بیوی کا بدلہ


دیویا کے لیے میدان بالکل خالی تھا۔ بس دوسری جانب سے بنسی لال کے بھولپن اور سادگی کا شکارتھی۔ اب وقت بے وقت دیویا بنسی لال کو فون کرتی۔ بنسی لال کا دھیان بھی بستی کے بچوں سے ہٹنے لگا۔ چھٹی والے دن دیویا بنسی لال کو شاپنگ کے لیے جانے کے بہانے بلالیتی اور پورا پورا دن دونوں شہر کے پارکوں شاپنگ مالز اور فاسٹ فوڈ کے پوائنٹس پر گزاردیتے۔ بنسی لال کے کپڑے جوتے رہن سہن بھی تبدیل ہونے لگا۔ دیویا اپنے لیے کچھ خریدتی یا نہ خریدتی بنسی لال کے لیے شاپنگ ضرور کرتی۔

اب بنسی لال بھی مکمل طور پر دیویا سے بے تکلف ہونے لگا تھا۔ وہ بھی کبھی کبھار دیویا کو مس کال کرنے لگا۔ ادھر بنسی لال کی مس کال جاتی ادھر دیویا کا فون آجاتا اور پھر لمبی لمبی باتیں شروع ہوجاتیں۔ کہتے ہیں نہ کہ ”آگ کے پاس پاس رکھا ہو تو ابلے بے شک نہ گرم ضرور ہوجاتاہے“ دیویا کی آنکھوں میں حرص کے دہکتے انگاروں نے بنسی لال کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔ بنسی لال رات دیر تک گھر سے باہر رہنے لگا۔ بات بات پہ مکھی سے لڑائی جھگڑا رہنے لگا۔

مکھی کے اندر کی عورت نے بنسی لال کے حالات کو سمجھنا شروع کردیا۔ جب کبھی بنسی لال گھر ہوتا اور دیویا کا فون آتا تو بنسی لال اٹھ کر گھر سے باہر نکل جاتا کتنی بار ایسا ہوا کہ سامنے کھانا رکھا ہوتا اور دیویا کا فون آجاتا تو بنسی لال روٹی چھوڑکر باہر نکل جاتا اور کئی کئی گھنٹے واپس نہ آتا طرح طرح کے وہم مکھی کو پریشان رکھنے لگے۔ ہر رات بنسی لال کے مضبوط بازوؤں میں جھولنے والی مکھی اب بنسی لال کے بدن کے لمس کوترستے ہوئے سو جاتی۔

آج بھی جب دوپہر کے وقت دیویا کا فون آیا تو بنسی لال سامنے پڑی روٹیوں کی چنگیر ہٹا کر باہر نکل گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد واپس آیا تو مکھی غصے سے لال پیلی ہوئی بیٹھی تھی۔ بنسی لال کو دیکھتے ہی چلاکر بولی یہ کس ماں کا فون سننے باہر چلے جاتے ہوتمھیں گھر کی بچوں کی میری یہاں تک کہ کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہا آخر تم کرتے کیا ہو۔ مکھی کے منہ سے ماں کا لفظ سنتے ہی بنسی لال نے زور دارتھپڑ مکھی کے منہ پر مارا اور انتہائی غلیظ گالی دے کر بولا ہاں یہ میڈم کا فون تھا بول کیا کرلے گی۔ اپنی اوقات میں رہے گی تو اچھی رہے گی ورنہ دھکے مار مار کے گھر سے نکال دوں گا۔

مکھی نے میڈم کانام سن کر کہا وہ تیری میڈم ہے کہ رکھیل ہے۔ تیرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تجھے شرم آنی چاہیے۔ اس کا مطلب جب تو راتوں کو گھر نہیں آتا تو اسی چڑیل کے پاس ہوتا ہے؟ بنسی لال نے کہا ہاں ہوتا ہوں کیا کرلے گی۔ مکھی نے کہا دیکھ بنسی اگر میں نے کچھ کیا تو پچھتائے گا۔ بنسی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ارے جاجا پچھتائے۔ جا اکھاڑلے جو اکھاڑ سکتی ہے۔

میں تو اسی طرح میڈم سے ملوں گا اس کے فون سنوں گا رات کو بلائے گی تو رات کو بھی جاؤں گا۔ تو نے جو کرنا ہے کر لے۔ یہ سب بول کر بنسی تو باہر نکل گیا مگر مکھی کے کانوں میں دیر تک بنسی کے الفاط گونجتے رہے۔ مکھی بھی کوئی فیصلہ کرچکی تھی۔ اور وہ فیصلہ تھا بنسی لال سے بے عزتی کا بدلہ لینا۔ ادھر موہن کی قید کی سزا ختم ہونے کو تھی جس کا دیویا کو یاد بھی نہ تھا۔ وہ تو دن رات بنسی لال کے چوڑے سینے پہ کھیلنے میں مصروف تھی۔

آ ج دیویا نے بنسی لال کے لیے دودھ میں بادام، پستے، اخروٹ، کاجو، گوند قطیرہ ڈال کر گندم کا دلیہ بنایا۔ دیویا کے بچے سکول جاچکے تھے۔ کام والی ناشتہ وغیرہ بناکر فارغ ہوکر جاچکی تھی۔ دیویا اپنے ہاتھوں سے بنسی لال کو دلیہ کھلارہی تھی۔ دیویا نے بنسی لال کے منہ میں دلیے کا چمچ ڈالتے ہوئے کہا بنسی جی آج سکول جانے کا من نہیں۔ کیوں نہ چھٹی کرلیں۔ بنسی نے دیویا کا ہاتھ پکڑ کا کہا جی کر لیتے ہیں۔ دیویا تو جیسے پہلے ہی کسی اشارے کی منتظر تھی۔

باقی کا دلیہ پھر صوفے اور بیٖڈ پہ ہی گرا۔ دیویا کھلے اور گیلے بال سکھاتے ہوئے ملک شیک مگ میں ڈال رہی تھی جب بنسی لال باتھ روم سے نہاکر نکلا اور سیدھا کچن میں دیویا کے پیچھے جا کردیویا کی کمر پہ دونوں ہاتھ رکھ کراس کے بالوں کو دانتوں سے نوچنے لگا۔ دیویا نے کہا اب کیا ارادہ ہے میرے بنسی کا۔ بنسی نے دیویا کے کان کی لو پہ دانت کاٹتے ہوئے کہا، چل دیویا میڈم اگنی کے پھیرے بھی لے ہی لیں۔ دیویا نے پلٹ کر بنسی لال کے گال پہ بوسہ دیا اورملک شیک کا مگ بنسی کے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا کاہے کی جلدی ہے مہاراج۔ پھیرے بھی لے لیں گے۔ پہلے مکھی سے تو جان چھڑواؤ۔

اس سے پہلے کہ بنسی کچھ بولتا گیٹ پر بیل ہوئی۔ دیویا نے حیران ہوکر کہا اس وقت کون ہوسکتا ہے۔ کام والی تو ابھی گئی ہے۔ دودھ والابھی شام پانچ بجے آتاہے۔ پھر یہ۔ ابھی بات ادھوری ہی تھی کہ دوبارہ بیل ہوئی۔ دیویا نے بنسی سے کہا کوئی گڑبڑہے۔ تم الماری کے ساتھ لگ کر چھپ جاؤمیں دیکھتی ہوں جب تک میں نہ بلاؤں بولنا بھی نہیں اور باہر بھی مت آنا۔ موہن چار سال بعد اچانک رہا ہوکر گھر آگیا۔

موہن کی چھ ماہ قید باقی تھی جو جیل کے دورے پر آئے ملک کے صدر نے معاف کردی تھی۔ دیویا کے کھلے گیلے بال بیڈ پہ گرا دلیا ملک شیک کا آدھا مگ سہمی سہمی دیویا موہن کے شک میں مبتلاہونے کے لیے کافی تھے۔ موہن نے دیویا سے حال احوال پوچھنے کی بجائے عجیب سوال کر دیا۔ کون آیا تھا یہاں۔ موہن کا شک یقین میں اس وقت بدلاجب اس نے بیڈ کی سلوٹوں والی چادر پر مردانہ بنیان پڑی دیکھی۔ موہن نے دیویا کو بالوں سے پکڑ لیا اور کھینچتا ہوا کبھی ایک کمرے میں لے جاتا تو کبھی دوسرے کمرے میں اور ایک ہی سوال کرتا بتا کہاں ہے تیرا یار کون تھا۔ کہاں چھپایا ہے۔

طیش میں آئے موہن نے کچن سے چھری بھی اٹھا لی اور دیویا کی گردن پہ رکھ دی۔ بنسی لال الماری کے پیچھے چھپا سب سن رہا تھا جب اس نے موہن کو یہ کہتے سنا کہ اس چھری سے تیرا گلا کاٹوں گا اگر نہیں بتائے گی تو یہ کہہ کر موہن نے چھری کو دیویا کی گردن پہ زور سے رگڑنا شروع کر دیا۔ جب بنسی نے دیویا کی فلک شگاف دھاڑیں سنی تو اس نے وہاں سے بھاگ جانا ہی غنیمت جانا اور نظر چرا کر بھاگنے کے لیے نکلا تو موہن نے اسے دیکھ لیا جب اس کا شک یقین میں بدل گیا تو اس نے طیش میں آکر ہاتھ میں پکڑی چھری کے پے درپے وار کر کے دیویا کے پیٹ میں یکے بعد دیگرے چار چھید کر دیے۔

بنسی کو بھی پکڑنے کے لیے بھاگا تو سہی مگر وہ دوڑکر گلی کی نکڑ مڑ چکا تھا۔ سہما ہوا پسینے سے شرابور بنسی جب اپنے گھر کے دروازے میں پہنچا تو پانڈو رام سبزی والا اور بنسی کی بیوی مکھی باںچھیں کھینچ کھینچ کر ہنستے بڑے مطمئن اور اورپسینے سے سے بھیگے ہوئے گارے مٹی کی کی دیواروں والے کچے کوٹھے کے ٹوٹے پھوٹے لکڑی کے دروازے سے باہر نکل رہے تھے کیوں کہ انھیں یقین تھاکہ بنسی دیویا کے ساتھ منہ کالا کر رہا ہوگا ویسے بھی یہ بنسی لال کے گھر آنے کا وقت نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2