے گزرا۔ امکان ہے کہ آنے والے چند روز کے دوران یہ اشتہار سوشل میڈیا پر بحث کا گرما گرم موضوع بنا رہے کہ اس میں غیرت برگیڈ کے لئے اعتراض کے قابل بھی بہت سا مواد ہے اور ’’آزادی دو‘‘ مہم چلانے والوں کے لئے بھی اس میں امید دلانے لائق کہانی بھی موجود ہے۔موضوع بحث یہاں بھی خواتین ہی ہیں۔ اشتہار کے آغاز میں ایک ڈری سہمی، چادر میں ملفوف حسینہ کو رکشے سے اتر کے راہ چلتے دکھایا گیا ہے۔ کیمرے کا لینس قریب ہی موجود کچھ اور خواتین کو بھی دکھاتا ہے جو جدید تراش خراش والے ملبوسات میں پراعتماد انداز میں خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ اسی دوران ایک نوجوان چادر والی حسینہ کے قریب سے گزرتا ہے اور روایتی دلبرانہ انداز میں ’’ماشاء اللہ‘‘ کہتا ہوا گزر جاتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ خاتون کے اندر کی نڈر، جرات سے بھرپور عورت اچانک جاگ اٹھتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس جراتمندی اور بہادرانہ طبیعت کے ساتھ انہیں چادر کی ضرورت باقی نہ رہی تھی، سو وہ اسے اتار پھینکتی ہیں اور پس منظر میں شروع ہونے والی بے ہنگم موسیقی پر رقص شروع کردیتی ہیں۔ بازار میں موجود باقی کی خواتین جنہیں پہلے کیمرے کی آنکھ دکھا چکی تھی، وہ بھی صف باندھ کے یہ فریضہ سرانجام دینے لگتی ہیں ۔ اشتہار بنانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس اشتہار کے پس پردہ کوئی پیغام ان کا مقصد ہرگز نہیں ہے اور چونکہ ان کے برانڈ کی تھیم ہی ’’ ڈو یور اوون تھنگ‘‘ ہے، اسی لئے انہوں نے اشتہار بنانے والی کمپنی کے اس اشتہار کو بھی ہنسی خوشی قبول کر لیا ہے۔ یہ اشتہار اور کپڑے کا برانڈ نیا ہے لیکن اس میں دکھائی گئی کہانی پہلے بھی سینکڑوں ہزاروں بار میڈیا کی زینت بنتی اور متعدد سوالات کو جنم دینے کا باعث بنتی رہتی ہے جیسا کہ

کیا جدید لباس میں موجود لڑکیوں کو لڑکے تنگ نہیں کرتے؟

عورت صرف چادر یا برقعے میں ہی کیوں خوفزدہ دکھائی جاتی ہے؟

کیا بھرے مجمعے میں ناچنے گانے سے خواتین مردوں کو خوفزدہ کرسکتی ہیں ؟

چادر یا برقعہ اتار پھینک دینے سے اعتماد کیسے پیدا ہوجاتا ہے؟

اور وغیرہ وغیرہ۔

یہ وہی رویئے ہیں جو پاکستانیوں کو ہر دوسرے ڈرامے، کہانی کے ذریعے دکھائے جاتے ہیں کہ کیسے مظلوم لڑکی، برسوں تک خاندان بھر کے ناروا سلوک کو برداشت کرنے کے بعد جب اپنے حقوق کی جنگ لڑنے اور حالات تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اولین تبدیلی اس کے حلیئے اور لباس میں ہی آتی ہے۔ کیا واقعی کپڑوں سے آزادی ہی اس آزادی کی ضمانت ہے جس کے لئے پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حقوق کی تنظیمیں کوشاں ہیں؟ چادر، برقعہ یا نقاب عورت کی صلاحیتوں پر پردہ تو ہرگز ہرگز بھی نہیں ڈال دیتا پھر ایسے میں کمزور، لاچار، دوسروں کے سہارے کی محتاج عورت کی منظر کشی کے لئے ہی اس چادر کو کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا میں ایک خاص قسم کے پس منظر اور زاویہ نگاہ سے جب عورت کو با اعتماد، خود انحصاری کا حامل اور جرات مند دکھائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اس سادہ لوح عوام کے ذہن میں عورت کے حوالے سے اس روایتی تصور کو راسخ کرنے میں اور بھی زیادہ مدد دیتی ہے کہ جس کے مطابق پڑھی لکھی، آزاد اور باشعور عورت خاندان کی ناک کٹوانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ عورت کو اس کے جائز حقوق سے آگاہ اور انہیں حاصل کرنے کا اہل دکھانے کے لئے اسے ایک عام پاکستانی عورت کے جیسا بھی دکھایا جا سکتا ہے؟ وہ عام عورت جو بڑی سی چادر اوڑھے دشوار گزار پہاڑی راستوں پر ٹرک بھی چلا لیتی ہے اور اندرون سندھ وڈیرے کی زمینوں پر بطور مینیجر کام بھی کرلیتی ہے لیکن مشرقی عورت کے سے انداز میں۔

بغور جائزہ لیا جائے تو اس قسم کے اشتہارات ڈراموں میں پیش کیا جانے والا یہ زاویہ خود ان خواتین کے لئے بھی نقصان دہ ہے کہ جن کے جائز حقوق انہیں دلوانے کے لئے ہمارا میڈیا سرگرم دکھائی دیتا ہے ۔ ابلاغ عامہ کی ایک پراثر تکنیک کا نام ’’فریمنگ‘‘ ہے جس کے تحت میڈیا، عوام کو کسی بھی معاملے میں ایک خاص زاویہ فکر دیتا ہے ۔ یونیورسٹی کے بک شیلف کے پیچھے سے جھانکتا ہیرو کا چہرہ بھی اسی فریمنگ کا کرشمہ ہے اور بدقسمتی سے خواتین کے معاملے میں بھی یہی تکنیک کارگر دکھائی دیتی ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت شرح تعلیم کے اعتبار سے 160ویں نمبر پر ہے جبکہ ملک میں شرح خواندگی 55 فیصد ہے ۔تعلیم کی یہ شرح دیہاتی علاقوں میں بیس فیصد سے بھی کم ہے جبکہ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں شرح خواندگی 80 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ شہری اور دیہاتی ماحول کے بیچ میں تعلیم کی صورت میں تفریق کا باعث بننے والی اس لکیر کو مٹانے میں میڈیا کا ہی کردار اہم ہے ۔ خاص کر اندرون سندھ، پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے دور دراز گاؤں جہاں ٹی وی ہی معلومات کا اہم اور بڑا ذریعہ ہے، یہاں کے باسی جب خواتین کو اپنی اقدار سے اس انداز میں بغاوت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ کیونکر اپنی بہو بیٹیوں کو زیورِتعلیم سے آراستہ ہونے یا خود انحصاری کی جانب قدم بڑھانے پر آمادگی ظاہر کرسکتے ہیں؟ مانا کہ مہذب معاشرے کا فرد ہونے کے ناطے نہ مجھے اور نہ آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ ہم کسی بھی فرد کے لئے یہ طے کریں کہ وہ اپنی شخصیت کو کس سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے اور عورت کو یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو برقع پہنے یا پھر گلے میں مفلر لپیٹ کے گھومے لیکن اسی اصول کے تحت یہ کہاں کا انصاف ہے کہ صرف ایک جدید وضع قطع کی حامل عورت کو ہی محض روشنی کی علامت کے طور پر پیش کیا جائے؟ اگر حقیقی دنیا میں شہناز لغاری نقاب کے ساتھ ہوائی جہاز اڑا سکتی ہیں تو ہم میڈیا پر ایک چادر میں ملبوس عورت کو کیوں نہیں ملٹی نیشنل کمپنی کا مالک دکھا سکتے؟ صرف اسی لئے ناں کہ مرتب کردہ پیمانوں میں چادر یا دوپٹہ جدیدیت کی علامت ہرگز نہیں۔ خدارا خواتین کے لئے پیمانے مرتب کرنا چھوڑ دیجیئے۔ اگر خواتین کی حقیقی آزادی مطلوب ہے تو ان کی ظاہری وضع قطع کی جگہ ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر ان کو جانچیئے۔ انہیں خود یہ فیصلہ کرلینے دیجیئے کہ وہ دوپٹہ اپنے سر پر لینا چاہتی ہیں یا اسے کھونٹی کی زینت بنانا چاہتی ہیں۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments