عاصمہ جہانگیر نشانے پر کیوں؟


عاصمہ جہانگیر پاکستان کی متنازعہ ترین شخصیت ہیں. عاصمہ جہانگیر پہ وقتافوقتا الزامات کی بارش ہوتی رہتی ہے اہل مذہب انہیں قادیانی نواز سمجھتے ہیں اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنےوالے انہیں غدار کہتے ہیں. ایسا کیوں ہے؟ عاصمہ جہانگیر ان کے نشانے پہ کیوں ہے؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ایک حقیقت پڑھ لیں کہ ملاں ملٹری جوڑ ہمیشہ رہا ملٹری کے کاموں کو جواز بخشنے کیلئے اہل مذہب میدان میں آئے اس لیے کہ فوج کا نظام عوام سے مخفی ہوتا ہے۔ یہ عوام کو بلڈی سویلین کہتے ہیں جبکہ اہل مذہب عوام میں رہتے ہیں۔ فوج جب حکومت میں آتی ہے تو اہل مذہب کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ ان کا گٹھ جوڑ کمال کا ہے جبکہ تک یہ لوگ جہموریت سے دور تھے ساتھ رہے۔ جمہوری ادوار کے بعد بہت ساری تبدیلیاں آچکی ہیں۔ بہرحال ان دونوں قوتوں نے جب کسی کو بدنام کرنا ہوتا ہے تو یہ وطن اور مذہب کا ہتھیار استعمال کرتی ہیں اور عاصمہ جہانگیر کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔

عاصمہ جہانگیر کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ عاصمہ جہانگیر کا ابتدائی دور دیکھا جائے۔ عاصمہ جہانگیر نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ ڈکٹیٹر شپ کا دور تھا۔ ان کے والد نے جنرل یحیی کے مارشل لاء کے خلاف عدالت میں کیس کیا اوربعد ازاں ان کے والد یہ کیس جیت بھی گئے تھے۔ عاصمہ جہانگیر کو ڈکٹیٹروں کے خلاف نفرت وراثت میں ملی اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس نے بھی ڈکٹیٹروں کے خلاف سراٹھانے کی غلطی کی اس نے خمیازہ بھگتا۔ اسے یا تختہ دار پہ لٹکایا گیا یا جلاوطنی کا تخفہ ملا۔ جو باقی بچے تھے انہیں ایسے ایسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ منہ چھپانے کے قابل نہ رہے۔

سیاستدانوں کو دیکھ لیں، معاشرہ انہیں کرپٹ سمجھتا ہے۔ زرداری کو ہی دیکھ لیں اٹھارہ سال رگڑا کھانے کے بعد عدالت انہیں باعزت بری کرتی ہے اس کے باوجود بچہ بچہ انہیں چور سمجھتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف عدالت میں ایک کیس بھی نہیں جبکہ انہیں بھی کرپٹ ڈیزل اور بکاؤ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے چھپی منطق پہ بھی کسی نے غور کیا ہے؟ اگر نہیں تو غور کریں۔ اس سوال کا جواب آپ نے ڈھونڈ لیا تو عاصمہ جہانگیر کی بھی آپ کو سمجھ آجائے گی ۔

عاصمہ جہانگیر کو نشانے پہ رکھنے سے پہلے ایک چیز اور بھی پڑھ لیں کہ عاصمہ جہانگیر وکیل بھی ہیں اور انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ بھی رہی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر اپنے آپ کو تمام انسانوں کا نمائندہ سمجھتی ہیں۔ اسی انسانی مشن کی وجہ سے بھی انہیں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ وہ جس کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں، اس کا مخالف ناراض ہوجاتا ہے۔ باقی لوگوں کی ناراضی وقتی ہوتی ہے۔ اہل مذہب جلد معاف نہیں کرتے۔ اہل مذہب سمجھتے ہیں کہ عاصمہ جہانگیر ہمارے خلاف ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کچھ مثالیں دیتا ہوں فیصلہ خود کریں ۔

ملک اسحاق کو جب پولیس نے ماورائے عدالت قتل کیا تو بڑے بڑے لوگ خاموش تھے۔ ملک اسحاق جن کی وجہ سے اس حالت تک پہنچا وہ بھی لب سیے رہے اور ابھی تک سیے ہوئے ہیں۔ لیکن عاصمہ جہانگیر بولیں اور اس قتل کی مذمت کی اور کہا کہ یہ قتل کسی صورت جائز نہیں ہے۔ کسی کو ماورائے عدالت قتل کرنا درست نہیں یہ ایک مثال ہے۔

دوسری مثال پڑھئیے کہ اکیسویں ترمیم پاس ہوئی۔ دہشت گردی کو اہل مذہب سے نتھی کیا گیا۔ فوجی عدالتوں سے جن لوگوں کو سزائے موت دی جارہی ہے وہ اہل مذہب ہیں۔ وہ داڑھی اور زلفوں والے ہیں۔ اہل سیاست نے عدالتیں بنائیں۔ اہل مذہب جبر کے ماحول کی وجہ سے خاموش ہوگئے جبکہ عاصمہ جہانگیر بولیں اور کہا آپکو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ آپ کسی کے بارے میں فیصلہ کریں۔

عاصمہ جہانگیر عدلیہ اور اہل سیاست کے خلاف بولی۔

اسے بھی چھوڑیں۔ عاصمہ جہانگیر کئی ایسے لوگوں کے کیس بھی لڑ رہی ہیں جن پہ دہشت گردی کے الزامات ہیں اور بعض ایسے لوگوں کے کیس بھی لڑ رہی ہیں جن کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ جنہیں طالبان کہا جاتا ہے ان کے کیس۔ یہ باتیں آپکے علم میں نہیں ہوں گی۔ عاصمہ جہانگیر کے یہ گناہ معاف ہوسکتے ہیں ؟ جن طالبان کو ہم ظالمان اوردرندے کہتے ہیں، عاصمہ جہانگیر انہیں انسان سمجھتی ہے اور ان کے لیے بھی آواز بلند کرتی ہے۔ عاصمہ جہانگیر یہ کیس لڑے تو ٹھیک اگر وہ میرے مخالف مسلک یا گروہ کا کیس لڑے تو وہ گمراہ کیوں ؟ وہ قادیانی ایجنٹ کیوں؟ ذراسوچیے۔

یہ چیزیں تو ہوئیں اہل مذہب کے حوالے سے اب ذرا ذائقہ بدلیے۔

میمو گیٹ اسکینڈل تو آپ کو یاد ہوگا حسین حقانی نام کے ہمارے ایک سفیر تھے۔ ان پہ الزام تھا کہ انہوں نے غداری کی ہے۔ ان کا نام لینا بھی جرم ہے۔ اس سفیر کا کیس اگر کسی نے لڑا ہے تو وہ یہی پاگل خاتون ہے۔ اس کا یہ جرم کیسے معاف ہوسکتا ہے؟ وہ طاقتوروں کے خلاف کھڑی ہوگی تو اسے غدار نہیں کہا جائے گا ؟ گمشدہ لوگوں کے کیس کون لڑتا ہے؟ کسی دن یہ بھی جان لینا۔

کتنے افسوس کی بات ہے آپ ایک عورت کا حقیقی زندگی میں مقابلہ نہیں کرسکتے اس کے خلاف مذہب اور وطن کو میدان میں لے آئے۔ یہ جرائم ہیں عاصمہ جہانگیر کے ۔ ان کے ان کاموں کی وجہ سے کچھ لوگوں کے مفادات پر زد پڑتی ہے۔ جب مفادات کو زد پڑے گی تو اسے کیسے معاف کیا جائے گا؟

میں عاصمہ جہانگیرکو ایک ایماندار اور جرات مند خاتون سمجھتا ہوں۔ اس کے دامن پہ کرپشن کا داغ نہیں۔ مصائب کے باوجود ملک نہیں چھوڑا۔ جو بات کہی منافقت سے بالاتر ہو کے کہی۔ بعد میں اسے سلامی دینے سے بہتر ہے کہ اس کی خوبیوں کا اعتراف کرلیا جائے۔ کب تک ہم پروپیگنڈے کا شکار ہو کر لوگوں کو بدنام کرتے رہیں گے؟

اس سیریز کے دیگر حصےانسانی حقوق کی ملکہ اور قومی خجالت کے نشاناے خدا وند! تو ’عاصمہ جہانگیر‘ کو مصلوب کر دے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments