توجہ ہر عورت کو اچھی لگتی ہے


\"drwa\"ڈرامے کے ڈائیلاگ \”توجہ ہر عورت کو اچھی لگتی ہے\” میں مجھے بہت حد تک حقیقت نظر آئی، بحثیت عورت میں نے بھی اپنے اندر اس چیز کو کئی بار محسوس کیا۔ عورت کو ہمیشہ سے توجہ کا مرکز بننا اچھا لگتا ہے، یہ عورت کی فطرتی کمزوری سمجھ لیں، یا اس کے نفس کا لالچ لیکن وہ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل میں بھی داد وصول کرنا چاہتی ہے یا منتظر رہتی ہے حوصلہ افزائی کی ۔ اس چھوٹی سی تمنا کو وہ اپنے دل میں لئے کئی طرح کے جتن کرتی نظر آتی ہے۔ کبھی من پسند کھانے بنا کر تو کبھی زیب تن خوبصورت لباس پہن کر تو کبھی اپنی دماغی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے۔ ہر صورت حال میں وہ اپنی ذات کو محور بنا کے اپنے اردگرد کے کرداروں سے بس توجہ ہی تو مانگ رہی ہوتی ہے۔

لیکن عورت اس توجہ کے معاملے میں ہمیشہ سے بڑی جلد باز رہتی ہے، اسکو حوصلہ افزائی، داد کی وصولی فورا چاہیے ہوتی ہے اور چاہیے بھی تصدیق شدہ شائشتہ الفاط کی ادائیگی کی صورت میں ۔تبھی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا پہ عورتیں اپنی تصاویریں مردوں کے مقابلے میں زیادہ پوسٹ کرتی ہیں، جہاں انھیں اپنی چھوٹی سی سیلفی کاوش کاصلہ چند سکینڈز میں لائیکس اور حوصلہ افزاہ کمنٹس کی صورت میں مل جاتا ہے، اور یہی اس کے ذہنی عصاب کو سکون دیتا ہے۔

عصر حاضر کے تقاضوں میں اچھی گفتگو، پختہ سوچ ، بھلی شکل و صورت، ویل ڈریس اور کرئیر اورینٹڈ ہونا بھی ضروری سمجھا جاتا ہےآج کی عورت کے لیے۔۔۔ جیسے جیسے انسان ماڈرن ازم کی طرف آئے، عورتوں کی خوبیوں اور صلاحیتوں کے معیار بھی بدلتے چلےگئے۔ اب روٹی چولہا ،اچھا گھر سبنھالا اوربچے پال لینا کوئی خاص معیار نہیں رہا جبکہ ہر کام کا متبادل رول وجود میں آچکا ہے میڈ، کلینر، کوک، خانساماں کی صورت میں۔ یہ ہماری ماوں کا زمانہ تھا جب دن بھر روٹی چولہا کر کے ایک دات کی منتظر ہوتی تھیں کہ آج کھانے میں نمک بالکل پرفیکٹ پڑا ۔

آج کی عورت کو کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے، اور اکثر عورتیں یہ کام صرف توجہ کے حصول کے لیے نہیں کر رہی ہوتیں، بلکہ وہ اپنی تمام تر کوشش اور جدوجہد کے بعد دات کی وصولی کی منتظر ضرور ہوتیں ہیں اوراپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔

لیکن کچھ عورتوں کے لیے یہ توجہ لاحاصل تمنا بن جاتی ہے۔ پھر اس تمنا کو پا لینے کے لیے وہ اپنے اندر کچھ ایسا تلاش کرتی ہے ، جو فوراً سب کی توجہ کا مرکز بن جائے اور اسی ضمن میں وہ عورت اپنے اندر کئی صلاحتیں ڈھونڈتی ہے ۔ فطری، ذہنی، جسمانی اور جذباتی۔ ایسی عورتوں کی جلد باز فطرت بغیر ذہنی و دماغی محنت کے کچھ شارٹ کٹ راستے تلاش کرتی ہے۔اور ایسے میں اس کے پاس اپنی سب سے قیمتی دولت اپنا جسم ہی ایسا محور ہوتا ہے جس کی سر عام نیلامی کرتی ہے۔ اس ضمن میں خاص کر مغرب کی عورت کا ایک سرسری سا جائزہ لیا جائے تو اس معاشرے میں اب کوئی ایسی چیز نہیں رہی جو عورت نہ کر سکے مرد کے مقابلے میں ۔ مرد و عورت کی کام کرنے کی صلاحتیں تقریبا ایک جیسی ہو چکی ہیں، کوئی خاص فرق نہیں رہا سوائے جنسی خدوخال کے۔ ایسے میں عورت اسی فرق کو زیادہ نمایاں کرنے کے درپے ہے جو اسے مختلف بناتا ہے مردوں سے۔ تبھی آج مغرب کی عورت لباس کومختصر سے مختصر کرکے توجہ کا مرکز بنتی نظر آتی ہیں۔ اور مرد عورت کے جسم ہی سے تو سب سے زیادہ راغب ہوتے ہیں اسکی طرف۔ مرد کی فطرت ہے کہ وہ عورت کو اس کے ظاہری حسن کی وجہ سے پسند کرتا ہے دوسرے الفاظ میں مرد کی جنسی خواہش عورت کے ظاہری خدو حال اور جسمانی خوبصورتی دیکھ کر ہی پروان چڑھتی ہے۔بے شک ہر مرد کا معیار الگ الگ ہے لیکن بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال کیم کردیشان ہے، جس نے اپنے علم یا دماغی صلاحیت سے اپنا آپ نہیں منوایا بلکہ اپنی جسمانی خدوخال کو مختلف سانچوں میں ڈھال کے وہ ہر اخبار و میگزین کی آئے روز زینت بنی رہتی ہے۔

یہ ہے مغرب معاشرے کے وہ ڈارک شیڈز جن کی تقلید کی تلقین ہمیں کی جاتی ہوتی ہے نام و نہاد آزاد معاشرے کا نام دے کے جس میں عورت کسی قید کے بغیر آزاد زندگی بسر کر رہی ہے۔ جب معاشرے کے اصول فطرت سے ہٹ کے انسان کے ایجاد کردہ معیار پہ رکھے جائے تو فراق کے کئی راستے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ حرص، بھڑاس ، خود غرضی اور مفاد پرستی کی جنگ نے مغربی معاشرے کا سارا توازن ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ ایک توجہ حاصل کرنے کا سدا کا حریص بن کے رہ گیا تو دوسرا جنسی خواہشات کا بے لگام گھوڑا بنے ہر وقت ہانپتا پھرتا ہے۔ دونوں بغیر نکیل کے نام نہاد آزاد معاشرے میں کیسی آزاد بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ خواہشات و خیالات پہ مبنی آزاد زندگی۔ بغیر کسی قیدو بند کے دو آزادجنس اپنے اپنے مفاد میں گامزن ۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments