ناقابل تسخیر پاکستان ۔۔۔ ناقابل اعتبار رہنما


الزامات اور سیاسی تصادم کے ماحول میں یوم دفاع پاکستان آیا اور گزر گیا۔ ملک کے لیڈروں کا چلن وہی ہے جو ہمیشہ سے تھا۔ جمہوریت کے \"raheel-sharif-uniform\"فروغ ، کرپشن سے پاک معاشرے کی تعمیر اور سب کےلئے انصاف کے نعروں کی گونج میں نمایاں اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ جب تک نواز شریف کی حکومت ختم نہیں ہو گی، ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ عین ممکن ہے کہ بعض لیڈر ملک و قوم سے اس قدر محبت کرتے ہوں کہ اس کے اظہار میں ہوش کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہو۔ لیکن ملک کے وزیراعظم اور سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کو دشمن ملک کا ایجنٹ قرار دینے والے لیڈروں کی اپنی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگانا ضروری ہے۔ ان سے یہ ضرور پوچھنا پڑے گا کہ بے بنیاد الزامات کی برسات کرکے اور ملک کی قیادت کو بدنام کرکے وہ کون سی وطن دوستی یا عوام سے محبت کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح زور دار بیان دینے کے ماہر سیاست دانوں کو یہ جواب دینا ہو گا کہ وہ کیسے عوام دوست ہیں جو اس ملک میں ایک بار پھر فوجی آمریت نافذ کرنے کو عین قوم و ملک کی خدمت قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک کے جہاں آئین اور قانون کی صراحت اور وضاحت عدالتوں یا ایوانوں کی بجائے ٹاک شوز میں ہوتی ہے اور ہر شخص آئین کے نام پر ہر قسم کی بداخلاقی اور قانون شکنی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ وہ جنت نظیر ملک ہے جہاں سیاسی لیڈر ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگرچہ ان کے خلاف سرکاری املاک اور امن و امان کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات عائد ہیں ۔۔۔۔۔ اور اگرچہ عدالت میں ان کے خلاف ان الزامات میں مقدمہ چل رہا ہے اور اس ملک کی کوئی بے بس عدالت ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کر چکی ہے۔ لیکن ان کا علی الاعلان یہ دعویٰ ہے کہ اگر کسی میں حوصلہ و ہمت ہے تو آ کر انہیں گرفتار کر لے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اس وقت ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کروانے اور خلافت راشدہ کا دور واپس لانے کےلئے سڑکوں پر ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس وقت تک گھروں میں چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ملک کے آئین و قانون شکن وزیراعظم کو نہ صرف نااہل قرار دلوا دیں بلکہ جیل بھجوا دیں۔ قانون کا لحاظ و احترام کرنے کے حوالے سے یہ دوہرا معیار ناقابل فہم ہے۔ لیکن اس رویہ کا اظہار کرنے والے، جوش میں دیوانے ہجوم کی تالیوں اور داد کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ایک لیڈر نچلے درجے کی عدالت کے سمن کو اس لئے درخور اعتنا نہیں سمجھتا کیوں کہ اس کا قد اور حیثیت اس جج سے زیادہ ہے جو ملک میں نافذ قانون کے تحت یہ احکامات جاری کر رہا ہے۔ لیکن اس لیڈر کو سپریم کورٹ سے یہ شکایت ضرور رہی ہے کہ “اگر آپ بھی ہماری بات نہیں سنیں گے تو ہم کہاں جائیں گے۔ “

وہ فی الحال رائے ونڈ جانے کا اعلان کر کے اپنے گھر چلے گئے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ملک کے وزیراعظم کے گھر کے باہر نعرے بازی اور ہلڑ بازی کرکے وہ اپنا نقطہ نظر زیادہ طاقتور طریقے سے سامنے لا سکیں گے۔ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ وہ ٹیلی ویژن اسٹیشن بھی اس قسم کے مظاہرے کی کوریج پر مجبور ہوں گے جو کسی نہ کسی وجہ سے اب احتساب یا قصاص ریلیوں کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنےسے گریز کر رہے ہیں۔ ان لیڈروں کی سیاست ٹیلی ویژن اسکرین تک محدود ہو چکی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ گالیوں اور مغلظات کے شور میں لوگ حقائق کی تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔ اس رویہ کو اختیار کرنے والوں کا بنیادی موقف یہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں، اسے کسی تردد کے بغیر درست مان لیا جائے۔ قومی اسمبلی کا اسپیکر یا عدالت عظمیٰ کا رجسٹرار ۔۔۔۔ کوئی اینکر یا کوئی سیاسی مخالف اگر اس رائے کو ماننے سے انکار کرے، اسے بے بنیاد اور قانون کے تقاضوں کے مطابق نہ سمجھے تو اسے بھی مطعون اور معتوب لوگوں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

سیاست کی یہ ہنر مندی ایک ایسے ملک میں دکھائی جا رہی ہے جہاں جمہوریت ابھی پاؤں پاؤں چلنا سیکھ رہی ہے۔ جہاں تین دہائی سے زائد مدت تک فوج کی براہ راست حکومت نے ملک کو دولخت کیا اور ایک ایسی جنگ کو ملک میں لانے کا اقدام کیا جس کا مقابلہ کرنے کےلئے پاک افواج کے جوانوں کو دور دراز ہی نہیں شہروں اور بستیوں کی گلیوں اور کوچوں میں دشمن کی تلاش میں جانا پڑ رہا ہے۔ اور یہ آواز وہ لیڈر بلند کر رہے ہیں جن کو عوام نے اعتماد کا ووٹ دے کر اسمبلیوں میں اس لئے بھیجا تھا کہ وہاں جا کر یہ رہنما عوام کی ابتر صورتحال کے بارے میں بات کریں گے اور عمومی بہبود کی سہولتوں کے لئے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ لیکن یہ بڑے لوگ اور بہت قد آور لیڈر ہیں۔ قومی اسمبلی کی رکنیت ان کےلئے بے معنی ہے اور چھوٹے مسائل حل کروانا ان کی شان کے خلاف ہے۔ اس لئے وہ سڑکوں پر اتر کر لوگوں کےلئے دن رات صعوبت کا سبب بنتے ہیں تاکہ وہ اپنے شایان شان کوئی بڑا کام کر سکیں۔ وزیراعظم کو اقتدار سے محروم کر سکیں اور اس کی جگہ خود حکمرانی کا مزا لوٹ سکیں۔ اس مقصد کے راستے میں آنے والی ہر دیوار کو گرانے کےلئے وہ کبھی اشاروں کنایوں میں اور کبھی براہ راست فوج کی مدد چاہتے ہیں۔

یہ مدد مل نہیں پا رہی۔ اسی لئے بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لئے سیاسی درجہ حرارت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لئے رائے ونڈ کا رخ کیا جا رہا ہے کہ شاید حالات کو اس نہج پر دھکیلا جا سکے جہاں فوج کےلئے گریز کی کوئی وجہ باقی نہ رہے۔ جمہوریت کے جس پودے کےلئے فوجی سنگینوں کا سہارا طلب کیا جا رہا ہے، وہ تو بوٹوں کی دھمک سن کر ہی مرجھا جائے گا۔ تب مسند اقتدار پر متمکن جرنیل کو اپنے نورتنوں میں بعض سیاسی چہرے شامل کرنے کی ضرورت بھی ہو گی۔ لیکن یہ مقام پانے والے وہ لوگ ہوں گے جو اس وقت دائیں اور بائیں کھڑے ہو کر عہد حاضر کے ’’قائد اعظم‘‘ کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ بس ایک اور دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ یہ غاصب حکومت بس اب اپنے آخری دموں پر ہے۔ غاصب ان معنوں میں کہ قائد محترم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نواز شریف نے ان کا حق غصب کیا ہے۔ اب تو ان کی باری تھی لیکن نواز شریف خود تیسری باری لے رہے ہیں۔ اس ناانصافی کو کیسے برداشت کیا جائے۔ اس عظیم قائد کو خبر ہو کہ ملک میں جمہوریت کو لپیٹنے کا یہ خواب پورا ہو گیا تو وہ خود قومی سیاسی منظر نامے کا حصہ نہیں رہ سکیں گے۔ پھر ایک یا دو دہائیوں بعد ریٹائرڈ ائر مارشل کی طرح وہ بھی جمہوریت پر شب خون کا قصہ سنا کر داد وصول کیا کریں گے۔

یہ تو ملک کی سیاست کے نصف کا قصہ تھا۔ دوسرے نصف یعنی برسر اقتدار جماعت کے دوسرے درجے کے لیڈر بازاری زبان استعمال کرنے اور سیاسی مخالفین پر ہر الزام تھوپنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تاکہ ان کا لیڈر اور ملک کا وزیراعظم یہ اعلان کر سکے کہ اس کے پاس کرنے کے بہت سے کام ہیں، مخالفین کی سیاسی الزام تراشی کا جواب دینے کا وقت ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ دعویٰ قابل قبول ہو سکتا تھا اگر نواز شریف نے اپنے وزیروں اور مشیروں کو یہ ہدایت کی ہوتی کہ ملک میں سیاسی دنگل کا ماحول پیدا نہ کیا جائے۔ اکیلا پہلوان خواہ جتنا بھی زور آور ہو وہ بڑکیں مار سکتا ہے۔ گالی نکال سکتا ہے، برا بھلا کہہ سکتا ہے لیکن مدمقابل کے بغیر پہلوانی کے جوہر نہیں دکھا سکتا۔ الزام اور گالی سے لبریز یہ مقابلے ملک کے درجنوں یا شاید سینکڑوں ٹاک شوز کی ضرورت ضرور ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر حکمران جماعت ان کا حصہ بننے سے گریز کرنے پر آمادہ ہو تو اس یک طرفہ دنگل کے اکھاڑے میں موجود پہلوان کی بےبس للکار کے سوا کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ لیکن مخالف سیاستدانوں کے منہ نہ لگنے کے دعویدار وزیراعظم کو یہ بات سمجھ نہیں آتی۔

وزیراعظم کو یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ ان کے خاندان پر ناجائز طریقے سے دولت ملک سے باہر لے جانے کا سنگین الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اس الزام کو قانونی موشگافیوں اور سیاسی چابکدستی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ سیاست دان پر عائد الزام کی حیثیت عام شہری کے خلاف سامنے آنے والی شکایت سے مختلف ہوتی ہے۔ سیاستدان عوام کے بھروسے کی علامت ہوتا ہے۔ اس پر اعتماد کرنے والے، اسے ووٹ دینے والے اور اس سے بھلائی کی توقع کرنے والے، اس سے شفافیت کی توقع اور امید بھی کرتے ہیں۔ اسی مسلمہ جمہوری اصول کا تقاضہ ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ تحقیق کے قواعد و ضوابط پر سینگ پھنسانے کی بجائے خود کو تفتیش کےلئے پیش کریں۔ اپنے گماشتوں کے ذریعے ٹاک شوز میں اپنی دولت ، ملکیت اور اثاثوں وغیرہ کے بارے میں اوٹ پٹانگ دعوے کروانے کی بجائے سپریم کورٹ سے براہ راست درخواست کریں کہ ان کے اہل خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کی جائیں اور قواعد و ضوابط کا فیصلہ بھی عدالت عظمیٰ خود ہی کرے۔ ایسے میں اس بات کا انتظار نہ کیا جائے کہ پاناما لیکس میں سامنے آنے والے دوسرے سینکڑوں پاکستانیوں کے معاملات کی تحقیقات کیسے ہوں گی۔ وزیراعظم نے خود کو احتساب کےلئے پیش کر دیا تو ملک میں کوئی سیاستدان قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔ سیاستدان جب الزام کے جواب میں الزام اور عذرخواہی پر اتر آئے تو اسے اس کی کمزوری ہی سمجھا جائے گا۔ نواز شریف نے سیاست میں تیس برس گزارنے کے بعد بھی اگر یہ سبق نہیں سیکھا تو وہ اس علت کی علامت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جو ذمہ داری اور جوابدہی سے گریز کی صورت میں پیدا ہوتی ہے۔

اپوزیشن اور حکومت کی اس لڑائی میں عام آدمی حیران اور ملکی معاملات اندیشوں کا شکار ہیں۔ اسی صورتحال کی وجہ سے یوم دفاع پر وزیراعظم کا بیان کاغذی کارروائی اور آرمی چیف کی تقریر پالیسی سٹیٹمنٹ کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے داخلی ، دفاعی اور خارجہ امور پر جس طرح اظہار خیال کیا ہے، اس کی افادیت سے قطع نظر یہ بیان اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ملک کا وزیراعظم کمزور، پارلیمنٹ عضو معطل اور فوج کا سربراہ صاحب اختیار ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی شبہ ہو تو اپوزیشن کے اعتزاز احسن ، سید خورشید شاہ اور حکمران جماعت کے راجہ ظفر الحق ، خواجہ آصف ، سرتاج عزیز اور پرویز رشید سے پوچھ لیا جائے جو کل یوم دفاع کی تقریب میں جنرل راحیل شریف کا پرمغز خطاب سننے کےلئے بنفس نفیس موجود تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments