فلم موئن جو داڑو: لکھ لکھ تھورا سندھ اماں!


\"noorulhuda

سب نے کہا کہ موئن جو داڑو مت دیکھو۔ بُری فلم ہے۔ بورنگ۔ مگر اپنا ویک اینڈ انجوائے کرنے چلی ہی گئی۔

فلم بری ہی تھی۔ انٹرویل سے پہلے کے حصّے میں تو غیر ضروری طوالت میں پھنسی ہوئی۔ بے ربط ۔ نہ سر نہ پیر ۔

ڈرائیور کو واپس بھیج چکی تھی۔ واپسی کا راستہ بھی گویا بند ہو چکا تھا اور یوں فلم دیکھنی پڑ گئی۔ دلچسپی کی چیز صرف پاپ کارن رہ گئے تھے۔

انٹرویل ہوا تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔۔ یا خدا۔ ابھی آدھی فلم باقی ہے!

انٹرویل ختم ہوا اور فلم پھر اسکرین پر اُتر آئی۔

مگر ۔ ۔

پھر دیکھتے دیکھتے پتہ نہیں کیوں اور کیسے وہی بُری فلم دیکھتے ہوئے میرے اندر احساس کا ایک نیا اور بلکل ایسا ہی سیلاب اُمڈنا شروع ہو گیا، جیسا سندھو ندی کا سیلاب فلم میں اُمڈا چلا آ رہا تھا، موئن جو داڑو کے آباد شہر پر!

زندگی میں پہلی بار مجھے خیال آیا کہ سندھ تو پانچ ہزار سال سے اپنی شناخت کے ساتھ اس زمین پر موجود ہے۔ میرے اجداد تو صرف چھ سو سال پہلے سندھ میں آئے ہیں۔

\"mohenjodaro_youtube\"

پانچ ہزار سال پرانی اس دھرتی سے میرا رشتہ صرف چھ سو سال پرانا ہے! چلتی تو میں اس زمین پر اتنے دبنگ پنے سے ہوں جیسے میں ہی اس کی اصل اور ازلی وارث ہوں!

فلم کے دوسرے حصّے میں اب موئن جو داڑو پر قابض قوّتوں اور اصل وارثوں کے بیچ کشمکش شروع ہو چکی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ 1398ع میں جب تیمور لنگ حصولِ ثواب کی خوُش فہمی میں مبتلا دلّی اور جمنا کنارے ہردوار میں ہندوؤں کا قتلِ عام کرنے نکلا تھا تو راستے میں ہرات میں اس کی مہمان داری کرنے والےمیرے جدِ امجد تھے، جن کے بیٹوں پر تیمور نے مہمان داری کے صلے میں نوازش کی ہو گی اور ملتان کے راستے دلّی جاتے ہوئے ان کے ایک بیٹے کو سہون کی حاکمیت سونپتا گیا اور دوسرے کو باپ سمیت ہندوستان فتح کرنے کے سفر میں اپنے ساتھ رکھا۔ واہ۔ ۔کیا نوازشات تھیں دھونس دھاندلی کے ان حکمرانوں کی! جسے چاہا، اپنی دھرتی پر سکھ چین کے ساتھ بستے انسانوں کو اور ان کی دھرتی کو مفتوح بنا کر، تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا! کیسا لگتا ہوگا جب ایک دن اچانک ان کے سامنے ایک اجنبی ان کی جان و مال و زمین کا مالک بنا کھڑا ہوگا اور انہیں ہاتھ جوڑ کر اس اجنبی کے سامنے یہ کہہ کر گردنیں جھکانا پڑتی ہوں گی کہ بھلی کرے آئیں سائیں!

میرے جد امجد کا دوسرا بیٹا یقیناً میری طرح انسانوں کی خون ریزی سے گھبرا گیا ہو گا، اسی لیے بھائی سے ملنے کا بہانہ کر کے تیمور کے لشکر سے کھسک آیا ہو گا اور ھالا کے ایک معزز گھرانے میں پناہ لے لی ہوگی، جنہوں نے اپنی فطرت میں گھُلی مہمان نوازی میں اپنی بیٹی بھی اُس سے بیاہ دی۔ ھالا کے اس گھرانے سے تعلقات تو پتہ نہیں اس نے کس زبان میں استوار کیے ہوں گے؟ سندھی تو ہرگز نہیں جانتا ہوگا۔ عربی اس کی مادری زبان تھی۔ ہرات میں فارسی بھی اپنا لی ہوگی! لشکرِ تیموری میں رہ کر کچھ ہندی بھی سیکھ لی ہو گی! مگر سندھی یقیناً نہیں جانتا ہوگا! اسلام تو سندھ میں پھیل ہی چکا تھا اور عربوں اور عربی زبان کا بڑا رعب و دبدبہ تھا سندھ پر۔ یقیناً اُس نے بھی عربی زبان بول کر ھالا کے اُس سادہ دل سندھی بولنے والے معزز گھرانے کو متاثر کیا ہو گا۔ پھر آٹھ سو ھجری سالوں پر مشتمل، سادات ہونے کا اپنا مستند شجرہِ نسب تو تھا ہی اس کے پاس! سندھی تب بھی سادات کے سامنے سر جھکاتے تھے اور آج بھی اسی روایت پر قائم ہیں۔

\"mohenjodaro_2\"تین سال وہ ھالا میں رہنے کے بعد ہرات لوٹ گیا، پیچھے پاؤں بھاری کیے بیٹھی بی بی کو چھوڑ کر۔ اُسی بچے کی پشت سے ڈیڑھ صدی بعد شاہ کریم بُلڑی والے ہوئے جنہوں نے سندھی زبان میں شاعری، موسیقی اور دینی علم کے ساتھ تصوف کا آغاز کیا۔ اگلی ڈیڑھ صدی بعد ان ہی کی پشت سے شاہ عبداللطیف بھٹائی ہوئے، جنہوں نے سندھ کی دھرتی، سندھو ندی، سندھ کے لوگوں اور سندھی بولی کو اس طرح اپنی شاعری میں سمویا کہ سندھ ہی شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بغیر نامکمل ہے۔

آج جب کبھی اپنے قریبی خاندان کے ڈیڑھ سو سال پرانے قبرستان جاتی ہوں تو وہاں صرف ڈیڑھ سو سال پہلے قندھار سے سندھ میں آئے ہوئے نقش بندی سرہندی خاندان کی قبروں کے کتبوں پر سندھی میں لکھی عبارتیں پڑھتے ہوئے ہمیشہ یوں لگا جیسے یہ سب لوگ اسی مٹی سے اُگے تھے اور اسی مٹی میں اُتر گئے! سرہندی تو چہروں سے ابھی تک عرب اور پٹھان دکھتے ہیں۔ لہجے سے ابھی پشتو مکمل طور پر گئی بھی نہیں، مگر پوچھو کہ کون ہو تو اِترا کر کہتے ہیں کہ ہم سندھی ہیں۔

اپنے قریبی بزرگوں کا سندھی زبان میں ادبی اور علمی کام دیکھ کر ہمیشہ یہی لگا جیسے یہ تو ازل سے سندھی ہیں، دوسری کوئی زبان اور تہذیب تو انہیں چھوُ کر بھی نہیں گزری! قدیم ترین سندھی تہذیب سے تعلق رکھتی خوشی و غمی کی رسمیں جو صدیوں در صدیوں پیچھے سے سندھ کے ہندو سماج سے چلی آ رہی ہیں، یوں ہم میں جذب ہوئی دیکھتی آئی ہوں کہ خیال ہی نہیں آیا کہ ہم باہر سے آنے والے لوگ ہیں!

مگر فلم موئن جو داڑو دیکھتے ہوئے پہلی بار اس خیال نے جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ نہیں، میں اور میرے اجداد تو باہر سے آنے والوں میں سے ہیں۔ سندھ کے اصل باسی تو ایسے ہی ہوں گے جیسے فلم کے آخری حصّے میں میں دیکھ رہی تھی۔ سندھو ندی کے کنارے نسل در نسل آباد ۔ سندھو ندی کے بہاؤ سے ہر قیمت پر جُڑے ہوئے اور اپنے رزق اور زندگیوں کے لیے جتن کرتے ہوئے۔ بار بار صرف سندھو ندی کی بپھری موجوں تلے ہی نہیں، حملہ آور لشکروں کے ہنہناتے جنونی گھوڑوں کے سُموں تلے روندے جاتے ہوئے اور پھر بھی ہر بار پھر سے اُٹھ اُٹھ کر آباد ہوتے ہوئے اور اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ اس زرخیز زمین کی چھاتی سے رزق حاصل کرنے اور امن کی تلاش میں آنے والوں کو اور خونریز لڑائیوں سے تھک چکے اور پیچھے رہ گئے دشمن سپاہیوں کو اپنے پہلوُ میں آباد کرتے ہوئے سندھی ہی اس دھرتی کے اصل باسی تھے۔ صدیوں در صدیوں، نسلوں در نسلوں اپنی جڑوں سے پیوست ایک ہی جگہ، زندہ یا مردہ مگر جمے رہے۔ اپنی زمین چھوڑ کر نہ دوسروں پر حملہ آور ہوئے اور نہ ہی فتوحات کے نام پر دوسروں کی زمین پر قابض ہوئے۔ صرف بقا کی جنگ لڑے۔

\"mohenjodaro5\"

فلم کوئی بھی ہو، میرے لیے مار دھاڑ کے مناظر دیکھنا بلکل ہی ناقابلِ برداشت ہو جایا کرتا ہے۔ مگر فلم موئن جو داڑو میں بقا کی جدوجہد کے دوران ہیرو کو دو سانڈ جیسے، چنگیزی چہروں والے وحشیوں سے تنہا لڑتے، بار بار بے دم ہو کر گرتے اور پھر سے اُٹھ کر لڑتے دیکھتے ہوئے میرے زہن پر سندھ پر حملہ آور ظالم ارغونوں اور ترخانوں کی تصویر اُبھر آئی۔ ایسے ہی تو چہرے ہوں گے شاہ بیگ ارغون اور مرزا باقی ترخان کے! جن کی قتل و غارت گری کی داستان رقم کرتے ہوئے مورخ لکھتا ہے کہ سندھی، مرزا باقی کے دور میں ایک رات بھی سکون کی نیند نہ سو سکے۔

میں سوچتی رہی کہ میرے آباؤ اجداد نے سندھ کے اصل باسیوں کے ساتھ بقا کی وہ مسلسل جنگیں بہرحال نہیں لڑی ہوں گی، جن میں سندھ کے اصل باسیوں نے اپنی گردنیں کٹوائیں اور لہو بہایا۔

میرے اجداد نے تو سندھ کی دھرتی سے کُشادہ رزق اور سکون کی نیندیں پائی ہوں گی جو اُن پر بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دور سے تنگ تر چلی آ رہی تھیں!

فلم موئن جو داڑو پر اور اس کا حوالہ دیتے ہوئے مجھ جیسے بعد میں آنے والے بہت سے سندھی آج کل تنقید بھی کر رہے ہیں کہ سندھ کی پانچ ہزار سالہ تہذیب کو غلط رنگ دے کر پیش کیا گیا ہے۔ مجھے یہ تنقید پڑھ کر اُن تمام سندھی نقادوں پر پیار آ جاتا ہے کہ یہ ان کی اس دھرتی سے وفا ہے کہ جس دھرتی پر وہ اپنا آشیانہ پچھلی کئی نسلوں سے بنائے ہوئے ہیں، اس کی پانچ ہزار سالہ تہذیب اور اس کی تاریخ سے اس حد تک جُڑ چکے ہیں کہ فلم کی کمرشل ضرورت کے تحت افسانوی رد و بدل انہیں ناگوار گزرا ہے! سندھ یقیناً اس وفا کی مستحق دھرتی ہے۔ ورنہ فلم ہی کیا سندھ کی تاریخ کی جس سفّاکیت کے ساتھ بعد میں آنے والے مسلمان عرب مورخین نے اپنے تئیں حصولِ ثواب کی خاطر دھجیاں اُڑائی ہیں اس پر تو سندھ کو اس لیے بھی ماتم تک نصیب نہیں ہوا کہ اس مسخ اور جھوٹی تاریخ کو بعد میں پاکستان کا تعلیمی نصاب لکھنے والوں نے سندھ کو صرف عربوں کی اور اس کے بعد ہر دور کے مسلمانوں کی مفتوح زمین ثابت کرنے کے لیے سرکاری مُہر لگا دی۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان کی بھی مفتوح زمین سمجھی گئی اور قیامِ پاکستان کے لیے سندھ کی جدوجہد کی فائل بھی کئی سرکاری فائلوں تلے دبا دی گئی۔ یہاں تک کہ اس شوق میں پاکستانی نصابِ تعلیم میں حجاج بن یوسف جیسے ظالم، سفّاک، بے ادب اور گستاخِ کعبہ و گستاخِ مسجدِ نبوی جیسے شخص کو اسلام کے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا۔ بیت اللہ پر منجنیقوں کے ساتھ حملہ جس کے منہ کو لگا ہوا تھا اور مدینہ منورہ میں جس نے دو ماہ تک ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھا اور تاریخ جس کے ظلم و ستم کے ساتھ جس کے غیر انسانی اور خونی الفاظ بھی رقم کرتی ہے، کیا اس نے محمد بن قاسم کو محض تبلیغِ اسلام کے لیے سندھ بھیجا ہوگا! اس تباہی کا تصوّر کرنا ناممکن نہیں جو حجاج کے لشکر نے سندھ میں مچائی ہوگی!

