معرکہ اسلام سے مارکہ حجاب تک ۔۔۔۔۔


جب میں ادب، ادبی قدروں، ادبی رسائل و جرائد اور اخبارات کے ادبی صفحات کے عمومی زوال کی بات کرتا ہوں تو کچھ احباب ناراض ہو \"naseer\"جاتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں، سب ٹھیک ہے، ادب میں اچھا برا ہر دور میں ہوتا ہے، اور یہ کہ میں خواہ مخواہ ادب اور ادیبوں کے متعلق منفی باتیں کرتا ہوں۔ کچھ میری بات کو عامیانہ، معمولی اور خالی از دانش کہہ کر رد کر دیتے ہیں، کچھ اسے میری ذاتی فرسٹریشن قرار دیتے ہیں، کچھ فی زمانہ مروج ادبی سماجیات سے میری دوری کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اور کچھ ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔ میں جواباً زیرِ لب مسکرا دیتا ہوں۔ بات معمولی ہو سکتی ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ میری کوئی ذاتی ادبی نارسائی یا مایوسی بالکل بھی نہیں۔ دراصل جو عملاً ہو رہا ہو اور جو صورتِ حال روزِ روشن کی طرح واضح ہو اسے مبہم دلائل اور لایعنی مباحث سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اگر ہم صرف اخبارات کے ادبی صفحوں کو یاد کریں تو ایک زمانہ تھا کہ یہ ادبی صفحے بہت معیاری ہوا کرتے تھے، معتبر ادیب/ شاعر ان کے انچارج ہوتے تھے اور ادبی ایڈیشن اُن ادیبوں شاعروں کی پہچان ہوتے تھے۔ اُن میں چھپنا صرف برائے شہرت نہیں بلکہ باعثِ توقیر سمجھا جاتا تھا۔ ادبی ایڈیشن ہفتہ وار ہوتے تھے اور ان کے روزِ اشاعت کا انتطار کیا جاتا تھا۔ اور اُس ایک دن کے ایک صفحے پر محیط شعری و نثری تخلیقات اور تنقیدی نگارشات پورا ہفتہ زیرِ بحث رہتی تھیں۔  ان میں نوآموز بھی لکھتے تھے اور پختہ کار بھی لیکن غیر معیاری تحریریں شائع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک مشہور اور بڑے اخبار کا ادبی ایڈیشن سامنے اور پیچھے کے دو صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ راقم کی نظمیں بھی اس میں بڑے اہتمام سے شائع کی جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ وہ ایڈیشن ایک صفحے کا ہوا، پھر آدھے صفحہ کا اور اب تقریباً معدوم ہو گیا ہے اور صرف اسی وقت شائع ہوتا ہے جب کوئی اشتہار نہ ہو۔ اکثر روزناموں کا اب یہی وتیرہ ہے کہ زیادہ اشتہار ملنے کی صورت میں سب سے پہلے قینچی ادبی صفحہ پر چلتی ہے کیونکہ اخبار کی کاغذی کشتی میں ادب فاضل بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ ادبی صفحات کے لیے مخصوص جگہ ہی نہیں، ان کا معیار بھی سکڑ گیا ہے۔ زیادہ تر ادبی صفحات کے انچارج اب ایسے خواتین و حضرات ہیں جو پڑھے لکھے تو ہیں لیکن ادبی پس منظر نہیں رکھتے اوران کا ادبی مطالعہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ حقیقتِ حال کیا ہے اس کا اندازہ ایک معروف اخبار کے ادبی صفحے پر شائع ہونے والی اس نظم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

نظم\"nazam\"

حیا کا کلچر عام کریں گے

اسلام کا ہم پرچار کریں گے

ہو گا ہر سو ذکر ہمارا

دنیا میں پیدا نام کریں گے

شیطانی تہذیب کا ہم

پھر سے ستیاناس کریں گے

بے حیائی کے فیشن میں ہم

حیا کا کلچر عام کریں گے

مارکہ خیر وشر میں ہم

حجاب کی تشہیر عام کریں گے

حجاب حکم ربی بھی ہے بہنو

اور شعار مصطفیٰ بھی ہے

حیا کا کلچر عام کریں گے

اسلام کا ہم پرچار کریں گے

جی ہاں یہ کسی چورن بیچنے والے یا حجاب بنانے والی کمپنی کے اشتہاری پمفلٹ پر یا بچوں کے کسی اخبار، رسالے یا کسی جمعہ یا اتوار یا خواتین میگزین یا کسی مذہبی جماعت کے کتابچے میں شائع نہیں ہوئی۔ یہ ایک باقاعدہ رونامے کے باقاعدہ ادبی ایڈیشن میں دیگر ادبی نگارشات کے ساتھ شائع ہوئی ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس روزنامہ کے ادبی صفحہ کا انچارج بذاتِ خود ایک معروف اور باقاعدہ شاعر ہے۔ پھر اخبار کی ایک پوری ادارتی ٹیم ہوتی ہے، پڑھے لکھے ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، ماہر کمپوزر اور تجربہ کار پروف ریڈر ہوتے ہیں۔ بظاہر ان سب کی نظریں عقابی، پالیسیاں سخت اور معیار کڑے ہوتے ہیں۔ لیکن معرکہ سے مارکہ تک سب کی آنکھیں بند رہتی ہیں۔ حیرت ہے کہ اگر کسی نو خاستہ نے \”معرکہ\” کو \”مارکہ\” لکھ دیا ہے تو کسی استاذُالانام یا اُستاکار نے درست کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ باقی نظم کیا ہے اور اس نظم کا ادبی معیار و متن کیا ہے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ سمجھنے والے اسے پڑھ کر بخوبی سمجھ جائیں گے۔ اسی ادبی صفحہ پر باقاعدہ اچھے ادیبوں شاعروں کی نگارشات بھی موجود ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس نظم کی طرف توجہ نہیں کی ہو گی۔ اسے پڑھا بھی ہو گا تو اس پر کچھ کہنے کی بجائے حسبِ معمول اپنے اپنے ادبی مفادات پکے کرنے، تعلقات بنانے اورآئندہ اپنی مزید تحریریں چھپوانے کے لیے اس صفحہ کے انچارج کو ملاقات پر یا فون پر یا سوشل میڈیا کے ذریعے داد دی ہو گی کہ واہ وا، بہت خوب، کیا بات ہے آپ کی، بہت اچھا ایڈیشن نکالا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ یہ نظم تو ایک ادبی ایڈیشن میں حوصلہ افزائی کے زمرہ میں بھی نہیں ڈالی جا سکتی۔

سوال یہ نہیں کہ لکھنے والے یا والی نے کیا لکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے شائع کر کے ادبی ایڈیشن کے انچارج نے نئے لکھنے والوں کے لیے بھی اور قارئین کے لیے بھی کیا معیار قائم کیا ہے؟ یہ نئے لکھاری اور اخبار کے قاری ہر دو کے ساتھ زیادتی اور ادبی بددیانتی کے مترادف ہے۔ اس طرح لکھنے والے کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے اور قارئین کے ادبی ذوق کا گراف بتدریج نیچے کی طرف رواں رہے گا۔ اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا مل کر ادب کے معکوسی اور سطحی انداز کی ترویج کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادب میں تنقیدی نقطہ ء نظر اور اختلاف یا اتفاق رائے کی جگہ منافقانہ قسم کی ادبی مفاہمت اور مٹھاس بھری جھوٹی سماجیات نے لے لی ہے۔ سیاست کی طرح ادب اور ادبی صحافت میں بھی \”چونا مارکہ\” کٹھی میٹھی گولیوں کا چلن عام ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments