مضبوط دفاع، گندا پانی اور ملک دشمن این جی او


\"mujahidوفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے ایوان بالا میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی اسی فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ وفاقی وزیر کے مطابق ملک کے چوبیس اضلاع کے دوہزارآٹھ سو سات دیہات سے جمع کیے گئے پانی کے نمونوں سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بیاسی فیصد تک پانی کے نمونے مضر صحت ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ اربوں روپے کی لاگت سے شروع کی جانے والی لیبارٹریز کا مقصد پینے کے پانی میں آلودگی کی جانچ کرنا اورشہریوں تک پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ اندوہناک خبر یہ ہے کہ اِن لیبارٹریوں کے عملے کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں مل سکیں اور بہت سے ماہرین اِن کو چھوڑ کر بیرون ملک یا دوسری ملازمتوں پر جاچکے ہیں۔ خبر کے دیگر مندرجات بھی خاصے حوصلہ شکن ہیں۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس خبر کو ہمارے ٹیلی ویژن اور اخبارات کوئی خاص اہمیت نہیں دیں گے کیوں کہ اس میں پانامہ لیکس، میاں نواز شریف، عمران خان، شیخ رشید اور شیخ السلام طاہر القادری کے حوالے سے کوئی انکشاف نہیں، نہ ہی کسی بھارتی سازش کی کوئی رمق ہے اور نہ ہی بظاہرامریکہ کا کوئی ہاتھ نظر آتا ہے۔ اسلام دشمنی کے حوالے سے بھی کوئی مواد اس خبر میں نظر نہیں آتا اس لیے کوئی مبلغ یا دیندار جہادی بھی اس کو درخور اعتنا نہیں سمجھے گا۔

ابھی کل کی بات ہے کہ ہماری افواج کے سربراہ نے پاکستان دشمنوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے اور پاکستان ایک ناقابل تسخیر ملک بن چکا ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا ہے کہ ہم روایتی اور غیر روایتی جنگ میں کسی بھی دشمن ملک کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے بارے میں ایسے ہی جذبات کا اظہار ہمارے سول حکمرانوں نے بھی کیا ہے اور دشمنوں کو چنوتی دی ہے کہ وہ وطن عزیز کی طرف میلی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ یقینی طور پر یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ ہم بحیثیت ملک ایک محفوظ اورترقی پذیر ریاست قرار دیئے جا چکے ہیں اور اب ہمارے سامنے دیگر اہم اہداف ہیں۔ ہم تیزی کے ساتھ راہداریاں تعمیر کررہے ہیں جن کی حفاظت ہمارا فرض ہے کیوں کہ اس طرح ہمارا ملک ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتار سفر کرے گا۔ یوم دفاع کے حوالے سے شاندار معلوماتی پروگرام ہمارے ذرائع ابلاغ پر پیش کیے جارہے ہیں اور بعض ٹی وی چینل فوجی چھاونیوں سے براہ راست پروگرام نشر کر رہے ہیں جن میں ہماری عسکری طاقت اور مہارت کو جذبہ حب الوطنی کے تحت پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے کہ کس طرح ہم اپنا دفاع کریں گے اوراگر خدا نخواستہ کسی عاقبت نااندیش دشمن نے ہماری طرف میلی آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی تو ہم اس کا کیا حشر کریں گے وغیرہ۔

دوسری طرف ایک وزیر ایوان بالا میں کھڑا ہوکرسرعام یہ کہہ رہا ہے کہ اسی فیصد آبادی صحت کے شدید مسائل کا شکار ہے اور اس کو پینے کے لیے جو پانی میسر ہے اس میں فضلہ، مہلک جراثیم، زہریلی دھاتیں، گدلا پن، حل شدہ مضر عناصر، نائٹریٹ اور فلورائیڈ شامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد جان لیوا امراض کا شکار ہوچکی ہے۔ گندے پانی کے استعمال کی وجہ ہے کہ لوگوں میں ہیضہ، ذیابیطس، بلند فشار خون، گردے کے امراض، جلد کے امراض، پیدائشی نقائص اور کینسر کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہمارے ہسپتال مریضوں سے لبالب بھرے ہیں اور جو لوگ شہروں میں قائم ہسپتالوں میں نہیں پہنچ سکتے اُن کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ پچھلے دنوں یہ خبر بھی آئی تھی کہ ملک کے بڑے شہروں میں پانچ سال پہلے لگائے گئے صاف پانی کے ٹیوب ویل خراب ہوچکے ہیں اور صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے اِن ٹیوب ویلوں کا پانی مضر صحت ہوچکا ہے۔ اربوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے صاف پانی کے ٹیوب ویل ناکارہ ہو چکے ہیں، حکومتوں کے پاس پیسے نہیں کہ وہ پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں ایسے ٹیوب ویل لگائے جو عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرسکیں۔ مذکورہ وفاقی وزیر کے پیش کردہ اعداوشمار اور حالات کی دگرگوں تصویر کشی کے بعد کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ اس خوفناک صورت حال کا کوئی مداوا ہوگا۔ ملک میں صاف پانی کے ٹیوب ویل لگیں گے، صاف پانی کے پلانٹ لگائے جائیں گے اور اسی فیصد عوام کو گندے پانی سے لاحق ہونے والی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے کوئی مدد پیش کی جائے گی۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے خراب صحت کے ساتھ ترقی کا سفر طے کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ ہم لاغر اور کینسر زدہ ہوتے ہوئے بھی دشمن کے چھکے چھڑا دیں گے۔ ہمارے بچے جلدی امراض کا شکار ہوں گے لیکن مستقبل کے معمار قرار پائیں گے اور دنیا میں پاکستان کی دھاک بٹھا دیں گے۔ ہمارے کھلاڑی ذیابیطس کے مریض ہوتے ہوئے بھی کھیل کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کریں گے اور کئی عالمی ریکارڈ ہماری جھولی میں ڈالیں گے۔ ہمار ے ڈاکٹر بلند فشار خون کے مرض میں مبتلا ہوتے ہوئے عوام کا دن رات علاج کریں گے اور ہر پاکستانی صحت کی بہتر سہولتوں سے فیض یاب ہوگا۔ ہمارے انجینئر جگر کے امراض میں مبتلا ہوکر بھی ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ہمارے اخبار نویس اور صحافی مذکورہ بالا تمام بیماریوں کے بعد نمودار ہونے والی ذہنی ناہمواریوں اور نفسیاتی امراض کا شکار ہوکر بھی اپنے قلم سے ملک و ملت کی خدمت کریں گے وغیرہ۔

آخر میں یہ قوی اُمید ہے کہ ملک کے کسی کونے کھدرے میں پانچ سے سات افراد بھی اکٹھے ہوکر یہ مطالبہ نہیں کریں گے کہ خود اور اپنے بچوں کو مضر صحت غلیظ پانی نہیں پلا سکتے اس لیے ریاست اُن کے لیے صاف پانی کا بندوبست کرے۔ کسی عدالت کی طرف سے یہ حکم جاری نہیں کیا جائے گا کہ پاکستان چونکہ حالت جنگ میں ہے اور اس کے شہریوں کا مکمل طور پر صحت مند ہونا ناگزیر ہے اس لیے حکومتیں فوری طور پر شہریوں کے لیے صاف پانی مہیا کریں۔ ملک میں نفاذ اسلام کی داعی جماعتیں بھی ایسے کسی کنونشن کا انعقاد نہیں کریں گی جس  میں مسلمانوں کے لیے صاف پانی کا مطالبہ اولیت کا حامل ہو۔ صاف پانی کے حصول کے لیے کوئی جلوس نہیں نکالا جائے گا اور نہ ہی کسی ریلی کا نام”صاف پانی ریلی“ ہوگا۔ حکومت یہ بھی نہیں کر سکے گی کہ لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت صاف پانی کے پلانٹ لگانے کی طرف مائل کرے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار ثواب دارین کے لیے ملک بھر میں لنگر خانے کھلوا دیں گے لیکن کسی ایک گلی محلے کے لیے صاف پانی کا بندوبست نہیں کر پائیں گے۔ بیماریوں سے مرتے ہوئے لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کے لیے کسی آپریشن کا بھی اعلان نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی ملک فروش این جی او نے کہیں کسی گاوں میں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کی کوشش کی تو امکان ہے وزیرداخلہ اس این جی او پر پابندی لگا دیں۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ جس حالت میں ہیں، اُسی میں وطن کے دفاع کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments