`حافظ سعید کس کا نمائندہ ہے؟


\"edit\"امریکہ نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کی سازش کر رہا ہے۔ امریکہ باالواسطہ اور بھارت براہ راست اس اقتصادی ترقیاتی منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ امریکہ کو اندیشہ ہے کہ عالمی منڈیوں تک مختصر اور تیزی سے پہنچنے والا متبادل راستہ ملنے کی صورت میں چین کی اقتصادی حیثیت اور فوجی قوت میں اضافہ ہو گا جبکہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ ازلی دشمنی کے رشتہ کی وجہ سے ایسے ہر منصوبے پر تشویش لاحق ہوتی ہے جو پاکستان میں خوشحالی اور ترقی کا سبب بن سکے۔ حالانکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سرکردگی میں بھارت نے جس طرح پاکستان کو جنوبی ایشیا کی واحد دہشت گرد ریاست کے طور پر منفی پروپیگنڈے کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس کی روشنی میں بھی دیکھا جائے تو پاکستان میں اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس طرح صرف پاکستان ہی محفوظ نہیں ہو گا، بھارت بھی انتہا پسند عناصر سے محفوظ رہے گا۔ خواہ یہ عناصر پاکستان میں ابھرنے والے بھارت دشمن گروہ ہوں یا افغانستان سے پاکستان کے راستے بھارت پہنچنے اور مسلمان اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کا انتقام لینے کی خواہش رکھنے والے جنگجو ہوں۔ لیکن بھارت کی کوتاہ نظر قیادت اس بڑی تصویر کو دیکھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔

دوسری طرف یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے سی پیک CPEC کے خلاف سازش کرنے کے بارے میں جس سوال کا جواب دیا ہے، وہ الزام جماعت الدعوۃ کے حافظ محمد سعید کی طرف سے عائد کیا گیا تھا۔ نہ تو حافظ سعید کی بھارت دشمنی ڈھکی چھپی ہے اور نہ ہی لشکر طیبہ کے ذریعے بھارت میں دہشتگردی کی سرپرستی کرنے میں ان کے کردار کا کوئی پہلو کسی سے پوشیدہ ہے۔ بھارت حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو 2008 میں ممبئی دہشت گرد حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتا ہے۔ امریکہ بھی بھارت کے اس موقف کی تائید کرتا ہے اور اس نے حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر اس کے سرکی قیمت دس ملین ڈالر مقرر کی ہے۔ اس کے باوجود یہ شخص نہ صرف آزادی سے پاکستان میں رہتا ہے بلکہ ایک بااثر تنظیم کا سربراہ ہے۔ حکومت پاکستان یہ عذر تراش رہی ہے کہ بھارت نے ناکافی ثبوت دیئے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی عدالتیں حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کو سزا نہیں دے سکیں۔ اور ملک کی جمہوری حکومت عدالتی فیصلہ کو مسترد کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ یہ مضحکہ خیز موقف ایک ایسے ملک کی حکومت اختیار کرتی ہے جس کے اپنے شہریوں کو اچانک غائب کر دیا جاتا ہے اور پھر برس ہا برس تک ان کا پتہ نہیں چلتا۔ کئی صورتوں میں ان لوگوں کو تشدد کے بعد قتل کرکے ان کی لاشیں ویران جگہوں پر پھینک دی جاتی ہیں۔ لیکن ریاست ایسے افراد کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہتی ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کی شہرت کو نقصان پہنچانے اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہونے کےلئے سرگرم رہتے ہیں۔

اس صورت میں اگرچہ یہ سوال بھی بے حد اہم ہے کہ ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ اور عالمی طور سے دہشت گرد قرار پانے والے شخص کو حکومت پاکستان کیوں تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی کے تناظر میں اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ حافظ سعید کن بااختیار لوگوں کے اشارے پر بھارت اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ وہ دوسری مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتہا پسند نعرے بلند کرتا ہے اور اجتماعات میں ایسی تقریریں کرتا ہے جو پاکستان کے مفادات کے برعکس ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ٹاک شوز میں انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کی صورتحال پر بات کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ ان مواقع کا فائدہ اٹھا کر وہ نفرت اور کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے۔ اس کی وزارت خارجہ میں باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ نریندر مودی یا ان کی حکومت کے دوسرے ارکان کی ہرزہ سرائی کا جواب دینے کےلئے پاکستان کے پاس قابل اعتبار اور لائق سیاستدانوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ پاک فوج کے سربراہ نے گزشتہ ہفتے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ مودی ہو یا ’را‘ یا کوئی اور ۔۔۔۔۔۔ پاکستان ان سب کی سازشوں سے آگاہ ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پھرپاکستان کے کن عناصر کو حافظ سعید جیسے بدنام زمانہ شخص کو وکیل کرنے کی ضرورت ہے؟

یوم دفاع پر بھی جنرل راحیل شریف نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ناقابل تسخیر قرار دیا ہے۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت ، امریکہ اور بھارت کے فوجی معاہدے اور ہمسایہ ملک کی طرف سے اسلحہ کی کثیر خریداری سے پیدا ہونے والے خطرات کے باوجود جنرل راحیل نے واضح کیا ہے کہ پاکستان پہلے مضبوط تھا اور اب ناقابل تسخیر ہو چکا ہے۔ ملک کی حفاظت کا جو نظام استوار کیا گیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے آرمی چیف کا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں ہے۔ بھارت کی کولڈ سٹارٹ اسٹریٹجی یا ڈاکٹرائن کے مقابلے میں پاکستان نے موبائل اور چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی رینج تیار کی ہے۔ اس طرح فوری اور شدید حملہ کرنے کے بھارتی خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی منتشر کر دیا ہے۔ اس کے بعد بھارت نے بحرہند میں بحریہ کو مستحکم کرنے اور سیکنڈ آپشن کے نام پر پاکستان کے خلاف بحری حصار بنانے کے منصوبوں کا آغاز کیا ہے۔ اس کا جواب دینے کےلئے پاکستان میری ٹائم ڈاکٹرائن تیار کر رہا ہے۔ اس طرح پاک بحریہ مسلح افواج کے دیگر شعبوں اور اداروں کے ساتھ مل کر ساحلی علاقوں میں دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کےلئے مستعد و تیار ہے۔ بلاشبہ پاکستان سرحدوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے ناقابل تسخیر ہے۔

پاکستان کو اصل خطرہ اندرونی انتشار اور ایسے عناصر سے لاحق ہے جو دوستوں کے بھیس میں ملک دشمنی کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے لوگوں میں حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ جماعت الدعوۃ (لشکر طیبہ) اور جیش محمد جیسے جنگجو گروہوں کے ذریعے پاکستان کےلئے سفارتی مشکلات اور سکیورٹی خطرات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ان لوگوں اور گروہوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی اعانت حاصل رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی سامنے آ چکا ہے کہ اب پاکستان نے کسی بھی قسم کے عسکری گروہ کی حمایت کرنے کی پالیسی ترک کر دی ہے۔ اچھے اور برے طالبان یا دہشت گرد کی تخصیص کا طریقہ بدل دیا گیا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ہر قسم کے سماج دشمن عناصر کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر کسی نے ریاست یا اس کے مفاد کے خلاف ہتھیار اٹھایا تو یا تو ان عناصر کو کچل دیا جائے گا یا انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔

اس پالیسی ہی کی روشنی میں یوم دفاع پر پاک فوج کے سربراہ نے آپریشن ضرب عضب کے آپریشنل مقاصد حاصل کرنے کی نوید دیتے ہوئے قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عملدرآمد کرنے پر زور دیا تھا تاکہ اس مزاج کا خاتمہ ہو سکے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے۔ ان اقتصادی ذرائع کی روک تھام کی جاسکے جو تخریبی عناصر کی مالی امداد کے کام آتے ہیں۔ ایسے ارفع مقاصد کےلئے کام کرنے والے ملک میں حافظ محمد سعید جیسے لوگوں کو حساس نوعیت کے بین الملکی معاملات پر اظہار خیال کرنے اور غلط فہمیاں پید اکرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔ وہ کون سی مجبوریاں ہیں کہ مملکت پاکستان ایسے گروہوں کو ختم نہیں کر سکتی جو نجانے کتنے کمزور یا طاقتور ہیں لیکن انہیں مسلسل پاکستان کے خلاف الزام کے طور استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ریاست ایسے عناصر کے خلاف بھی کوئی آپریشن ضرب عضب شروع کرے، کوئی قومی ایکشن پلان، نفرت کے ان سوداگروں کا گریبان بھی ماپ سکے۔ تاکہ پاکستانی حکومت بھارت اور امریکہ کے ہاتھ سے پروپیگنڈا کے وہ ہتھیار چھین سکے جو مسلسل پاکستان کی شہرت خراب کرنے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کےلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔

ان عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے تو امریکہ سے یہ پوچھا جا سکے گا کہ پاک فوج سے بلاتخصیص ہر دہشت گرد گروہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے اور حقانی نیٹ ورک کو نظر انداز کرنے کا الزام لگانے والا ملک خود افغانستان میں اپنی تمام تر قوت اور دولت کے باوجود کیوں پندرہ برس میں ہمہ قسم دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہا۔ اتحادی افواج اتنی کمزور اور بے بس کیوں ثابت ہوئیں کہ پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے والے طالبان اب نصف ملک پر قابض ہو چکے ہیں اور دنیا کی واحد سپر پاور کی طرف سے مذاکرات کی ہر پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جن دہشت گردوں کو افواج پاکستان نے قبائلی علاقوں سے مار بھگایا ہے ۔۔۔۔۔ وہ امریکی افواج اور ان کی تربیت یافتہ افغان سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں افغان علاقوں میں ٹھکانے بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے جس ڈیورنڈ لائن کو پاکستان محفوظ بنانا چاہتا ہے اور دہشت گردوں کے لئے سرحد پار کرنے کے مواقع ختم کرنا چاہتا ہے، امریکہ اپنی تمام تر قوت ، نگرانی کی صلاحیت اور ٹیکنیکل مہارت کے باوجود پندرہ برس میں وہ کام کیوں نہیں کر سکا۔

یہ سارے جائز اور مناسب سوال ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کثیر قربانیوں کے بعد یہ سوال کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ لیکن عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بعض ایسی کالی بھیڑیں پال لی گئی ہیں کہ وہ عناصر پاکستان کی سفارتی پوزیشن کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام کی جائز تحریک اور قربانیوں کو داغدار کرکے بھارت کو یہ شور مچانے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ یہ سب پاکستان کا کیا دھرا ہے۔ یعنی 2 ماہ میں ستر معصوم نوجوان کشمیریوں کی شہادت، چھ ہزار سے زائد زخمی شہری اور مسلسل 24 گھنٹے نافذ رہنے والا کرفیو، یہ سب پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ یہ الزام بے بنیاد اورغلط ہونے کے باوجود دنیا کے دارالحکومتوں میں دہرائے جاتے ہیں اور سنے جاتے ہیں۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر اٹھنے والے احتجاج پر عالمی ضمیر مسلسل خواب خرگوش میں مبتلا رہتا ہے۔ پاکستان کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ اس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے۔ اس مزاج سے نبرد آزما ہونا ہوگا جو اپنی بہادر اور جیالی فوجوں کی بجائے چند گمراہ اور پیشہ ور قاتلوں کو ملکی مفاد کےلئے ضروری سمجھنے کی غلطی کر رہا ہے۔

جس روز پاکستان حافظ سعید ، مولانا مسعود اظہر اور مولانا عبدالعزیز کی دست درازیوں کے علاوہ ان کی زبان درازی کو بھی روک سکے گا ۔۔۔۔۔ اسی روز بھارت کے خلاف عالمی سفارتی محاذ پر آدھی سے زیادہ جنگ جیت جائے گا۔ اس کے سفارت کاروں کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کی دعوت کو دہرانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تب دنیا نئی دہلی سے کہے گی کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ہی اس خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی کوئی قدم نریندر مودی کی زہر افشانی کا تریاق ہے اور امریکی مطالبوں کا راستہ روکنے کا واحد موثر جواب بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments