دستور گلی میں خوف کی چاپ


\"????????????????????????????????????\"خواجہ محمد کلیم ہمارے محترم صحافی دوست ہیں۔ اخلاص اور درد دل ان کی تحریر کی امتیازی خوبیاں ہیں۔ تصوف کا رنگ ان کی شخصیت کا نمایاں حصہ ہے۔ خواجہ محمد کلیم اپنا جذب دل بیان کرتے ہیں تو کسی فرقہ یا گروہ کے بارے میں نفرت نہیں پھیلاتے۔ ایسا روادار مذہبی ذہن معاشرے کا اثاثہ ہوتا ہے۔ خواجہ کلیم ایک اہم نشریاتی ادارے میں ذمہ دار منصب پر فائز ہیں۔ صحافی کے طور پر ہماری تاریخ کے اہم واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ان کے سیاسی تجزیے میں نعرے کےخروش کی بجائےرائے کا توازن جھلکتا ہے۔ زیر نظر تحریر میں خواجہ کلیم نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں ایک نئی روایت کا ذکر خوبصورت لفظوں میں کیا ہے۔ پڑھنے کے لائق اس تحریر میں راجہ ظفر الحق سے منسوب ایک جملہ البتہ بحث کے دروازے کھول رہا ہے۔ ضیا الحق کے عہد میں اخلاقی الزامات (شراب نوشی اور رقص و سرود) کی پاداش میں کوڑے کھانے والوں کی تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے محترم راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ یہ لوگ سیاسی کارکن نہیں تھے اور نہ ہی انہیں کسی سیاسی الزام میں کوڑے لگائے گئے۔ نہیں صاحب یہاں اختلاف کا پہلو موجود ہے۔ اسی تحریر میں فوجی افسر کی زبانی بتایا گیا ہے کہ عدالت سماعت سے پہلے سزا دینے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ جاننا چاہیے کہ سزا کا یہ فیصلہ قانون کی حکمرانی کے لئے نہیں بلکہ سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ ملک پر آمریت مسلط ہوجائے اور ریاست کی قوت نافذہ کے بل پر انسانوں کی جائز آزادیوں میں مداخلت کی  جائے۔ گناہ کو جرم قرار دیا جائے اور جرم کو گناہ، تو کوڑے کھانے والوں کا اصل جرم مملکت محروسہ کا شہری ہونا قرار پاتا ہے۔ یہاں سیاست اور معاشرت کے ڈانڈے ملتے ہیں۔ اگر شہریوں کی بنیادی آزادیوں کا احترام مجروح ہو جائے تو جمہوریت کا سوال اپنا معنی کھو بیٹھتا ہے۔

ہمارے ملک کی تاریخ میں ایک بڑا المیہ یہ ہوا کہ جمہوریت کی لڑائی میں ہم نے معاشرت کے سوالات کو ایک طرف رکھ دیا۔ ہم تقریر اور تحریر میں شکوہ کیا کرتے تھے کہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ اخلاقی مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ جہاں قانون سیاسی عمل اور معاشرے کی عمومی اقدار میں فرق کرنا شروع کر دے، وہاں سیاست شہریوں کے معیار زندگی، ضروریات اور بنیادی انسانی آزادیوں سے لاتعلق ہوجاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک عام شہری کو خیال پیدا ہوتا ہے کہ ووٹ دینے کی سرگرمی کا اس کی ماں کے علاج یا بیٹی کی تعلیم سے کیا تعلق ہے؟ پھرسیاست وکیلوں کی سرگرمی بن جاتی ہے، صحافیوں کا رزق روٹی بن جاتی ہے، تعلیم یافتہ طبقے کی مجلسوں کا موضوع بن جاتی ہے۔ سڑک پر پسینہ بہانےوالے مزدور کی رگوں میں سیاسی اتار چڑھاؤ سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ جہیز کے انتظار میں بوڑھی ہونے والی لڑکی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ انتخابات کے انعقاد اور پارلیمنٹ کے تسلسل کا اس کے ہاتھ کی مہندی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ رویہ جمہوری ثقافت کی المناک ناکامی کی طرف لے کر جاتا ہے۔

ہماری سیاسی قیادت کا ایک بہت بڑا حصہ اس صورتحال سے مطمئن ہے کہ جلسہ عام میں نماز کی نمائش کی جاتی ہے اور سیاسی قائدین کی شام شروع ہونے کے بعد ڈرائنگ روم کی کھڑکیوں پر پردے گرا دئے جاتے ہیں۔ جن کے پاس وسائل ہیں وہ تفریح کے لئے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ جن کے پاس وسائل نہیں ہیں وہ زہر آلود شراب پی کر مرگ انبوہ کا نشانہ بنتے ہیں۔ اشرافیہ کے بچوں کو تعلیم کے لئے ملک کے اندر اور باہر خصوصی مراعات حاصل ہیں لہٰذا غریب کے بچوں کے لئے سکول میں چار دیواری ہے نہ بیت الخلا، استاد تربیت یافتہ ہے اور نہ نصاب علم کا ذوق پیدا کرتا ہے۔ دس کروڑ لوگ اس ملک میں ناخواندہ ہیں اور سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہم غربت کی تعریف میں تبدیلی کر کے سالانہ اقتصادی جائزے کے اعداد و شمار پر غازہ لگانے اور گلال ملنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے شہریوں کی اکثریت بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہے۔صرف دو وقت کی روٹی کا سوال نہیں، کھانے کی ضمانت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ خوراک کا معیار۔ ہسپتال صرف مریض سے تعلق نہیں رکھتا، صحتمند افراد کے لئے یہ اعتماد بھی ہسپتال کی موجودگی ہی سے پیدا ہوتا ہے کہ بیماری کی صورت میں معاشرہ ان کی تندرستی کا اہتمام کرے گا۔

ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں قابل قدر اجتماعی ادارے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی اکثریت عوام کی بہتری چاہتی ہے۔ سیاسی رہنما کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایسا لائحہ عمل موجود ہے جس کی مدد سے شہریوں کی زندگی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ سرکاری اخبار نویسوں کی تحریریں اور نصابی تاریخ کو ایک طرف رکھ دیجئے، ہمارے ملک کے ہر قومی رہنما نے اس ملک کے لوگوں کی بہتری کے لئے پوری کوشش کی۔ دستور، قانون اور جمہوریت کی بحث سے قطع نظر، معلوم کیجئے گا کہ سو برس پہلے سر فضل حسین پنجابی نوجوانوں کی تعلیم کے لئے کس طرح کوشش کرتے تھے۔ صوبہ سرحد کے رہنما سردار اورنگزیب خان اسلامیہ کالج پشاور کے قیام میں کیوں ذاتی دلچسپی لیتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے ایک گمنام گاؤں کے لئے محمد علی بوگرہ پنڈت نہرو کو کیسے قائل کرتے تھے۔ ستمبر 1958ئ میں عمان سے گوادر کی بندرگاہ خریدنے والے فیروز خان نون کا نام تاریخ میں کس عنوان سے لیا جاتا ہے؟ ایوب خان نے پاکستان کے تین دریا اور دو بڑے ڈیم تعمیر کر کے معیشت کو کس طرح سہارا دیا۔ ایک شکست خوردہ ملک کا رہنما ذوالفقار علی بھٹو اپنے ملکی مفاد میں کیسے عالمی طاقتوں کی آنکھوں مین آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوتا تھا۔ بینظر بھٹو اور نواز شریف نے ملک کی ترقی کے لئے کیا کیا امتحان دیکھے۔ محمد خان جونیجو اور ظفراللہ جمالی بھی اپنی سیاسی کمزوروں کے باوجود ملک کی بہتری کے لئے کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے تھے۔ یہ سب درست ہے لیکن ہمیں ملک کی سیاست کو عام آدمی کی زندگی سے جوڑنا ہے۔ شہری اور ریاست کے درمیان تعلق کو بحال کرنا ایسا ہی اہم ہے جیسا نہر سے کھیت تک آب پاشی کے لئے کھال بنانا۔ اگر ٹھنڈے میٹھے پانی کی لہراتی نالی ہمارے کھیت تک نہیں پہنچتی تو دس کلومیٹر دور بہتی نہر ہمارے لئے بیکار ہے۔

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے معیشت پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس کر لی ہے۔ ہمیں سی پیک کے منصوبے سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ ہمیں اطمینان ہے کہ ایوان زیریں کا قائد نواز شریف اور ایوان بالا کا قائد رضا ربانی ہے۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ معاشرت کے بنیادی خدوخال پر نظر ثانی کے بغیر جمہویرت کے پودے میں وہ توانائی پیدا نہیں ہوسکتی کہ یہ ہر طرح کی آندھیوں میں سر اٹھائے کھڑا رہے۔ یہ اچھی بات نہیں کہ سیاسی جلسوں میں شریک ہونے والی عورتوں کے ساتھ بد تمیزی کی جاتی ہے۔ ہمارا ایک ذمہ دار رہنما پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑا ہو کر عورتوں کے بارے میں نازیبا لہجہ اختیار کرتا ہے۔ ہمارے سیاسی مکالمے میں ایسے جنسی استعارے استعمال کئے جاتے ہیں جو بنیادی انسانی احترام کے منافی ہیں۔ آبادی کا پھیلاؤ ہمارا اہم ترین مسئلہ ہے۔ ہمارا ایک بھی سیاسی رہنما ایسا نہیں جو سیاسی جلسے میں آبادی کے مسئلے پر سوال اٹھانے کی ہمت کر سکے۔ ہم نے ایک پہیہ پر موٹر سائکل چلانے والے نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے لئے چودہ چودہ لاکھ کی موٹر سائکل درآمد کی ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لئے کھیل کے میدان تیار نہیں کر رہے۔ چند ہفتے قبل دنیا میں کھیلوں کا سب سے بڑا میلہ اولمپکس ختم ہوا ہے۔ ہماری بیس کروڑ کی آبادی سے سات کھلاڑی شریک ہوئے۔ ہمیں ایک بھی تمغہ نہیں مل سکا۔ ہمیں پاکستان کے دارالحکومت میں دستور کی شاہراہ پر فخر ہے۔ اس شاہراہ کی مٹی میں ہمارے شہیدوں کا خون صرف ہوا ہے۔ ہمیں سینٹ کی گیلری کو دستور کی گلی قرار دینے پر خوشی ہے۔ یہ ادارہ ہمارے وفاق کا نشان ہے۔ ہمارے وفاق کی چار اکائیاں ہیں، اور کچھ زیر انتظام علاقے شامل کر کے سات لاکھ چھیانوے ہزار مربع کلومیٹر کے اس ملک میں بیس کروڑ لوگ بستے ہیں۔ اگر ان بیس کروڑ لوگوں کے لئےروٹی کی ضمانت نہیں، تعلیم کا بند و بست نہیں، علاج معالجے کا انتظام نہیں اور انہیں کبھی فحش حرکات کے الزام میں عزت سے محروم کیا جاسکتا ہے اور کبھی احترام رمضان کے نام پر بے توقیر کیا جاسکتا ہے تو ہمارے دستور کی گلی ابھی سنسان ہے اور غیر جمہوری یلغار کی چاپ ہمارے کانوں میں ایک پرانے خوف کی طرح گونجتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments