ملحد کا کفر اور میری توبہ توبہ


\"ajmalبہت عرصے کے بعد سعید صدیقی سے پریس کلب کے آنگن میں ملاقات ہوئی۔ ۔ ۔ یہ ملاقات اچانک کئی مہینوں کے بعد ہو رہی تھی۔ سعید صدیقی اپنے حلقہ احباب میں دہریئے، ملحد یا کافر کے ناموں سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ کوئی اگر انہیں کافر کہہ دے یا ملحد کہہ دے یا دہریہ کہہ دیا۔ ۔ ۔ انہیں ایسے القابات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ۔ ۔ ۔  وہ ان ناموں کو سن کو ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں۔

آفس سے گھر جانا چاہتا تھا، لیکن شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔ ایک دوست نے کہا، بھائی، میں پریس کلب جارہا ہوں، جانا چاہتے ہو تو آجاؤ۔ ایک دم مجھے یاد آیا کیوں نہ پریس کلب کا نیا کارڈ بھی وہاں سے لے لوں اور کھانا بھی تناول کر لوں گا۔ اسی لئے پریس کلب چلا گیا، پریس کلب داخل ہوتے ہی سعید صدیقی کی آواز سنائی دی۔ میاں کہاں جارہے ہو؟ادھر آؤ، اب میں سمجھ گیا کی پریس کلب میں سبزی دال سے ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ اور دوسرا آج کافر کی کافرانہ باتیں اور ادائیں بھی برداشت کرنی پڑیں گی۔ مجھے سعید صدیقی اپنے ساتھ پریس کلب کی پہاڑی پر لے گئے۔ کہنے لگے، میاں، عرصے کے بعد ملاقات ہو رہی ہے، کہاں رہے ہو؟ میں نے کہا بس سر گھر سے آفس اور آفس سے گھر اور کبھی کبھی کسی دوست سے ملاقات ہوجاتی ہے، جیسے کئی مہینوں کے بعد آپ سے ملاقات ہو گئی۔ محترم نے فرمایا، عید کہاں منا رہے ہو؟ میں نے کہا، جناب رحیم یار خان جا رہا ہوں، ادھر ہی مناؤں گا، اگر کسی نے منانے دی۔ سخت لہجے میں بولے، عید پر گوشت خوری مت کرنا، میں نے کہا وہ کیوں؟ فرمانے لگے، میں جو کہہ رہا ہوں، مزید بحث سے بچنے کے لئے میں نے فوری جھوٹ بول دیا، جیسے آپ کا حکم، لیکن دل میں یہ احساس تھا کہ سعید بھائی گوشت خوری تو میں ہر صورت کروں گا۔

گوشت خوری کے درس سے بچنے کے لئے سعید بھائی سے میں نے سوال کیا، سر، یہ بتائیں آج کل ہمارے معاشرے کو کیا خطرات لاحق ہیں؟ محترم نے فرمایا، میاں، اس ملک میں روشن خیالی، جمہوریت اور جدید نظریات کو تو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں ہیں۔ البتہ انسان کی شاعرانہ خوبصورتی اور دلکشی خطرے میں ہے۔ انسان جمالیاتی حسن کو معلوم نہیں کیوں لفٹ نہیں کراتا۔ انسان کی انسانیت خطرے کی زد میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس میں خوبصورتی کا کیا سوال ہے؟ موصوف فرمانے لگے، انسان اگر خوبصورتی اور جمالیاتی حس سے بھرپور ہوتو بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں۔ لوگ اکثر مجھے کہتے ہیں کہ سعید میاں، تم شراب پی لیتے ہو، لیکن گوشت خوری سے تمہیں اتنی چڑ کیوں ہے؟ ان بے وقوفوں کو اب کون یہ بتائے کہ الکوحل کی اجازت دی جاسکتی ہے، لیکن گوشت خوری کی نہیں۔ کیونکہ الکوحل فروٹ وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے۔ حقیقت میں الکوحل پھلوں کا جوس ہی تو ہے۔ کبھی کبھار انسان کو تھوڑے سے خمار کو بھی انجوائے کرنا چاہیئے کیونکہ عظیم شاعری اسی خمار سے ہی تخلیق ہوتی ہے۔ اب میں ایک شاعر ہوں، اسی لئے کبھی کبھار شراب کو منہ لگا لیتا ہوں تو اس میں کیا قباحت ہے؟

میں نے کہا، جناب پھر کبھی کبھار جو لوگ گوشت خوری کرتے ہیں تو اس پر آپ ہر وقت کیوں ناراض رہتے ہیں؟غصے سے چیخ کر بولے، میاں، گوشت خوری خوبصورتی نہیں، بدصورتی ہے۔ صرف یہ سوچو کہ یہ انسان صرف خوراک کے لئے جانوروں کا قتل عام کرتے ہیں۔ یہ آئیڈیا ہی کتنا بدصورت اور جمالیاتی حسن کے خلاف ہے کہ خوراک کے لئے جانور کا قتل کردیا جائے۔ اچھا فرض کرو کہ میں اس چیز کے خلاف بھی نہیں ہوں کہ جانور کا قتل کیا گیا۔ اسے غیر متعلقہ نقطہ سمجھو۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ جانور کا قتل کرتے ہیں صرف خوراک کے لئے؟ جب خوبصورت، دلکش اور لزت سے بھرپور پھل اور سبزیاں دستیاب ہیں تو پھر یہ جانوروں کا قتل کیوں کیا جائے؟ جب خوراک دستیاب ہے اور وہ بھی فطری تو جانوروں کا قتل کیوں؟کسی جسم کو تباہ کرنے کی اور ماحولیات کو بدصورت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر انسان جانوروں کا قتل کر سکتے ہیں تو پھر آدم خور انسان اگر انسانوں کا قتل کرکے ان کا گوشت کھاتے ہیں تو پھر ان آدم خورو ں پر بھی اعتراض نہیں کرنا چاہیئے؟ پھر انسان کو قتل کرکے کھانے میں کیا غلط ہے؟

انسان انسان کا قتل عام اس لئے پسند نہیں کرتے کیونکہ یہ ماحولیات کے حسن کا سوال ہے؟ میں نے کہا بھائی انسان انسان ہیں اور جانور جانور، آپ کیسے ان دونوں کو ایک ساتھ ملا سکتے ہیں؟ فرمانے لگے یہ جانور بھی ہمارے بہن بھائی ہیں۔ انسان انہی سے تو آیا ہے۔ جانور بھی ہماری فیملی ہیں۔ یہ بھی انسانیت کا خوبصورت حصہ ہیں۔ جانور کا قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسے ارتقائی مراحل کو طے کرتے انسان کو مارنا۔ یہ دونوں برابر ہیں بھیا۔ جانور بھی انسان کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ کبھی انسان بھی جانور ہی تھے۔ فرمانے لگے ہم خوراک کے لئے اپنے ماں، باپ، بیوی اور بچوں کا قتل کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ وہ خوبصورت اور پیارے ہیں۔ اگر وہ خوبصورت اور پیارے ہیں تو پھر یہ جانور بھی تو خوبصورت اور پیارے ہیں۔ آج تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں، یہ کہانی میرے نانا نے آج سے بیس سال قبل مجھے سنائی تھی۔ ایک انسان دوسرے انسان کے پاس گیا، اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ دوسرا انسان آدم خور ہے۔ آدم خور انسان نے اسے گوشت کھلایا، اسے گوشت کا سالن بہت لذیز لگا۔ اس نے کہا، آج تک اس قدر لذت سے بھرپور گوشت کا سالن اس نے نہیں کھایا۔ جب وہ جانے لگا، تو اس نے آدم خور انسان سے کہا، اب جب دوبارہ آؤں گا تو یہی سالن کھاؤں گا۔ اس پر آدم خور انسان نے کہا، اب یہ ممکن نہیں کیونکہ میری صرف ایک ہی ماں تھی۔ میں نے کہا، اس کہانی کا کیا مطلب؟ سعید بھائی بولے، اگر صرف خوراک اور لذت کے لئے گوشت خوری کرنی ہے تو پھر یہ انسان اپنے ماں باپ اور بیوی، بچوں کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟ اس کی وجہ جمالیاتی ہے۔ زندگی خوبصورت اور دلکش ہے، اسے بدصورت اور خوفناک نہیں ہونا چاہیئے اس لئے انسان انسان کا قتل کرکے گوشت خوری نہیں کرتے۔ یہ سب خوبصورتی کا سوال ہے۔ ہم انسانوں کو سبزی خور ہونا چاہیئے۔

میں نے پوچھا سبزی خوری یا نباتات خوری کا نظریہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے؟ سعید صدیقی کہنے لگے، یہ آئیڈیا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی بنیاد ادب و آداب اور جمالیاتی حسن پر ہے۔ گوشت خور زمین پر بھی بوجھ ہیں اور خود بھی بوجھل بوجھل رہتے ہیں۔ لیکن سبزی خور اپنے آپ کو ہمیشہ ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ سبزی خور فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہتا ہے۔ وہ آسمان پر اڑتے پنچھی کی مانند ہے جسے ہر طرف خوبصورتی ہی خوبصورتی نظر آتی ہے۔ خوراک انسان کو روحانی انسان نہیں بناتی، لیکن اگر کوئی انسان روحانی ہے تو اس کے عادات و اطوار میں الہامی تبدیلیاں لے آتی ہے۔، یہ سب جمالیات کی بات ہے۔ حساسیت کی بات ہے۔ احترام کی بات ہے۔ جسے انسان کو سمجھنا چاہیئے۔ یہ کیا بات ہے کہ صرف خوراک کے لئے جانور کا قتل کردیا جائے، پرندوں کو قتل کردیا جائے۔ یہ بدصورتی ہے۔ زندگی کسی کی بھی ہو، چاہے وہ انسان کی ہو یا جانور کی یا کسی پرندے کی، زندگی کو تباہ نہیں کرنا چاہیئے۔ زندگی کا قتل نہیں کرنا چاہیئے۔ زندگی خدا ہے۔ انسان کو اسے تباہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ سبزی خوری انسان کے لئے ہمیشہ مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ انسان کی کیمسٹری کو تبدیل کرتی ہے۔ انسان کے شعور اور نفسیات کو تہذیب یافتہ بناتی ہے۔ زندگی کا احترام کرنا چاہیئے، چاہے وہ زندگی کسی انسان کی ہو یا کسی جانور یا پرندے کی۔ دعا اور عبادات کا مطلب بھی تو آدب و احترام ہے۔

سعید بھائی کی گفتگو طویل ہو چکی تھی اور میں بھوک سے نڈھال ہورہا تھا۔ میں نے کہا، سعید بھائی، چلیں بہت بھوک لگی ہے، کنٹین چلتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، باقی باتیں وہی کریں گے۔ اس کے بعد ہم دونوں کنٹین میں آگئے۔ اب دل گوشت کا سالن کھانے کو کررہا تھا۔ سعید بھائی سامنے بیٹھے تھے۔ ابھی انہوں نے مجھے گوشت خوری کے خلاف لیکچر جھاڑا تھا۔ مجبورا ماش کی دال کا آرڈر دیا، میں نے پوچھا سعید بھائی آپ نے کچھ کھانا ہے، فرمانے لگے، میرے لئے ایک چائے کا کہہ دو۔ تھوڑی دیر بعد ماش کی دال آگئی، بھوک شدید تھی، ادھر ادھر دیکھا تو باقی صحافی گوشت کے سالن کا مزہ لیتے نظر آئے اور میرے سامنے ماش کی دال تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ میں نے دال کو انجوائے کرنا شروع کردیا اور سعید بھائی سامنے چائے کی چسکیاں لیتے نظر آئے۔ سعید بھائی پر غصہ تو بہت آیا، لیکن اور کوئی راستہ بھی نہ تھا۔ جب کھانا کھا رہا تھا تو سعید بھائی کو چپکے سے اور غصے سے بھی دیکھ لیتا، وہ بھی شرارتی انداز میں میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتے۔ کھانا ختم کیا اور ہم دونوں پریس کلب سے باہر آگئے۔ سعید بھائی اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوگئے اور میں اپنی منزل کی طرف چل دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments