ایک جلاوطن کا جواب۔۔۔ در زبان کوئٹہ


سلام علیکم علی جانہ\"zafarullah-khan-3\"،

 تمہارا خط آیا واللہ ہم کو بہت خوشی ہوا۔ ایک تو کوئٹہ کا بہت یاد آیا۔ ساری ہنڈی وال لوگ کا چہرے آنکھوں گھوم گیا ۔ اوپر سے تم نے محمد وفا ، شبیر ہزارہ اور حبیب کا قصہ بھی کیا۔ ہم بھی ٹائٹ رویا بہت عرصہ بعد۔ مگر یہ کون سا ایک بندے کا بات ہے۔ اتنے سالوں سے ہم دیکھ رہا ہے کہ کوئی غائب ہو جاتا ہے۔ کسی کا لاش ویرانے میں ملتا ہے۔ کسی کو باپ گھر سے مزدوری کرنے کراچی بھیجتا تو چھ مہینے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کنڑ میں جہاد کرنے گیا ہے نر کا بچہ۔ یہ دکھ تو ایک ایک آدمی کا تھا۔ الگ الگ گھر کا تھا مگر یہ ہسپتال میں کیا ہوا؟ کیسا ظالموں نے ایک پورا نسل تباہ کیا۔ چار لوگ تو ہمارا اپنا کلاس فیلو تھا یارا۔ خدا کا قسم سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کس کس کو روئے۔ عسکر خان اور عدنان تو ہمارا ساتھ تھا۔ داﺅد کاسی کا چیمبر ہم لوگوں کا شام کا اڈہ تھا۔ عطاﺅ اللہ کاکڑ جیسا مسکین آدمی بھی مار دیا ظالموں نے۔ دو بھائی پولیس والا تھا۔ ان کو پہلے ہی کسی نے مار دیا تھا۔ اب عطاﺅ اللہ بھی گیا۔ وہ گل زرین، حفیظ مندوخیل، باز محمد کاکڑ،حفیظ مینگل، محمود لہڑی،محب اللہ، نقیب ترین، نصیر لانگو، کس کس کا نام لیوے؟ یارا اپنا اشرف سلہری بھی مارا گیا۔ ہم نے اپنا پورا زندگی میں واللہ کہ اتنا میٹھا اور یارباش آدمی دیکھا تھا۔ گلہ کس سے کرے؟

\"Relatives

     زوئے ہم تم کو ایک قصہ کرے۔ ہمارا باپ کے ساتھ ہم پشین گیا ایک سردار صاب کے گھر۔ وہ ہم کو شکار پر لے گیا۔ شہتوت پک گیا تھا۔ سارکو کے سیل آئے تھے۔ ایک خالی درخت میں سارکو کا سیل بیٹھا تھا۔ یارا اگر ہم اندازہ لگائے تو کوئی ہزار کا قریب پرندے تو تھا۔ سردار صاب نے نشانہ باندھا۔ پھر اچانک سے ہوا میں فائر کر دیا۔ سارا سارکی اڑ گیا۔ ہمارا باپ سردار صاب کو بولا کہ سردار صاحب سارکو پر فائر کیوں نہیں کیا۔ پتہ ہے سردار صاب کیا بولا؟ بولتا ہے ماشٹر جانہ! اس ایک کارتوس میں 170 دانے چھرہ ہے۔ ہم فائر کرتا تو 100 سارکی مر جاتا اور 50 سارکی زخمی ہوتا۔ ہم شکار کھیلنے آیا ہے منڑا۔ ہلاکو خان تو نہیں ہے کہ سارکو کا مینار بنائے گا۔ یہ ظالم لوگوں نے ہمارا شہر کا دانش کے سروں کا مینار بنایا۔ خدا ان کا بیڑا غرق کرے۔ اس دن شیرانی کا ایک ویڈیو سنا۔ بولتا ہے اگر بدرگہ والاساتھ نہ ہوئے تو واللہ کہ ایک بھی آدمی افغانستان کا بارڈر کراس کر کے ادھر دھماکے کرے یا ادھر سے کراس کر کے ادھر دھماکے کرے۔ لیکن منڑا یہ بات کس کو بتاوے۔

ادھر کا حال کوئی خاص اچھا نہیں ہے۔ کاروبار کیا مگر کچھ خاص وارہ نہیں کھایا۔ بس ادھر ادھر سے محنت مزدوری کا چگاڑ لگاتا رہتا ہے۔ کوئی خاص ہنڈی وال لوگ بھی نہیں ہے۔ ادھر کچھ سیاسی لوگوں سے جان پہچان ہوا مگر خدا کا قسم سارا لغڑی عالم ہے۔ ان کا سیاسی بلوغت وللہ سائنس کالج کا سٹوڈنٹس کا سٹڈی سرکل سے بھی کمزور ہے۔ کبھی ہم بلوچستان کا بات کرتا ہے تو سب ایسا دیکھتا ہے جیسے ہم کسی اور\"cpvdos8weaak7l3\" سیارے کا مخلوق ہے۔ اس دن ہمارا ایک ہنڈی وال کے گھر ایک ایم پی اے صاب اور ایک مشہور صحافی صاب آیا تھا۔ سیاست کا بات شروع ہو گیا۔ بلوچستان کا ذکر آ گیا۔ ایم پی اے صاحب کو ایسا جوش چڑھا تھا جیسے وہ ستار روڈ کا بمبئی ہوٹل کا چینک ابلتا ہے۔ صحافی صاحب غزل کا پہلا مصرعہ اٹھاتا تھا۔ اور ایم پی صاب کورس شروع کر دیتا۔ تم سارا لوگ غدار ہے۔ تم فوج کو نہیں مانتا۔ تم حکومت کو نہیں مانتا۔ تمہارا سارا بجٹ سردار لوگ کھا جاتا ہے اور تم محرومی کا شور مچاتا ہے۔ تمہارا طرف ”را“ کا ایجنٹ ہے۔ ” خاد“ کا ایجنٹ ہے۔ نر کا بچہ کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ خاد تو کب کا چورلت ہو گیا۔ ہم کو غصہ تو بہت آیا لیکن پھر چورت مارا کہ کوئی اور پاٹ کرے۔ ہم بولاایم پی اے صاحب۔ بلوچستان میں کتنا ڈسٹرک ہے؟ معلوم نہیں تھا۔ ہم بولا ژوب، مکران، زیارت، تربت، وڈھ، ہرنائی میں کون سے علاقوں میں پشتون ہے اور کونسا علاقوں میں بلوچ؟ معلوم نہیں تھا۔ ہم بولا بلوچستان کا کونسا ضلع پختونخوا سے ملتا ہے؟ معلوم نہیں تھا۔ ہم بولا کونسا پنجاب سے ملتا ہے۔ بولا وہ ظفر اللہ جمالی والا۔ اندازہ لگاﺅ تم اب۔ ہم بولا تم ہم کو چھ سرداروں کا نام بتاﺅ۔ بولتا ہے عطاﺅ اللہ مینگل، اختر مینگل، بگٹی، ثناﺅ اللہ زہری۔ ادھر اس کا بس ہو گیا۔

صحافی صاب نے اس کو لقمہ دینا شروع کیا ۔ ہم کو اس پر پہلے ہی غصہ تھا۔ آج کل سیاست دانوں کے ساتھ بہت نازوانی کرتا ہے۔ سارا دن ان کو کم عقل ثابت کرنے پر لگاتا ہے۔ بندے کا نام تو نہیں لیتا لیکن اس کا دل میں ہے کہ کوئی ضیاءالحقی ہو جائے بس کسی طرح۔ ہم بولا صحافی صاحب ہم دو چار سادہ سوال پوچھے برا تو نہیں منائے گا؟ بولتا نہیں۔ ہم بولا ہم مان لیتا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتی سرداروں نے کیا ہے۔ ہم یہ بھی مان لیتا ہے ہمارا سیاست دان کرپٹ ہے۔ ہم یہ بھی مان لیتا ہے کہ سب غدار ہے۔ روڈیں موڈیں کا قصہ چھوڑو۔ سکول ہسپتال کا بات بھی چھوڑو۔ ہم کو یہ بتاﺅ کیا سارے انسان صلاحیت کا لحاظ سے برابر ہوتا ہے؟ بولتا ہے بالکل۔ ہم بولا یہ جو آپ کا 32 نیوز چینل ہے۔ اس کا پرائم ٹائم میں کتنا پرسنٹ بلوچستان پر بات ہوتا ہے؟ گھوم پھر کے بولتا ہے ہاں ٹھیک ہے۔ چونکہ چنانچہ۔ ہم بولا صبر کرو۔ 96 گھنٹے میں اینکر صاب کو ملا کر اگر تناسب نکالا جائے تو ہر روز 288 بندے ہم کو ملک و قوم کے مسائل بتاتا ہے۔ اگر سارا انسان صلاحیت میں برابر ہے تو کیا بلوچستان نے ایک بھی دانشور بھی پیدا نہیں کیا جو ان 288 بندوں میں بیٹھ سکے؟ ایک آدھ سیاست دان کو چھوڑو جس کو تم لوگ پروگرام کا ریٹنگ بڑھانے کا واسطے خواتین مواتین سے لڑاتا ہے ۔ کسی دانشور کا نام لو۔ وللہ کہ ایک بھی بندے کا نام لیا ہوئے۔ ہم بولا تم بلوچستان کے کس کالم نگار کو جانتا ہے جو کسی مشہور قومی اخبار میں چھپتا ہو؟ بولتا ہے کسی کو نہیں۔ ہم بولا بلوچستان کا کسی کرکٹر\"dr-malik\" کا نام بتا دو۔ نہیں معلوم۔ ہم بولا کسی سفیر کا نام بتا دو۔ نہیں معلوم۔ کسی کارپوریشن کے چیئرمین کا نام بتا دو۔ نہیں معلوم۔ کوئی ادیب؟ نہیں معلوم۔ ہم بولا کیا ہمارا صوبہ اتنا بے صلاحیت ہے کہ ایک دانشور ،صحافی، کھلاڑی، سفارت کار یا ادیب بھی پیدا نہیں کر سکا؟ بلوچستان کے مسائل پر تم لوگ ادھر بیٹھ کر تبصرے کرتا ہے اور حال یہ ہے کہ اختر مینگل اور عطاﺅ اللہ مینگل کو الگ الگ سردار سمجھتا ہے۔

علی جان زوئے ہم تم کیا کیا بتاوے۔ وہ تم کو یاد ہے ہمارا بچپن میں ایک ڈرامہ آتا تھا۔ پتہ نہیں پالے خان تھا کہ کیا تھا۔ اس میں ایک آدمی تھا جو نیکر پہن کر منہ میں سگار پکڑے انگریز افسر کا کردار کرتا تھا۔ ’ ٹم اڈھر آو مسٹر پالے کان‘۔ وہی والا جو کسی سرکاری محکمے میں افسرمفسر تھا۔ وہ آج کل ریٹائر ہو گیا ہے۔ ٹی وی پر دانشور لگ گیاہے۔ دین، وطن، قومیت پر تو ہے ہی حرف آخر، بلوچستان کے امور کا ماہر بھی وہی ہے۔ ہم کو وہ مری ماما کا قصہ یاد آتا ہے۔ وہ جو سمالنگ میں کوئلے پر لورلائی اور کوئلو کا کھٹ پٹ چل رہا تھا۔ تو ایک افسر ٹائپ لورلائی والا نے مری کے مشر کو پیغام بھیجا کہ سیدھے ہو جاﺅ نہیں تو ہم سارا کوہلو کو جڑ سے اکھاڑ دے گا۔ مری ماما نے پیغام لانے والا کو بولا۔ کہ اس کو بولو کہ تمہارابات سن کر ہم کو ہنسی آتا ہے۔ ادھر کے لوگوں کا باتیں سن کر ہم کو ہنسی آتا ہے۔

ان لوگوں نے عجیب عجیب باتیں طے کیا ہے۔ تم نے قراداد مقاصد کا نام کیوں لیا۔ تم چودہ اگست کو سینے پر جھنڈا کیوں نہیں لہرایا۔ منڑا یہ تو\"quetta\" علامتی باتیں ہیں۔ اس کا حب الوطنی سے کیا تعلق؟ ٹھیک ہے حفیظ جالندھری نے ترانہ لکھا لیکن اب کیا ہم اس کو فیض سے بڑا ادیب مانے؟ وہ بھی تو اوسط درجے کا شاعر تھا۔ مطلب مذاق کا بھی تو کوئی حد ہوتا ہے یار۔ انسانی ارتقاء کا تاریخ جانے ان لوگوں کو کیوں بھول گیا؟ دوسو سال پہلے توخود ریاست بھی نہیں ہوتا تھا۔ زور کا قصہ چلتا تھا۔ اب نیشن اسٹیٹ کا زمانہ ہے۔ انسانی ارتقاءممکن ہے کل کسی عالمی حکومت کے قیام پر متفق ہو جائے اور ساری سرحدیں ختم ہو جائیں تو کیا پھر بھی ہم لوگ دو قومی نظریہ کو طے شدہ سمجھے گا؟ آج ریاست ہے کل اگر اجتماعی شعور نے ریاست کا نفی کر دیا تو تمہارا یہ ” طے شدہ“ نظریاتی سرحد کا کیا بنے گا ؟ ہم مانتا ہے کہ جھنڈا ملکی شناخت کا ایک علامت ہے۔ اگر یہ جھنڈا کابل یا ممبئی میں کوئی جلوس ملوس میں جلاتا ہے تو ہم کو تکلیف ہوئے گا لیکن تم اس کو تقدیس کا وہ قمیض تو نہیں پہناﺅ کہ ہم پندرہ اگست کو نالیوں سے جھنڈیاں جمع کرتا رہے؟

ایک آدمی آتا ہے۔ ملک کے پورے آئین کو لپیٹ کر تاخچے میں رکھ دیتا ہے۔ تم سارا دن اس کے قصیدے لکھتا ہے۔ دوسرا آدمی اس آئین کے کسی حصے پر مکالمے میں سوال اٹھاتا ہے تو تم کو اس کے سوال پر تکلیف شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پاکستان چودہ اگست کو بنا تھا یا پندرہ اگست کو لیکن اگر ایک آدمی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ دونوں ممالک کو آزادی ایک دن ملا تھا تو یہ دونوں جشن دو الگ الگ دن کو کیوں مناتا ہے؟ تم کو یہ سوال متنازعہ لگتا ہے۔ حد ہے یارا۔ اس میں کیا متنازعہ ہے؟ اگر پاکستان کا حکومت کل اعلان کرے کہ ہم پندرہ اگست کو جشن منائیں گے تو کیا فرق پڑ جائے گا؟

علی جانہ۔ ہمارا باپ کہتا ہے کہ جو قومیں مادے کو توانائی میں بدلنے کا صلاحیت رکھتا ہے وہ دنیا پر راج کرے گا۔ وہ پشتو مکا متل سناتا ہے \"cpwo7-hweaatzpi\"کہ ’ زوئی پہ سندرو نہ لویژی‘ قصیدے گانے سے بیٹا عظیم نہیں بنتا۔ جو عظیم ہوتا ہے وہ قوم خود دنیا پر راج کرتا ہے۔ تم قصیدے گاتا ہے۔ گاﺅ یارا لیکن باقی لوگوں کو تو مجبور مت کرو کہ ریت میں سرچھپا لیوے۔ یہ ایک ہندوستان تھا۔ تین ملک بن گیا۔ بنگلہ دیش پاکستان کا صوبہ ہوتا تھا۔ اب الگ ملک ہے۔ سکاٹ لینڈ والا اگر ریفرنڈم میں یہ کہہ دیتا کہ ہم کو برطانیہ سے الگ کرو تو دنیا کا نقشے پر ایک اور ملک کا اضافہ ہو جاتا۔ آئین کی رو سے صدر اسمبلی توڑ سکتا تھا۔ اب نہیں توڑ سکتا۔ یہ طے شدہ کیا چیز ہوتا ہے؟ یہ والا پاٹیں نہیں کرو۔

علی جانہ! ادھر یہ حال ہے۔ ہم سوچتا ہے کہ واپس آجائے۔ ہمارا باپ دادا کا ہڈیاں ادھردفن ہے۔ ہمارا سانسوں میں اسی مٹی کا خوشبو ہے۔ موت تو کدھری بھی آ سکتا ہے لیکن سوچ، فکر، زبان اور سوال پر پابندی لگ جائے تو آدمی زندہ ہوتے ہوئے مردوں کا سا زندگی گزارتا ہے۔ ہم کو بہت تکلیف ہوتا ہے کہ ہمارا سینکڑوں بھائی کسی کے گہرائی پالیسی کا نذر ہو گیا۔ کوئی وطن کے نام پر شاٹ ہو گیا۔ کوئی عقیدے کا وجہ سے مار دیا گیا۔ گزشتہ چالیس سال سے ہمارا زمین پر جنگ مسلط ہے۔ کوئی افغانستان میں اسلام برپا کرنے کی وجہ سے مر گیا۔ کمال ہے جو اسلام پاکستان میں پسند نہیں اس کے لئے افغانستان کا بھٹی میں ہمارا بھائی جلے۔ ہم سوال اٹھائے تو تمہار طے شدہ امور کو تکلیف ہو جاتا ہے۔ جنازے بھی ہم اٹھائے۔ لوگ بھی ہمارا غائب ہو۔ وطن بھی ہمارا درپدر ہو۔ سکول ،کالج، روڈیں، ہسپتال بھی ہمارا برباد ہو۔ ہمارا حق کا بات کرنے والا بھی ہم میں سے نہ ہو۔ اور غداری کا فتوی بھی ہم پر لگے۔ وطن دشمن بھی ہم ہو۔ اتنا نازوانی والا پاٹ تو وللہ کہ سردار صاب نے سارکو کے ساتھ کیا تھا۔

\"quetta-bazar\" اڑے علی جانہ! بات بہت لمبا ہو گیا۔ تم کو یاد ہے احمد فراز نے ایک نظم لکھا تھا۔ ہم نظم کا نام نہیں لکھ سکتا مگر مصرع کا بناوٹ بھی ذہن سے اتر گیا۔ یہ لوگ چاہتا ہے کہ ہم۔ اپنا تحقیر کا تلخیاں بھول کر ان پر توقیر کا بھول برساتے رہیں۔ جناح روڈ کا گونگے جمعہ خان ملنگ کا جیسے اپنا سینہ ٹھوک رہا ہے ہم۔ زبان تو جمعہ خان ملنگ کا بھی نہیں تھا لیکن چیخ کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ہم کو باقی باتیں معلوم نہیں ہے۔ بس ہم چیختا رہے گا۔ کوئی نہ کوئی تو ہو گا جو درد محسوس کرے۔ اور لکھنے کا ہمت نہیں ہے۔ بس سلامت رہو۔ حال حوال دیتے رہو۔

تمہارا یار

اسلم رانا

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments