گوجرانوالہ کا علم دوست درویش


\"CMلاہور پر انگریزوں کا پوری طرح قبضہ 1849 میں ہوا تھا۔ اسی سال، قبضہ کے کچھ ہی ماہ بعد، لاہور کا پہلا مطبع بھی ’مطبع کوہ نور ‘ کے نام سے قائم ہوگیا تھا۔ نئےسیاسی نظام کو پوری طرح فعّال بننے کے لئے چھاپے خانے کا ہونا بھی بہت ضروری تھا کیونکہ جو نئے عملے اور سررشتے قائم کئے جاتے تھے ان کے لئے نئے انداز کے اور خاصی بڑی تعداد میں سرکاری فارم، رجسٹر، اور ہدایت نامے وغیرہ مہیا کرنے کا کام جدید چھاپے خانے ہی کرسکتے تھے۔ اردو مطابع کی کسی بھی تاریخ میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ جیسے جیسے شمالی ہند میں کمپنی کا راج مشرق سے مغرب کے طرف پھیلا اردو مطابع بھی کھلتے چلے گئے۔ البتہ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ طباعت کے اردو معاشرہ میں عام ہونے میں بڑا دخل لیتھو پریس کا بھی ہے۔ لیتھو یا سنگی طباعت 1796 میں جرمنی میں ایجاد ہوئی تھی، اور 19ویں صدی کی دوسری دہائی تک ہندوستان پہنچ گئی تھی۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ خود یورپ میں لیتھو پریس تصاویر اور نقشہ جات کی اشاعت کے لئے ہی جلد مشہور ہوگیا اور ان چیزوں کی طباعت کا بہت کامیاب طریقہ بھی سمجھا گیا، جبکہ ہندوستان میں اس کی یہی خوبی کہ اس میں خطوط اور نقوش کا بخوبی اظہار آسانی سے کیا جاسکتا تھا، عربی، فارسی اور اردو کی کتابوں کی عام طباعت اور اشاعت کا سبب بن گئی۔ اور ان زبانوں کے کاتب اور خوش نویس جو ٹائپ کی طباعت میں کسی کام کے نہ سمجھے جاتے تھے لیتھو طباعت کی ترویج سے دوبارہ برسر روزگار ہو گئے۔ ٹائپ کی طباعت کے مقابلے میں یہ نیا طریقہ آسان تھا اور کم خرچ بھی۔ چنانچہ لیتھو طباعت کو شمالی ہند میں، جہاں کمپنی سرکار بھی فارسی اور اردو کی سرپرستی کررہی تھی، جلد ہی ایسی مقبولیت حاصل ہوگئی کہ ٹائپ کے پریس کبھی اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔

\"koh-e-noor\"لاہور کے مطبع کوہ نور کے بانی اور مالک منشی ہرسکھ رائے تھے، جو اس سے پہلے میرٹھ کے ایک مطبع میں جو غالباً ان کے خاندان کے کسی فرد کا قائم کردہ تھا، کام کر چکے تھے۔ اسی تجربہ کی بنا پر وہ انگریزی سرکار کے ہمرکاب آئے ہوں گے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ لاہور میں ان کی اولین مطبوعات تمام تر سرکاری اور دفتری تھیں۔ ( مثلاً قانون دیوانی۔ دستورالعمل جاگیرداران۔ دستورالعمل ترتیب نقشہٴخسرہ)۔ مزید کچھ ماہ بعد، 1850 میں انھوں نے ایک ہفتہ وار اخبار بھی شائع کرنا شروع کردیا جس کا نام ’کوہ نور ‘ تھا۔ان کا یہ عمل بھی اس زمانے کے رواج سے ہٹ کر نہ تھا۔1857 تک شمالی ہند میں 167 اردو مطابع قائم ہو چکے تھے اور ان میں سے 103 نے اپنے اخبار بھی نکالے تھے۔ ان میں سے بیشتر جلد ہی بند ہوگئے۔ ’کوہ نور ‘ کو ان تمام پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ وہ 54 برس تقریباً پابندی سے شائع ہوتا رہا، اور کچھ عرصہ تو اتنا مقبول ہوا کہ ہفتہ میں تین بار شائع ہوتا تھا۔

 لیکن کیا اب اس انتہائی اہم اخبار کے 54 مختلف شمارے بھی کہیں محفوظ ہیں؟ افسوس کہ جواب نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے۔

ایک اور دلچسپ حقیقت کی طرف آپ کی توجہ منتقل کرانا چاہوں گا۔ مطابع کے قیام کے لحاظ سے دہلی اور لکھنؤ سے پیچھے رہ جانے کے باوجود اردوخوان عورتوں اور بچّوں کے لئے مخصوص رسائل نکالنے اور خصوصی ادب شائع کرنے میں لاہور ان دونوں شہروں پر سبقت رکھتا ہے۔ یہیں سے خاص خواتین کے مطالعے کے لئے پہلا اردو ماہنامہ ’شریف بیبیاں’ (بعد کا نام، ’شریف بی بی’) 1893 میں شائع ہوا۔ اس کے مالک اور مدیر منشی محبوب عالم تھے جنھوں نے 1887 میں اردو کا سب سے سستا اور مقبول ترین ہفتہ وارجریدہ ’پیسہ اخبار ‘ انگریزی کے Penny Journals  کے انداز پر نکالنا شروع کیا تھا۔ اور یہیں منشی امتیاز علی نے عورتوں کا اہم ترین ہفتہ وار جریدہ ’تہذیب نسواں ‘ نکالا تھا جو غالباً پہلا اردو رسالہ تھا جو ایک خاتون کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ (بعد میں ’شریف بی بی ‘ بھی ایک خاتون کی ادارت میں شائع ہونے لگا تھا) ان رسالوں کے اجرا کے کچھ ہی سالوں بعد منشی محبوب عالم نے ماہنامہ ’بچوں کا اخبار ‘ اور منشی امتیازعلی نے ہفتہ وار ’پھول ‘ جاری کر دیے تھے۔ ان چاروں رسالوں کو نہ صرف تاریخی اہمیت حاصل ہے بلکہ ان میں لکھنے والوں کو بھی اردو ادب کی تاریخ میں ایم رتبہ حاصل ہے۔ یہ چاروں رسالے عرصے تک جاری رہے۔ لیکن اب ان کے اولین دور کی مکمل فائلیں کہیں دیکھنے کو نہیں ملیں گی کیونکہ بر صغیر کے تعلیمی اداروں کی کسی لائبریری یا کسی شہر کی پبلک لائبریری نے ان رسالوں کو جمع کر کے محفوظ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ ان اداروں میں جو متفرق شمارے اور ادھوری فائلیں اتفاق سے بچ گئیں وہی بچ گئی ہیں۔

\"paisa-akhbar\"اس قدرے لمبی تمہید کا مقصد اس تناظر سے آپ کو پوری طرح آگاہ کردینا تھا جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی آپ ان گمنام پاکستانی کے کام کی اہمیت سمجھ سکیں گےجن کا نام ضیاالله کھوکھر ہے۔ آپ کا وطن گوجرانوالہ ہے اور آپ نے اپنی ساری زندگی اردو رسالوں اور اخباروں کو جمع کر کے محفوظ کرنےکی نذر کر دی ہے۔ ان سے ملاقات کا شرف مجھے گذشتہ مارچ میں حاصل ہوا تھا، اگرچہ صرف چند گھنٹے ہی ان سے گفتگو اور ان کے حیرت خیز ذخیرے کا سرسری جائزہ لینے کے لئے مل سکے تھے۔

کھوکھر صاحب کی کم و بیش ساری عمر گوجرانوالہ ہی میں گذری جہاں ان کے مرحوم والد، عبدالمجمید کھوکھر، کا مختصر سا کارخانہ تھا، غالباً پائپ بنانے کا۔ مرحوم کو کتابوں اور رسالوں کے مطالعے کا بھی ازحد شوق تھا۔ خاص طور پر رسائل کا، جنھیں وہ لازماً خریدتےاور پھر کبھی جدا نہ کرتے تھے۔ کھوکھر صاحب نے ایک کتاب میں اپنے والد کے اس شوق کے بارے میں جو لکھا ہے اس سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خود کھوکھر صاحب کو اس عظیم کام کی انگیز کس طرح ملی۔

’’میں ابھی عمر کی ساتویں آٹھویں منزل ہی میں تھا کہ والد محترم نے مجھے بچوں کے رسائل کے مطالعہ پر راغب کر دیا۔ شروع ہی سے میرا معمول یہ رہا کہ سکول سے چھٹنے کے بعد سیدھا بازار الماریاں میں والد محترم کے پاس کارخانے میں حاضر ہوجاتا اور شام ڈھلنے تک ان کا ہاتھ بٹاتا۔ معاشرہ روائتی اقدار اور اطوار میں بے حد مستحکم تھا اور یہ دور ایسا پرسکون اور مربوط تھا کہ سرِشام دوکانوں پر تالے پڑجاتے۔ بسا اوقات دوکان بند کرنے کے بعد والد صاحب مجھے سائکل پر بٹھاتے اور قریب ہی ریل بازار میں ’بشیر صحرائی اخبار گھر ‘ لے جاتے، جہاں سے وہ مجھے بچوں کے رسائل دلوا دیتے۔ بچوں کا سب سے پہلا رسالہ، جس سے مجھے تعارف کی سعادت حاصل ہوئی، وہ ماہنامہ ’کھلونا ‘ دہلی تھا۔ اس کے بعد ’کھلونا ‘ ہی کے نام سے کراچی اور لاہور سے نکلنے والے اور دیگر رسالوں سے مطالعے کی ایسی لت لگی کہ بچوں کا جو رسالہ بھی نظر آجاتا، فوراً اٹھا لاتا اور محفوظ کرتا رہا۔ یہ عادت بدستور جاری ہے۔ “ (’بچوں کی صحافت کے سو سالص۔۴۔)

بچپن کی پڑی ہوئی اس عادت کا ثمرہ اب ایک عظیم الشان ذخیرے کی شکل اختیار کرچکا ہے، جسے کھوکھر صاحب نے اپنے والد کے نام سے منسوب کردیا ہے۔ یہ “عبدالمجید کھوکھر میموریل لائبریری” گوجرانوالہ کے ایک سادہ سے محلے میں ایک سادہ سی عمارت میں محفوظ ہے۔ باہر صرف ایک چھوٹی سی تختی اس کی موجودگی سے آگاہ کرتی ہے، لیکن جب آپ اندر جاکر کھوکھر صاحب سے ملتے ہیں، ان سے کتب خانے کی تفصیلات حاصل کرتے ہیں، اور ان کی معیت میں کتب خانہ کی الماریوں پر ایک سرسری نظر ہی ڈالتے ہیں تب اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایک بظاہر غیر متاثر کن سادہ سی شخصیت نے اکیلی اپنی ذات میں کتنا بڑا کام کر ڈالا ہے۔ اس ذخیرہ میں مختلف اخباروں اور رسائل کے دو لاکھ سے زائد متفرق شمارے محفوظ ہیں۔ ان کے علاوہ پینتیس ہزار کتابیں ہیں، جن میں سات سو آپ بیتیاں اور تیرہ سو سفرنامے ہیں۔ چار سو کتابیں سوانح حیات اور شخصی خاکوں کی ہیں۔ دو سو مجموعات مکاتیب ہیں۔ اور اردو کے زندہ بہار موضوعات، غالب اور اقبال، پر بالترتیب آٹھ سو اور اٹھارہ سو کتابیں ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس ذخیرہ میں ایک ہزار سے زاید کتابیں پنجابی زبان میں مختلف موضوعات پر موجود ہیں۔ بہت ممکن ہےکہ دیگر پاکستانی زبانوں کی کتابیں بھی بعض خاص موضوعات پر وہاں موجود ہوں۔

\"ziaullah-khokhar\"ان تمام مطبوعات کو بہت احتیاط سے سیلوفین میں لپیٹ کر بنڈلوں کی شکل میں کھلی الماریوں یا شیلفوں پر رکھ دیا گیا ہے۔ اخبارات اور رسائل کے بنڈل سنہ اشاعت کے اعتبار سے تیار کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ موضوعات کا بھی لحاظ کیا گیا ہے۔ نتیجتاً کسی خاص کتاب یا شمارے تک دسترس بہت آسان ہوگئی ہے۔ یہ سب کام بھی کھوکھر صاحب ہی نے ایک نوعمر اسسٹنٹ کی مدد سے سر انجام دیا ہے۔ پھر بھی کرنے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ میں نے خود دیکھا کہ بہت سے رسالے اور اخبار چھوٹے چھوٹے ڈھیروں میں فرش پر رکھے تھے اور کھوکھر صاحب کی محبت بھری توجہ کے منتظر تھے۔ ایک اکیلا آدمی اس عمر میں جو کچھ کرسکتا ہے وہ البتہ پابندی اور توجہ سے ہو رہا ہے۔

کھوکھر صاحب نہ تو ایم اے، پی ایچ ڈی ہیں اور نہ انھوں نے لائبریری سائنس کی ہی کوئی ڈگری حاصل کی ہے، لیکن وہ ایک انتہائی اہم بات بخوبی سمجھتے ہیں، وہ یہ کہ لائبریرین کا کام محض کتابوں کو محفوظ کرنا ہی نہیں۔ اتنا ہی اہم کام یہ بھی ہےکہ کتابوں اور ان کے پڑھنے والوں کے درمیان جو دشواریاں ہو سکتی ہیں انھیں دور کرکے پڑھنے والوں کی کتابوں تک رسائی آسان کردی جائے۔ یعنی مارِ خزانہ بن کر نہ بیٹھا جائے، علم دوست بنا جائے۔ چنانچہ کھوکھر صاحب نے وہ کام بھی کر ڈالا ہے جو ایک زمانے میں بر صغیر کے اہم کتب خانے لازمی سمجھتے تھےاور اب شاذ ہی کوئی ادارہ اس کا اہتمام کرتا ہے، یعنی ذخیرہ میں موجود کتب و رسائل کی فہرست کی تیاری اور اشاعت۔ کھوکھر صاحب نے اب تک چار موضوعاتی فہرستیں تیار کر کے شائع کر دی ہیں۔ یہ کام بھی پوری بےلوثی اور یکسوئی سے کیا گیا ہے اور اردو کی تہذیبی، علمی اور ادبی تاریخ کے ہر طالبعلم کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

پہلی فہرست کا عنوان حسب توقع ’بچوں کی صحافت کے سو سال ‘ ہے۔ اس میں لائبریری میں محفوظ کوئی دو سو (200) سے زائد رسائل کے نہ صرف نام درج ہیں، ساتھ ہی ساتھ مقام اشاعت، ابتدا کا سنہ، مدیروں کے نام بھی شامل ہیں۔ اور اگر کسی رسالہ کا کوئی خاص نمبر کبھی شائع ہوا تھا تو اس کی اطلاع بھی دی گئی ہے۔ میں اب تک یہ سمجھتا تھا کہ اردو میں بچوں کا پہلا رسالہ منشی ممتاز علی کا ’پھول ‘ تھا، جو 1909 میں نذر سجاد حیدر صاحبہ کی ادارت میں جاری ہوا تھا۔ کھوکھر صاحب کی فہرست اور ان کی لائبریری کی زیارت کے بعد پتہ چلا کہ یہ کارنامہ بھی منشی محبوب عالم کا تھا۔ انھوں نے 1902 میں ’بچوں کا اخبار ‘ نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا تھا جو دس برس کے بعد بند ہوگیا تھا۔ جبکہ’پھول’ ہفتہ وار تھا اور اس کی مقبولیت کئی دہائیاں باقی رہی۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ کھوکھر لائبریری میں’بچوں کا اخبار ‘ کے بارہ شمارے اور ’پھول ‘ کے چارسو شمارے بخوبی محفوظ ہیں۔

دوسری انوکھی فہرست ان 1300 سفرناموں کی ہے جو اس ذخیرہ میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ کی تصنیف اور اشاعت 1900 سے پہلے ہوئی تھی۔ کتاب کا نام ہے ’فہارس الاسفار ‘ ۔(اسکی ایک کمتر شکل پہلے ’نوادرات ‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔) اس میں بھی تمام ضروری معلومات درج کی گئی ہیں، جبکہ ترتیب میں مصنف کے نام کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 1947 کے بعد پاکستان میں سفرنامے لکھنے، شائع کرنے، اور پڑھنے کا رواج بڑی شدت سے ابھرا اور پھیلا۔ میں سمجھتا تھا کہ محترم مستنصر حسین تارڑ اس میدان میں سب سے تیز رو رہے ہوں گے، لیکن اس فہرست سے خبر ملی کہ مرحوم حکیم محمد سعید صاحب ان سے کہیں آگے نکل گئے تھے۔ لائبریری میں حکیم صاحب کے 55 سفرنامے موجود ہیں جبکہ تارڑ صاحب کی روداد ہائے اسفار صرف 17 ہیں۔ ان دو حضرات کے درمیان قمر علی عباسی صاحب ہیں جن کے 20 سفرنامے کھوکھر صاحب نے محفوظ کر چھوڑے ہیں۔ ایک حیرت خیز خبر جو میری کم علمی کا پول بھی کھولتی ہے یہ ہے کہ اس ذخیرہ میں کم ازکم 115 سفرنامے خواتین کے تحریر کردہ ہیں۔

تیسری فہرست کا عنوان ہے، ’تعلیم گاہوں کے رسائل و جرائد ‘ جس کو کھوکھر صاحب نے اپنے والد کی یاد میں مفت تقسیم کیا تھا۔ اس میں ساڑھے چار سو (450) سے زیادہ ان جرائد کی تفصیلات درج کی گئی ہیں جو بر صغیر کے تعلیمی اداروں سے وقتاً فوقتاً یا پابندی سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ سب سے پرانا رسالہ ’محمدن اینگلو اورینٹل کالج میگزین ‘ ہے جس کا آغاز 1891 میں ’علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ ‘ کے ضمیمےکی صورت میں ہوا تھا، اور جو جولائی 1894 سے الگ ایک مستقل ماہوار رسالے کی حیثیت سے شائع کیا جاتا تھا۔ اس میں اردو اور انگریزی کے الگ الگ سکشن شامل ہوتے تھے۔ مجھے اس رسالہ کا علم اس سے قبل نہیں تھا۔ پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ علی گڑھ میں اس کی فائلیں موجود ہیں، اور ایک اشاریہ بھی تیار ہوا تھا اگرچہ اس کی اشاعت کسی سبب سے ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔ بہر حال یہ حیرت اور خوشی کی بات ہے کہ گوجرانوالہ میں کھوکھر صاحب نےاس کے بائیس شمارے پاکستانی محققین کے لئے محفوظ کر رکھے ہیں۔ بدقسمتی سے کھوکھر صاحب کی رسائی 1947 کے بعد کے ہندوستانی جرائد تک بہت کم ہو سکی ورنہ ان کی تعداد اتنی کم نہ ہوتی جتنی اب ہے، پھر بی کئی نمائندہ شمارے موجود ہیں۔

چوتھی فہرست کا نام بھی کھوکھر صاحب کی دوراندیشی اور علم دوستی کی دلیل ہے۔ ’ماہانہ رسائل کے خصوصی شمارے ‘ بلا شبہ اپنی نوعیت کی پہلی فہرست ہے، اور ایک دو نہیں چار سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے مطالعے سے کوئی بھی شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ پرانے اور نئے رسائل کی فائلوں میں کتنا غیر معمولی مواد اہم اور نئے موضوعات پر تحقیق کرنے والوں کے لئے موجود ہے۔ ان تمام فہرستوں کو مرتب اور شائع کرنے کا سارا کام ، محدود وسائل رکھنے کے باوجود، خود کھوکھر صاحب نے انجام دیا ہے۔

عجب اتفاق ہے کہ اردو رسائل کا ایسا ہی منفرد اور انتہائی اہم ذخیرہ ہندوستان میں بھی ایک ایسے فرد واحد نے جمع کیا تھا جس کا کسی علمی یا تعلیمی ادارے سے تعلق نہیں تھا اور نہ جس کو کسی طرح کی سرکاری مدد ملی تھی۔ حیدرآباد، دکن، کے جناب عبدالصمد خان صاحب کا صرف ایک موٹر کی مرمت کا کارخانہ تھا (یہ میں محض حافظے کے سہارے لکھ رہا ہوں۔) لیکن انھوں نے جو ذخیرہ آنے والی نسلوں کے لئے مہیا کر دیا وہ اتنا ہی اہم اور حیرت انگیز ہے جتنا کھوکھر صاحب کا کارنامہ۔ عبدالصمد صاحب کے ذخیرے کی شہرت کم از کم محققین کے حلقوں میں عرصے سے ہے، اور جناب رضا علی عابدی نے بھی اس کا ذکر اہتمام سے اپنی ایک کتاب میں کیا ہے۔ غالباً دس سال قبل کئی غیر ملکی یونیورسٹیوں نے یہ ذخیرہ خرید کر حیدر آباد کی ہی سندریا کیندرم لائبریری میں محفوظ کر دیا ہے، اور اب یہ اہتمام بھی کیا جا رہا ہے کہ اس کا اہم ترین سرمایہ انتہائی احتیاط سے ’سکین ‘ کر کے پوری دنیا کی دسترس میں پہنچا دیا جائے، جبکہ تمام اصل مطبوعات حیدرآباد میں پوری طرح محفوظ رہیں۔

گوجرانوالہ کے اس درویش خصال علم دوست نے تن تنہا جو کام سرانجام دیا ہے اور جس بے لوثی سے اپنے ذخیرہ کو دوسروں کی مدد کے لئے بھی مہیا کرنے کی کوشش کی ہے وہ لائق صد احترام ہے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ احترام انھیں ملتا ہے کہ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کیا اس طور سے بھی ملتا ہے جو انہیں بھی قبول اور مرغوب ہو۔ احترام سے میری مراد داد و دہش نہیں۔ میرا اندازہ تو یہی کہتا ہے کہ کھوکھر صاحب کو کسی خطاب یا تمغہ کی تلاش نہیں اور نہ کسی مالی منفعت کی تمنا پے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کو جو کرنا تھا وہ انھوں نے کر ڈالا ہے۔ لیکن اب وہ عمر کی اس منزل میں پہنچ گئے ہیں جب ہر شخص کو معتمد اور مخلص مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے، اور جب ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ اس نے جو کچھ “سرمایہ” بہم پہنچایا ہے وہ اگلی نسلوں تک بھی پہنچے۔ ان کا ذخیرہ ایک انوکھا قومی ورثہ ہےجس کو کھوکھر صاحب کی حسب مرضی پاکستان میں محفوظ کرنا اور ساتھ ہی ساتھ اسے ساری دنیا کی دسترس میں پہنچانا اب پاکستان کے تمام علم دوستوں کا فریضہ ہے۔

(ایک مشورہ ضرور دینا چاہوں گا۔ اس سرمایہ کو محفوظ رکھنے کے لئے کھوکھر صاحب جو دوائیں شیلفوں اور بنڈلوں پر چھڑکتے ہیں وہ خود ان کے لئے کتنی غیر مضر ہیں اس کا مجھے پورا یقین نہیں۔ اگر کوئی واقف کار شخص گوجرانوالہ جاکر انھیں مشورہ دے سکے تو بڑا احسان ہوگا۔)

اظہارِ تشکّر: کھوکھر صاحب تک میری رسائی ہرگز نہ ہو پاتی اگر میرےجواں سال اور حوصلہ مند دوست رانا تنویر میری مدد نہ کرتے اور پورے دن کی فرصت نکال کر مجھے گوجرانوالہ لے جانے اور واپس لانے کا ’فریضہ ‘ ہنستے بولتے نہ ادا کرتے۔

کتابیات:

1۔نادر علی خاں، ہندوستانی پریس، 1556 تا 1900۔ لکھنئو، 1990۔

2۔ نادر علی خاں، اردو صحافت کی تاریخ، 1822 تا 1857۔ علی گڑھ، 1986۔

3۔ ضیاالله کھوکھر، بچّوں کی صحافت کے سو سال۔ گوجرانوالہ، 2006۔

4۔ ضیاالله کھوکھر، ماہانہ رسائل کے خاص نمبر۔ گوجرانوالہ، 2006۔

5۔ ضیاالله کھوکھر، فہارس الاسفار۔ گوجرانوالہ، 2007۔

6۔ ضیاالله کھوکھر، تعلیم گاہوں کےرسائل و جرائد۔ گوجرانوالہ، 2007۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments