طرز کہن پہ اڑنا


\"Mohsinیہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ سامراجی حکومتیں کبھی بھی محکومین کے مفاد میں نہیں ہوتی ہیں اور حکمرانوں کی پہلی ترجیح انکا اپنا مفاد ہی ہوتا ہے۔ لیکن یہ الگ بات ہے کے ایسے سامراجی نظاموں کو طوالت انکی اپنی ذہانت کی بجائے محکومین کی جہالت کی وجہ سے ملتی ہے۔ اگر محکوم قوم میں شعور کی رمق باقی ہو توغلامی کے دن مختصر ہو جاتے ہیں ورنہ جتنی دیر شعور آنے میں لگتی ہے اتنی ہی غلامی طوالت اختیار کر جاتی ہے۔

غلامی کے اندھیروں میں رہتے رہتے قوموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اندھیروں کو اپنا مقدر سمجھ لیتی ہیں اور اسی پر مطمئن ہو جاتی ہیں اور انہیں ان اجالوں سے خوف محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ گو کہ انھیرے سے چل کراجالوں کی سمت آئیں تو آنکھیں وقتی طور پر چندھیا جاتی ہیں لیکن اس وقتی چندھیاہٹ کے ڈر سے انھیروں کا مستقل انتخاب بھی تو دانشمندی کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیونکہ یہ وقتی خوف شب تاریک کو طویل تر بنا دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ تومقدر کی ستم ظریفی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اجالوں میں آکر بھی ذہن کے اندھیرے اوجھل نہیں ہو پاتے۔ ایسی حالت میں اقوام اپنے حال اور مسقبل کے مسائل کا حل ماضی میں ڈھونڈنا شروع کر دیتی ہیں۔ اور جب دوڑ ہی پیچھے کو منہ کر کے لگائی ہو تو آگے تو بڑھنے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک سب سے مشکل مرحلہ قوموں کی زندگی میں یہی ہوتا ہے آپ فرماتے ہیں۔

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی

اور یہ ایسی منزل ہے جہاں پر اچھائی بھی اچھائی محسوس ہونا بند ہو جاتی ہے۔ مثلا انگریزوں کے دور میں گو کہ انگریزوں نے تمام کام اپنے مفاد کو ہی مد نطر رکھ کر کیے لیکن ان سے عوام کی بھی بھلائی بھی ہو سکتی تھی اگر تعصب کی عینک اتار دی جاتی۔ چونکہ اس وقت برطانیہ میں صنعتی انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ اس ٹیکنالوجی کو انگریزوں نے برصغیر بھی منتقل کیا لیکن ہم لوگوں نے اپنے تعصب کی وجہ سے اسے اسطرح استعمال نہ کیا جسطرح انگریز حکمرانوں نے کیا۔ علاوہ ازیں ہم نے ایک طویل عرصے سے خود سے تو کوئی چیز ایجاد نہیں کی تھی۔ علماء عوام کو وہی ساتویں اور آٹھویں صدی کے جابر بن حیان اور ابن الہیثم کے نام کی ہی سردائی پلا رہے تھے جبکہ دنیا سلفیورک ایسڈ اور نائٹرک ایسڈکی ایجاد سے کب کی آگے نکل چکی تھی۔ اور ہم ابھی اسلام کے ابتدائی دنوں میں ہی الجھ کر رہ چکے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے علماء نے حکمرانوں کی بھاشا کو کافروں کی زبان کہہ کر پڑھنے لکھنے سے ہی انکار کر دیا اور عربی زبان کو جنت اور اسلام کی زبان کہہ کر اسی کی ترویج پر زور دینے لگے حالانکہ انگریزی کی طرح عربی بھی ایک غیر ملکی زبان ہی تھی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بن کر رہ گئے اور نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق نہ ہی ہمیں عربی زبان آئی اور نہ ہی انگلش۔ الٹا یہ ہوا کہ حکمرانوں سے نفرت ایسی بڑھی کہ ہمیں انکی اچھائیاں بھی برائیاں نظر آنے لگی۔

انگریز ریلوے کا نظام لے کر آیا تو ہماری قوم یہ کہنے لگی کی انگریز ہماری زرخیز زمینوں کو زنجیروں میں جھکڑ انگلستان لے جانا چاہتا ہے۔ لاوڈ سپیکر کی ایجاد کو ہمارے علماء نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہہ اس میں سے شیطان کی آواز آتی ہے اور آج جب تک اس شیطان کو سینے سے نہ لگایا ہو ہمارا جمعے کا خطبہ ہی نہیں ہوتا۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو انگریز نے جابجا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی انگریزوں نے عددی قلت کے باوجود بھی صرف اور صرف ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر جیتی تھی۔ اس وقت مقامی حکمرانوں کے پاس ذرائع مواصلات صرف گھوڑے ہوا کرتے تھے جو تار کے مقابلے میں پیغام سست روی سے لے کر جاتے تھے اور تاریں ہی انگریزوں کی فتح کا سبب بن گئیں۔
ہماری قدامت پرستی ہی ہماری تنزلی کی بڑی وجہ تھی جو کہ آج بھی ہم پر پہلے دن کی طرح مسلط ہے ہمارا آج بھی سارا زور اسی بات پر ہے کہ اردو کو دفتری اور صحیح معنوں میں قومی زبان کا درجہ کیسے مل سکتا ہے حالانکہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اور انگلش کو ایک عالمگیر زبان کا درجہ دے چکی ہے ہم ابھی بھی 1857ء والے دور سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مجھ پر مغربیت سے متاثر ہونے کا الزام لگے یہاں یہ بات واضح کرنا مناسب ہو گا کہ دنیا جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ہمیں اپنی زبان کو بھی اسی تیزی سے ترقی دینا ہو گی مثلاً زبان میں یہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی کہ اگر دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی موضوع پر کوئی تحقیق شائع ہو تو اگلے ہی لمحے وہ ہماری زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہو سکے لیکن ابھی تک ہماری تمام کوششیں باتوں سے مزید آگے نہیں بڑھ سکی۔ اگر ہم اردو کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اقدامات بھی سنجیدہ طرز کے ہی کرنا ہونگے ورنہ دوسروں کو برا بھلا کہنے سے نہ آج تک کوئی ترقی کر پایا ہے نہ ہی ہم کر پائیں گے۔

چاند پر جا کے انہوں نے تو علم گاڑ دیے
سوئے چرخ غبارے بھی نہ چھوڑے ہم نے
بیٹھے اسی مصرعہ اقبال کو دہراتے رہے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

تاریخ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کیلیے ہوتی ہے جبکہ ہم اسے ماضی کے نفاذ کے لیے ایک نصاب کے طور پراستعمال کرتے ہیں اور جب تک ہم نے ماضی اور طرز کہن پر اڑنے والی روش نہ بدلی آگے بڑھنے کا تو سوال ہی بے معنی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments