لاہور میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ کس نے لگوایا؟


سید مراتب علی پوری پوری رجمنٹ کی دیکھ بھال کرتے، برطانوی فوج کی رجمنٹس ایک شہر سے دوسرے شہر میں اوسطاً دو سال بعد شفٹ ہوجاتی تھی اور اس دوران بھی سید مراتب علی کو کنٹریکٹس ملتے رہے چنانچہ رنگون (برما) ، چٹاکانگ، مدراس (ساؤتھ انڈیا) ، بمبئی (ویسٹرن انڈیا) ، پشاور، لنڈی کوتل میں موجود برطانوی فوجوں کی رجمنٹس کی دیکھ بھال کے کنٹریکٹ بھی سید مراتب علی کو دے دیے گئے۔ یہ فوجی چھاؤنیاں ہندستان میں آزادی کی تحریکوں اور حُریت پسند ہندستانیوں پر نگرانی رکھنے اور کسی بھی بغاوت کو فوری طور پر کچلنے کے لیے بنائی گئی تھیں اور ان چھاؤنیوں میں موجود سامراجی فوج کی خدمت گزاری سید مراتب علی کر رہے تھے۔

برطانوی فوج کی خدمت گزاری کے عوض سید مراتب علی کو بھاری معاوضہ دیا جا رہا تھا جس نے انھیں تیزی سے امیر کر دیا اور انگریز کو اپنی وفاداری کے لیے سید خاندان سے ہی نیا خون مل گیا۔

سید مراتب علی کو انگریز سرکار نے 1935 ء میں انڈین ریزرو بینک کا فاؤنڈنگ ڈائیریکٹر تعینات کر دیا اور انھیں لاہور میں ایف سی کالج سے متصل 60 ایکڑ اراضی، لاہور جم خانہ کے سامنے قائم واپڈا کالونی کی 100 ایکڑ اراضی عطیہ کی گئی۔ سید مراتب علی کے چار بیٹے تھے جس میں سید واجد علی، سید افضل علی، سید امجد علی، سید بابر علی شامل ہیں۔ امپریل فوج کے ساتھ مراسم ہونے کی بناء پربڑے بیٹے سید امجد علی فوج میں بھرتی ہوگئے لیکن دو سال بعد فوج چھوڑ دی اور والد سید مراتب علی نے انھیں برطانیہ بھیج دیا۔

لندن میں پہلی راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے دوران سید مراتب علی سر ظفر اللہ کو فون کر کے کہا کہ سید امجد علی لندن میں ہیں کانفرنس میں شریک مسلم وفود کا اعزازی سیکرٹری انھیں بنا دیا جائے، اعزازی سیکرٹری کا عہدہ ملنے کے بعد سید امجد علی کو ہندستان کی متحرک سیاسی قیادت سے لندن میں ہی ملاقاتوں کا موقع میسر آیا یہ موقع بعد میں سیاسی کیرئیر میں بدل گیا چنانچہ سر فضل حسین نے جب پنجاب میں یونینسٹ پارٹی بنائی تو سید امجد علی کو اسسٹنٹ سیکرٹری کا عہدہ دیا گیا۔

سید مراتب علی نے اپنے بیٹے سید امجد علی کو رحیم یار خان ریلوے اسٹیشن کے قریب 150 ایکٹرز زمین دلوائی، چونکہ ریاست بہاولپور کے نواب نے انگریز فوج کا جنگ عظیم دوئم میں ساتھ دیا تھا وہ بطورانعام انگریزوں نے بہاولپور میں انڈسٹری لگانے کی پیش کش کی۔ اسی ذیل میں سید مراتب علی نے اپنے بیٹے سید امجد علی کے ذریعے سے 150 ایکٹرز زمین پر ٹیکسٹائل انڈسٹری لگائی اور لیور برادرز کمپنی کو سوپ اور گھی فیکٹری لگانے کے لیے زمین آفر کی۔

سید امجد علی کو لیور برادار کی ان دونوں فیکڑیوں کا فاٗونڈنگ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا۔ 2002 ء میں کمپنی کا نام تبدیل کر کے یونی لیور پاکستان رکھ دیا گیا۔ پاکستان کی درجنوں مصنوعات یہی کمپنی تیار کرتی ہے۔ سید مراتب علی کے چوتھے بیٹے سید بابر علی ایچی سن کالج کے تعلیم یافتہ ہیں۔ سید مراتب علی نے برطانوی افسران سے قریبی مراسم ہونے کی بناء پر اپنے چوتھے بیٹے سید بابر علی کو 1934 ء میں ایچی سن کالج داخل کرایا، ایچی سن کالج کی اس وقت ماہانہ فیس 105 روپے تھی اور کالج میں صرف 84 طلباء زیر تعلیم تھے۔

یہ وہی ایچی سن کالج ہے جہاں پر پنجاب کے جاگیر دار، سرمایہ دار، راجوں، والہیان ریاست اور انگریزوں کی حکومت کے وفادار خاندانوں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی، یہاں برہمنوں کا ایک خاص طبقہ تیار کیا جارہا تھا جہاں آج بھی زیر تعلیم بچوں کی اکثریت کا تعلق اسی رولنگ ایلیٹ کلاس سے ہے۔ سید بابر علی کی تعلیم اسی طبقے کے بچوں کے ساتھ ہوئی اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے یہاں سے مئی 1945 ء میں بی ایس سی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی کے تحت پاس کیا جب یونیورسٹی نے اس نتیجہ کا اعلان کیا تو اُس وقت جنگ عظیم دوئم عروج پر تھی۔

دسمبر 1946 ء میں سید بابر علی یونیورسٹی آف مشی گن امریکہ چلے گئے، مشی گن یونیورسٹی میں داخلے لیے سر ظفر اللہ نے سید بابر علی کی مدد کی تھی جبکہ سید بابر علی کی فیس کی ادائیگی کے لیے ڈالرز اور پاؤنڈز میں بنک ڈرافٹ ریزرو بنک آف انڈیا سے بنوائے گئے تھے یہ وہی بنک ہے جہاں پر سید بابر علی کے والد سید مراتب علی کو انگریزوں نے فاؤنڈنگ ڈائیریکٹر لگایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب سر ظفر اللہ خان وفد کے ہمراہ امریکہ جانے لگے تو سید مراتب علی نے استدعا کی امریکہ میں موجود سید بابر علی کو وفد کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جائے اور نیو یارک میں سر ظفر اللہ خان نے سید بابر علی کو بلا لیا تھا اور 1948 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سید بابر علی بطور اسسٹنٹ کام کیا۔

اسی طرح فقیر سید وحید الدین کے بیٹے فقیر سید اعجاز الدین ایچی سن کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور انھوں نے چند برس پہلے ریسورس فل فقیر کے نام سے اپنے خانوادے سے متعلق بھارت سے ایک کتاب شائع کرائی ہے جس میں اس خاندان کے سکھوں اور انگریزوں کے ساتھ مراسم کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ فقیر خانہ میوزیم 1937 ء میں فقیر سید جلال الدین نے قائم کیا اور اس کے موجودہ متولی فقیر سید سیف الدین کی کی نگرانی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ تیار کرانے کے بعد قلعہ لاہور میں نصب کیا گیا ہے۔ رنجیت سنگھ کے مجسمے کے ذریعے سے فقیر سید سیف الدین نے اپنے آباؤ اجداد کی وفاداری کو آگے بڑھایا ہے۔ پاکستان میں اس خانوادے کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور ان سے جڑے دیگر فقیر یا سید خاندان ملک کے با اثر طبقات میں شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3