\"hrithik-mos_070716112225\"

حاکمِ وقت کی خوشنودی کا چسکا مسلمان مورخین کے منہ کو تو لگ ہی چکا تھا۔ اوپر سے سندھ پر حملہ گویا کفار پر حملہ۔ ظلم و تشدد سے سہی مگر ثواب بمع سوُد کا فتوا دینے والوں کا بازار تب بھی ایسا ہی گرم تھا جیسا آج۔

قوموں کی فطری نفسیات پر غور کیا جائے تو حملہ آور قوم زیادہ پُر تشدد ہوتی ہے اور جس دھرتی پر حملہ آور ہوتی ہے اس کی آبادیاں اور کھیت کھلیان روندنے میں اسے کوئی جھجک نہیں ہوتی۔ اسی دھرتی پر اپنی بقا کی جنگ لڑنے والی قومیں فطری طور پر پُر تشدد ہو نہیں پاتیں اس خوف میں بھی کہ کہیں میرے پیروں تلے میرا ہم وطن نہ کُچلا جائے! کہیں میرے ہاتھوں میری دھرتی نہ لہولہان ہو!

بقا کی جنگ لڑنے والوں کو مسلمان مورخین نے ہر جگہ شکست زدہ اور کافر لکھا ہے اور حملہ آوروں کو مجاہد، غازی، بُت شکن وغیرہ وغیرہ لکھا ہے۔

گو کہ فلم موئن جو داڑو کی کہانی اور اس کی منظر کشی بھی سندھ کی پانچ ہزار سال قبل تہذیب پر سے گھوڑا دوڑاتی ہوئی سر پٹ گزر گئی مگر فلم کے کلائیمکس کی فلمبندی بقا کی ایسی ہی جدوجہد کا منظر تھی کہ قیامت کی طرح اُمڈ اُمڈ آتی سندھو ندی چھوڑ کر سندھ کی جڑوں سے جُڑے باسی کہیں اور نہیں جا رہے تھے، اسی سندھو ندی کے دوسرے کنارے اپنی جان و مال لیے کھڑے تھے ندی کے اُترنے تک۔

موئن جو داڑو کی رقاصہ سندھو ندی کی لہروں تلے ڈول رہی تھی اور موئن جو داڑو نامی شہر سندھو ندی کی تہ میں اترتا چلا جا رہا تھا۔

میرے آنسو نکل آئے۔ حالانکہ میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو فلم دیکھتے ہوئے روتے ہیں۔ میرا دل بے اختیار فلم میں اکثر جگہوں پر بولا گیا سندھی بولی کا جملہ بول پڑا ۔ ۔ لکھ لکھ تھورا (لاکھوں مہربانیاں)۔

اے سندھ اماں ۔ ۔ لکھ لکھ تھورا کہ تو نے ہم باہر سے آنے والوں کو اپنے سینے سے لگایا۔ ہماری نسلوں کو اپنی رگِ جاں میں آباد کیا۔ ہم نے تیری چھاتیوں کے رزق سے اپنی نسلوں کی پرورش کی۔ تیری میٹھی بولی کی تاثیر نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم خود کو سندھی کہیں اور تیری بولی میں داستانیں رقم کریں اور شعر کہیں۔ گو کہ تو آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے مگر ہم جتنے بھی ہیں، جہاں جہاں سے بھی آئے ہیں، جو بھی زباں ہم بولتے ہیں، ہم تیرے ہیں، بلکل اسی طرح جیسے تو ہماری ہے۔

لکھ لکھ تھورا سندھ اماں!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments