جنگلی جانوروں سے کیا دشمنی ہے ہماری؟


\"Tanveerمیں ا س سوچ میں غلطاں ہوں کہ آخر ہمیں جانوروں سے خدا واسطے کا بیر کیوں ہے؟ ہمارا بچپن آوارہ کتوں کو پتھر مارتے گزرا، کوئی بزرگ کبھی ڈانٹ دیتا کہ کیوں اللہ کی مخلوق کو مارتے ہو، مگر بزرگ خو د بھی تو اسی ظالم کلچر سے اٹھا ہے، بکرا، مرغا ، دنبے اور گائے کی تو خیر ہے ، وہ ہمارے لاڈلے ہیں کیونکہ بقول مشتاق یوسفی صاحب کے، مسلمان عملیت پسند ہوتے ہیں اور کسی ایسے جانور سے پیار نہیں کرتے جسے وہ کاٹ کر نہ کھا سکیں مگر یار کتے، گیدڑ، لومڑی ، ریچھ اور بندر نے کیا بگاڑا کہ پوری قوم لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑی رہتی ہے، گدھے پر بوجھ ڈال ڈال کر ظلم کی داستانیں رقم کر دیں ہم نے۔

آج فیس بک پر جنگلی حیات یا وائلڈ لائف سے متعلق دو پوسٹیں دیکھ کر دل شدید اداس ہوگیا، ایک تصویر میں ایک احمق سورما بلوچستان میں پائے جانے والے انتہائی نایاب اور مبینہ طور پر آخری بچ جانے والے چیتے کی لاش کو کندھے پر اٹھائے فخریہ فوٹو کھنچوارہا ہے، دوسری تصویر میں سندھ کے کسی درد مند دوست نے اپیل کی ہے کہ لوگ ہنی بیجر نامی جانور کو پراسرار مم سمجھ کر ماردیتے ہیں، یہ ایک انتہائی بے ضرر جانور ہے، اسے نہ ماریں۔ اس سے پہلے ہم اخباروں میں پڑھتے رہے ہیں کہ جب بھی دیہات میں کوئی اجنبی جنگلی جانور نظر آیا، عوام کی قاتل رگ پھڑک اٹھی اور انہوں نے اس جانور کو چشم زدن میں ہلاک کردیا۔

مری و گلیات میں پایا جانے والا سفید برف کے گولے جیسا برفانی چیتا بھی اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے، دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ چیتا ان کی بکریاں مار دیتا ہے، لہٰذا وہ چیتے کو مارنے میں حق بجانب ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسانوں نے جنگلی جانوروں کے مسکن پر قبضہ جمالیا ہے، جنگلی جانور تو جنگلوں میں ہم سے بھی پہلے سے تھے، اب انسانی بستیوں کے پھیلنے سے انکے مسکن اور ٹھکانے ختم ہوگئے \"cheeta\"ہیں لہذا وہ غذا کی تلاش میں انسانی بستیوں میں آ جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ انسانوں اور جنگلی جانوروں کا یہ سنگھرش (مجھے یہ ہندی لفظ استعمال کرنے دیں) جاری ہے اور ظاہر ہے انسان نے تو ہارنا سیکھا ہی نہیں، اس کے پاس تو جدید لیزر بندوقیں، دوربینیں، حتیٰ کہ راڈار تک ہیں، جنگلی جاوروں کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔کینیا اور افریقی کے ببر شیر، ہاتھی اور دیگر جانور، بھارت کے ٹائیگر ، بنگال کے ٹائیگر، پاکستان کے ہرن اور تلور، گھڑیال، سائبیریا کے شیر، قطب شمالی کے برفانی ریچھ، چین کے پانڈے، اور دنیا بھر کے گینڈے، پرندے، حتیٰ کہ شہد کی مکھیاں تک تیزی سے ناپید ہوتے جارھے ہیں، وجہ ؛ آلودگی، انسانی آبادیوں کا پھیلاؤ، جانوروں کی کمین گاہوں کا ختم ہونا شامل ہیں۔

 سینکروں ہزاروں سال پہلے انسان غذا یا جان بچانے کے لیے جانوروں کا شکار کرتا تھا، مگر جدید دور میں غذا کے لئے شکار تو افریقہ اور جنوبی امریکہ کے برساتی جنگلات کے محض چند جنگلی قبائل تک محدود ہوگا، جنگلی جانوروں کے شکار کا دوسرا سبب انسانی آبادیوں ، کھیتوں یا مویشیوں کا تحفظ بھی ہے، یہ سب تو پتا ہے مگر میرا دل شکار کیے ہوئے جانوروں کے لیے خون کے آنسو روتا ہے، اب یا تو شکار جانوروں سے حاصل ہونے والی قیمتی اشیاءمثلا شیر کی چربی، ہاتھی دانت، مگرمچھ اور سانپ کی کھال، گینڈے کے سینگ کے لئے بڑی تعداد میں کیا جاتا ہے یا پھر محض کسی جنونی، خونی شوق، خودنمائی اور دولت اور خاندانی ثروت کے اظہار کے لئے کیا جاتا ہے، شکار کی یہ وجوہا ت میرے نزدیک ناقابل معافی ہیں، شیروں کو مردانہ طاقت کی ادویات کے حصول کے لئے ختم کیا جارہا ہے، کیونکہ جاہلوں کو خیال ہے کہ شیر جیسی جنسی طاقت شیر کی چربی، پنجوں اور گوشت سے حاصل ہوسکتی ہے، ابے احمقوں اگر تم نے نیشنل جیوگرافک دیکھا ہوتا تو پتا ہوتا، کہ شیر کو جنسی عمل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ہمارے ہاں چڑوں، تیتروں، مرغابیوں، تلوروں (جس کے عربی برادران جنم جنم کے دشمن ہیں) کی محض اس لئے شامت آئی ہوئی ہے کہ ان کے گوشت میں جاہلوں کے خیال میں قدرت نے ویاگرا وافر مقدار میں ملائی ہوئی ہو

 \"sindh-honey-badger\"ویسے تو ہمارے معاشرے میں جہاں بم دھماکوں کے ساتھ انسانی جسموں کے پرخچے اڑ نا ایک عام سی بات ہے، جہاں لوگ اپنی بہن بیٹیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالتے ہوں اور بازار میں سینہ پھلا کر مونچھوں پر تاؤ دیتے پھرتے ہوں، جہاں لوگ موبائل کی خاطر جان لیتے اور دیتے ہوں، وہاں میں یہ کیا بکواس لے کر بیٹھ گیا، جانوروں پر رحم کرنے کی ، مگر دوستو جانوروں کی بھی جان ہے یار، ان کی بھی فیملی ہے، ان کا بھی جینے کا حق ہے، ان کے بچے بھی اپنے مما پپا کا انتظار کرتے ہونگے۔ میں نے سنا کہ عمر کوٹ کے ایک وڈیرے نے اپنے بیٹے کی شادی میں سو سے زیادہ جنگلی ہرنوں کی دعوت کی، دل تڑپ کر رہ گیا، اور محکمہ جنگلی حیات کی تو نہ پوچھو بھائیو، یہ تو بس بگلا بھگت بنا رہتا اور کبوتر کی طرح آنکھ بند کئے رہتا، یہ واحد محکمہ ہے جو سب سے زیادہ آنکھیں بند رکھنے کی تنخواہیں لیتا، شکار کے پرمٹ جاری کرتا، یار پہلے ہی جنگلی جانور اپنے خاتمے کی کگار (ایک اور ہندی شبد) پر پہنچ گئے ہیں اور تم عیاش وڈیروں، خانوں، ملکوں، شیخوں اور انگریزوں کو سینکڑوں سال پرانے بوسیدہ قوانین کی بنیاد پر شکار کے پرمٹ دیتے ہو ، پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی نمائندو! جنگلی جانوروں کو تحفط دو، ان کے مسکن محفوظ کرو، جنگلات کو بچاؤ، شکاریوں کی حوصلہ شکنی کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments