عثمان قاضی کاسابلانکا کی جیل میں


بارے ”حبوس“ کا کچھ بیاں ہو جائے۔ مراکو کا رسمی دارالحکومت رباط ہے مگر کل پانچ شہروں کو شاہی شہر کا درجہ حاصل ہے جہاں شاہی محلّات واقع ہیں۔ یہاں بادشاہ سلامت اپنے محلّات میں گاہے بگاہے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ ان میں کاسا بلانکا کے محل کے پچھواڑے میں محرابی غلام گردشوں اور برامدوں پر مشتمل سیدھی سڑکوں کا سلسلہ چلا گیا ہے جو ایک وسیع و عریض چوک پر جا ملتی ہیں۔ دو تین گلیوں میں مقامی دستکاریوں کی دکان در دکان ہیں اور دوسری جانب عدالتوں اور محکمہ انصاف کی عمارات، اور ان سے منسلک عرائض نویسوں، وکیلوں اور فوٹو کاپی کرنے والوں کے دفاتر ہیں۔ اس خادم کو اس جگہ کے نام ”حبوس“ کے بارے میں تعجب تھا کہ تعزیرات ہند میں ”حبس دوام بہ عبور دریائے شور“ کی ترکیب اور اپنے مربی و دوست محترم سرور جاوید کے مجموعہ کلام ”سرِ محبسِ شب“ کا عنوان پڑھ رکھا تھا۔

پوچھنے پر پتا چلا کہ واقعی، مدتِ قدیم سے کوئی نصف صدی پیشتر تک یہ جگہ زندان تھی۔ جن محرابی دروازوں سے خریداروں اور سیاحوں کا جمِ غفیر بے غل و غش گزر رہا ہے، وہ تلواروں کے پہرے میں اور اکثر اوقات مقفل ہوا کرتے تھے۔ آج جن دکانوں میں سستے چوغے، نباتات سے بنا سامان آرائش شخصی اور برنجی برتن بِک رہے ہیں، یہ قیدیوں کی کوٹھڑیاں ہوا کرتی تھیں اور بیچ کا چوک وہ جگہ تھی جسے ہمارے ہاں جیل خانوں کی اصطلاح میں ”چکر“ کہا جاتا ہے۔

نباتیات کے زمرے میں ایک درخت ”اراگان“ نامی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ صرف میکسیکو اور مراکش کے پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس پر ایک گری دار پھل لگتا ہے جسے مقامی لوگ صدیوں سے کوٹ پیس کر اس کا تیل نکال کر کھانا پکانے کے کام میں لاتے رہے ہیں۔ حکایت مشہور ہے کہ پچھلی یا اس سے پچھلی صدی میں کسی نے خیال کیا کہ جو خواتین اراگان کا تیل نکالنے کا کام کرتی ہیں ان کے ہاتھوں کی جلد تر و تازہ رہتی ہے اور باقی جسم کی نسبت ہاتھوں پر جھرّیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اس سے اس تیل کے مزعومہ جادوئی اثرات کا غلغلہ پڑا اور دنیا بھر کے منہگے سامان تعیش و آرائش میں اراگان کے تیل اور اس کی مصنوعات اونچے داموں بکتی ہیں۔ کچھ خواتین دوستوں نے کنایوں میں یہ تیل لانے کی فرمائش کی تھی۔ اس خادم نے اس وقت تو یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ”نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی“ لیکن حبوس میں جابجا یہ تیل بکتے دیکھا تو چند ایک شیشیاں خرید لیں۔ واضح رہے کہ یہ حق داروں تک پہنچ چکی ہیں اور آواز دے کر طلب کرنے کا فائدہ نہ ہوگا۔ بہر کیف، یہ خادم اس ”چکر“ میں گھومتا، چند مزید تحائف خریدتا بذریعہ ”سروس“ اور ٹرام قیام گاہ لوٹا اور وہاں سے ہوائی اڈے کی راہ لی۔

دنیا بھر میں پھیلے ہوئے چند احباب اہلِ مراکش کی بے ایمانی اور بد معاملگی کے شاکی دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب کچھ اساتذہ مصر ہیں کہ خصوصا انگریزی و فرانسیسی ادب میں مذکور اس خطے کے جادو اثر اور حور شمائل خوباں کا کچھ تذکرہ کیا جائے۔ سو پہلی بات کے ضمن میں عرض ہے کہ ہر کسی کا اپنا اپنا تجربہ ہے۔ اس خادم کو ٹیکسی والوں سے لے کر طعام گاہ والوں تک کسی نے ٹھگنے کی کوشش نہ کی۔ شاید شکل سے بھانپ گئے ہوں گے اس کے پاس بھلا کیا ملے گا۔

دوستوں کی فہمائش کے باوجود دکانوں پر بھاؤ تاؤ کی عادت نہ ہونے کے سبب یہ خادم واضح کر دیتا تھا کہ ایں جانب مسکین الباکستانی، حال مقیم فی السوریہ ہے، اور بھاؤ تاؤ کے فن کو مکروہ جانتا ہے۔ چنانچہ قیمت بن کہے مناسب سطح پر آجاتی تھی۔ ثانی الذکر فرمائش کا سلسلہ یوں ہے کہ بوجہ کہولت یہ خادم ان معاملات میں اول تو سڑی، کور چشم، چنانچہ بے توفیق واقع ہوا ہے۔ میر صاحب کا پرستار ہونے کے باوجود ان کی نصیحت پر اس عمر میں عمل کرنے کی ہمت نہیں کہ ”اے آہوانِ کعبہ، نہ اینڈو حرم کے گرد۔ کھاؤ کسی کا تیر کسی کے شکار ہو“۔

دوم اگر نظر بظاہر پر فیصلہ کرنا ہو تو اہل الشام کا مقابلہ شمالی افریقہ کے بس کی بات نہیں۔ مراکش، بالخصوص طنجہ پہاڑیوں میں اگنے والی چرس ”موراکن ریڈ“ کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ ممکن ہے اسے پی کر آس پاس ہرا ہی ہرا سوجھنے لگتا ہو۔ یہ خادم اس ضمن میں بھی محرومی بوجہ کم ہمتی کا شکار رہا۔ ”اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہوسکا“۔

اے مختلف جانوروں کی حُرمت و حلّت پر جھگڑنے والے اہل وطن، سن لیجیے کہ اس خادم نے دو تین جگہ دکانوں پر گھوڑے کا گوشت، قیمہ اور مقانق [ساسیجز] بکتے دیکھے۔ اس سے قبل وسط ایشیاء میں اہل اسلام کے ہاں اس کا عام رواج دیکھا تھا مگر اندازہ نہ تھا کہ یہ شوق شمالی افریقہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ اہلِ لاہور کی مبینہ خوراک کے جانور کے بارے میں نہ کسی سے پوچھ پایا نہ کہیں بازار میں اس کا التزام دیکھا۔ برادرم سلیم جاوید کو یہ سن کر اطمینان ہوگا کہ اس خادم نے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں شراب موجود پائی مگر مقامی لوگوں میں سے کوئی بھی مخمور یا بنکارتا نظر نہ آیا کہ ”میں نشے میں ہوں“۔

شبینہ کلب بھی طنجہ میں دو تین نظر آئے۔ مساجد بھی جہاں نظر آئیں بھری پُری ہی دکھائی دیں۔ حجاب و عبایا پوش اور کھلے سر، پتلون یا سکرٹ ڈانٹے خواتین شانہ بشانہ بلکہ کئی جگہ ہاتھ میں ہاتھ دیے نظر آئیں۔ پاکستانی طرز کا برقع صرف ایک روز ایک ہوٹل میں دیکھا لیکن یہ اندازہ نہ ہوسکا کہ خاتون مقامی تھیں یا سیاح۔ قیاس موخر الذکر کا کیا جا سکتا ہے چونکہ ایک منہگے ہوٹل کا ریستوران تھا۔ ایک عظیم الشان مسیحی گرجا بھی کاسا بلانکا میں دیکھا اور یہودی صومعے یا سائنا گوگ کا ذکر تو گزشتہ مضمون میں ہو ہی چکا ہے۔ گویا موسی بہ دین خود، عیسی بہ دین خود۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2