لاڈلا دانشور اور بڈھا عاشق زار


\"???????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????????\"لاڈلا: آپ سے یہ توقع نہیں تھی بزرگو۔۔۔ صاحب جان عالم کا مضمون سیاسی تماشہ گری کی اعلیٰ مثال ہے، آپ اسے چھاپیں تو ٹھیک لیکن اسے مدلل کہہ کر اس کا دفاع بھی کریں؟ یہ تو حد ہی ہو گئی مولانا۔۔۔ فضل الرحمان کو دیگر ملاؤں کی نسبت \”سیاسی\” کہا جائے تو بات بھی بنتی ہے، مگر گیارہ سال مشرف جیسے آمر کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈال کر نبھانے والے کو ایںٹی اسٹیبلشمنٹ بنا کر پیش کرنا۔۔۔ واللہ، کوئی حد ہوتی ہے بھئی، حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے۔۔۔

 درویش: آپ بزرگ کہہ کر میری حوصلہ شکنی فرماتے ہیں۔ اگر آپ باز نہ آئے تو میں آپ کو برادر بزرگ کا خطاب دے دوں گا۔ درویش جسے برادر بزرگ قرار دے دے، اس کی کئی نسلیں گناہ کے لطف سے محروم ہو جاتی ہیں۔ نام سنتے ہی بلبلا کر چلاتے ہیں کہ تجھے گناہ گاروں کی آہ لگے۔ تری دعا کو رسائی نصیب نہ ہو، تیری بددعا میں تاثیر نہ رہے ۔

لاڈلا: اچھا چلیے، بھائی جان ہی سہی ۔۔۔ پر ایسی زیادتیاں نہ فرمائیں، جی جلتا ہے

درویش: جی جلتا ہے؟ داغ نے غالباً کہا تھا، جی جانتا ہے۔ کچھ اشعار یاد آ گئے۔ فصیح الملک کا کلام ہے، مطلع اور مقطع عرض کرتا ہوں

 لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کہ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

بھائی صاحب جان عالم کا مضمون میری غیر حاضری میں پیر مغاں (اخوان الشیاطیں – حلقہ جنوبی) نے شائع کیا تھا۔ گناہ ثواب کچھ ان کی گردن پر رہے تو اچھا ہے۔ میری دونوں سے آشنائی ہے۔

لاڈلا: آہا، غلطی کا ملبہ پٹھان پہ ڈال دیا نا۔ پٹھان کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے پہلے سے را کا ساتھی قرار دے رکھا ہے۔

درویش: چلئے غداری کے اس الزام میں اتنا قریب تو آئے۔ کم از کم را، سی آئی اے اور موساد کی تہمت سے تو بچے۔ دیکھئیے صاحب، سینہ گزٹ اور نوٹی فی کیشن کی سہی نہیں۔ پختون ہمارا تو بہن بھائی ہے۔ ہم ایسا سوچتے بھی نہیں۔

لاڈلا: بھائی یہ صاحب جان عالم صاحب سے کہیں، مولانا کو اپنا لبرل دوست بنا لیں، قوم پرست کے عنوان سے بھی قبول ہیں، انہیں سوشلسٹوں کے کھاتے میں کہاں ڈالتے ہیں یار؟

درویش: بھائی، ہم لوگ تو ملا نہ مصاحب نہ صحافی۔ نہ سوشلسٹ اور نہ قوم پرست۔ آپ جانیں، آپ کا دوست صاحب جان عالم جانے۔ ہمیں تو خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم۔۔۔

لاڈلا: گویا نصف شب کے بعد آپ \”کچھ نہیں\” رہتے۔۔۔۔ نو مینز لینڈ میں چلے جاتے ہیں۔ صاحب عالم کو سند آپ نے ہی عطا کی ہے بھائی جان۔

درویش: میرا خیال تھا کہ رات ڈھلتی ہے تو میں آپ کے دل کی طرف مراجعت کر جاتا ہوں۔

لاڈلا: خیر یہ سب تو فقرے بازیاں ہیں اہل لاہور کی۔ جس دل میں آپ نے مراجعت کرنی ہے، وہ آپ ہی کے کاشانہ میں کہیں پایا جاتا ہے، ن م راشد کے لفظوں میں دریچے کے قریں۔۔۔ اتنی دور میرے دل تک تشریف لانے کی زحمت کاہے کو کرتے ہیں

درویش: برادر، درویش کی کیا بساط کہ کسی کو سند دے۔ فقیر خود بے استادا ہے۔ میں تو امید کا بچہ دوستوں کی گود میں ڈال دیتا ہوں کہ اندھیری رات میں جہاں تک ہو سکے، قدم مارتے رہیں۔ تھک گئے اور دل ہار گئے تو باقی کیا بچے گا۔

لاڈلا: یہ امید کا لنگڑا بچہ ہے، مزید مایوسی بڑھائے گا۔\"baloch-singer-profile\"

درویش: آپ ایک نقش بند راسخ العقیدہ ساتھی ہیں۔ درویش محض اکتارہ بجانے والا سازندہ

لاڈلا: طعنے سے کام نہیں چلے گا۔۔۔۔

درویش: سبحان اللہ۔ درویش کی لجاجت بھی طعنہ کہلاتی ہے

لاڈلا: اکتارہ بجانے کا نقصان یہی ہے کہ سازندہ ہر محفل میں فن کا مظاہرہ کرنے پہنچ جاتا ہے

درویش: محفل ہائے رنگ رنگ میں صحبت رہی، مشکل یہ ہے کہ آپ کی محفل میں بار نہیں پاتا۔  ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

لاڈلا: سو سو طرح سے مرنے کا مطلب یہی ہوا کہ \”ٹھیک سے مرے ہی نہیں\”

درویش: اٹھ کر گر بھئی۔۔۔ گویا آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ لاہور کے نوبہار تھیٹر میں اس موقع پر آواز آتی تھی، استاد خورشید حسین قصوری، ونس مور

لاڈلا: ہماری محفل میں آپ جیسے تان سیں کی جگہ مسند نشینی ہے، مشکل تب پڑ جاتی ہے جب ہمارا اعلیٰ مسند نشیں، معمول کا گویا بن کر رہ جائے۔

درویش: ہم نے تو آپ کی سواری سجائی تھی سردار صاحب، مسند آپ کا مقام ہے۔ ہماری مجال نہیں۔۔۔ مشکل وقت بھی آتے ہیں میر خان۔۔۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔۔۔ آپ نے زیادہ سختی اٹھا رکھی ہے۔ سب جانتے ہیں آپ۔۔ ذرا جوانی کے جواہر دکھانے کا وقت ہے اور آپ کو زیب دیتا ہے

لاڈلا: میں تیرے عشق میں مر نہ جاؤں کہیں، تو مجھے آزمانے کی کوشش نہ کر

درویش: دیکھئیے فلمی شاعری سے گریز کیا جائے۔ فشار خون کا احتمال ہے۔ کچھ معمولی نکات عرض کئے دیتا ہوں، جنگ اور لڑائی میں فرق ہوتا ہے۔ سالار اور سپاہی میں فرق ہوتا ہے۔ آپ نکتہ دان ہیں۔ حکمت والے ہیں۔ مجھے آپ کے اخلاص پر کوئی شبہ نہیں ۔ رائے دیتا ہوں اور اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتا

لاڈلا:  ہم سالار پہ بھروسہ کیے سپاہی ہیں، سو دم نہیں مارتے

درویش: صاحب تو سالار آپ کو کہا ہے۔ جنگ ہم سب کی ایک ہے۔ لڑائی کے میدان دھوپ چھاؤں کا میلہ ہیں۔ پتنگ آڑائی کبھی آپ نے ؟

لاڈلا: اپنی یا کسی اور کی؟

درویش: ہائے ہائے۔۔۔ ظالم ۔۔۔۔ قیام کوئٹہ کے فاطمہ جناح روڈ پر اور فقرے بازیاں محبوب کی مہندی والی سردار خانم کی ۔۔۔ بھائی کھلاڑی کو سیکھنا ہوتا ہے کہ کہاں ڈھیل کے پیچ کا وقت ہے اور کہاں ڈور کھینچنا ہے۔ شیر افضل جعفری فرماتے تھے،

اتنی بڑھی یاروں کی گڈی

ٹوٹ گیا سنگت کا دھاگہ

لاڈلا: اور اس چکر میں کبھی پانسہ پلٹ بھی جاتا ہے، چال الٹی بھی پڑ جاتی ہے

درویش: بجا فرمایا آپ نے پیر و مرشد۔ کھیل یہی ہے کہ وقت آنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پانسہ الٹ گیا، بازی پلٹ گئی یا میدان ہی غبار ہو گیا۔ خواہی اسے کھیل کہو ، خواہی اسے امتحان جانو

لاڈلا: چلیے یوں ہی سہی۔ آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے

درویش: اور خوبی دیکھئے، مجھے آپ ٹھیک معلوم ہوتے ہیں

لاڈلا: یہی تو ہمارے \”مولانا لوگ\” کرتے تھے: میاں درست آپ بھی ہیں، غلط ہم بھی نہیں کہہ رہے

درویش: ہمارے مولا، مولانا اور مرشد ہمارے دوست ہیں۔ اور ہمارے دوست جانتے ہیں کہ وہ ہمارے دوست ہیں۔ حضور خود ملاحظہ فرما لیں۔ آپ تواتر سے طعنہ زنی فرماتے ہیں اور غلام دم نہیں مارتا۔ اپنی جگ ہنسائی کرواتا ہے، دوست کو ڈھال دیے جاتا ہے۔ تاریخ دوستی دشمنی کی راز دار ہے

لاڈلا: لیجیے، جوانوں کی شوخی بھی اب طعنہ زنی ٹھہری

درویش: شوخی؟ قربانت شوم۔۔۔ سر دوستاں سلامت کہ تو۔۔۔ الخ

لاڈلا: چھیڑ خوباں سے چلی جائے ہے اسدؔ

محبوبائیں رہی نہیں، سو اب یہ شوخی دوستوں پہ ہی آزماتے ہیں

درویش: پشین کی خوبانی کسی روز مل کر کھائیں گے۔ خوبان شہر والا شعبہ تو اب آپ کا ہے۔ فقیر ریٹائر ہو چکا۔ وجہ نیکی نہیں، ہمت کی کمی ہے

لاڈلا: ہمتِ مردانہ؟

درویش: ختم شد آن قصہ پارینہ را۔ ہمات تو خیر ماضی میں بھی جسارت ہی تھی۔ حسن کے بھروسے پر کی گئی۔ اب جسارت بھی زائد المیعاد ہو چکی

لاڈلا: گویا حسن کا بھروسا گیا

درویش: دیس میں آبروئے اہل وفا جاتی رہی، اس معرکے میں حسن کی کیا بساط تھی

لاڈلا: یہاں یہ \”ہمت\” جوش مار رہی ہے، اب اسے \”آزمانے\” کا وقت ہے

درویش: بسم اللہ ۔۔ بسلامت روی و باز آئی

لاڈلا: دیکھئے کیا گزرے ہے، قطرے پہ گہر ہونے تک!!

درویش: کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے۔ ایستادگی سلامت، انجام بخیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments