برطانیہ کے بادشاہ نے اپنے کزن زار روس کو کیسے دھوکہ دیا


زار نکولس اور کنگ جارج

خیر اِس دوران دو تین ہفتے گُزر گئے اور نکولس یہ سمجھتا رہا کہ ابھی تک وزیرِاعظم لائیوڈ جارج باقاعدہ اسائلم کا حُکم جاری نہیں کرسکے لیکن ایسا نہیں تھا کیونکہ 6 اپریل 1917 کو ونڈسر کاسل سے ایک شاہی خط فارن سیکریٹری آرتھر بالفور کو بھیجا گیا کہ رُوس کے بادشاہ کا یہاں آنا عوام میں بے چینی اور نفرت کو بڑھاوا دے گا۔ دُوسرا خط بھی اُسی دِن روانہ کیا گیا جِس میں بادشاہ نے عندیہ دیا کہ وُہ پہلے دی گئی اسائلم کی اجازت کو عوام کی ناراضگی کو مدِنظر رکھتے ہُوئے واپس لے لینا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کیونکہ کنگ جارج کو یہ صاف نظر آرہا تھا کہ اگر زار یہاں انگلینڈ آتے ہیں تو اُن کی اپنی بادشاہت شدید خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ بہرحال فارن سیکریٹری نے وزیرِ اعظم برطانیہ سے ڈسکس کیا اور اِس طرح وزیرِ اعظم اور کابینہ نے اسائلم کی اجازت واپس لینے کا فیصلہ کِیا۔

رُوس میں زار اپنے کزن کے اِس فیصلے سے بے خبر تھا اور برطانیہ روانگی کی تیاریوں میں تھا۔ چھ ماہ بعد ہی رُوس پر اقتدار پر بولشویک پارٹی کا قبضہ ہوگیا۔ اب زار اور اُس کی فیملی کو یکاٹیرن برگ میں ایک گھر میں مُنتقل کیا گیا۔ جہاں جلد ہی آدھی رات کو تہہ خانے میں نکولس اپنی بیوی اور پانچ بچوں سمیت وہاں قتل کر دیے گئے جبکہ لینن کی حکومت یہ جُھوٹ پھیلاتی رہی کہ صرف نکولس کو مارا گیا ہے جبکہ اُس کی فیملی کو برطانیہ بھیج دیا گیا ہے۔

بہرحال اِن تمام واقعات کے بعد بالاخر کنگ جارج نے زار کی بہن زینیا اور اُس کے بیٹے پرنس آندرے کو انگلینڈ آنے کی اجازت دے دی۔ (برطانوی جنگی جہاز نے اُس کو اور اُس کے بیٹے پرنس آندرے کو وہاں سے نکالا تھا ) پرنس آندرے، پرنسز اولگا کے والد تھے، پرنسز اولگا ابھی زِندہ ہیں اور لندن کے علاقے کینٹ میں رہتی ہیں۔ وُہ کہتی ہیں کہ زار نکولس ہمیشہ برطانوی وزیراعظم کو قُصوروار سمجھتے رہے کہ اُس نے اسائلم کی اجازت نہیں دِی تھی لیکن اصل میں تو یہ جارج پنجم کا آئیڈیا تھا۔ پرنس اولگا مزید کہتی ہیں کہ چلو اچھا ہُوا زار یہ جاننے سے پہلے گُزر گئے ورنہ اُن کو بُہت زیادہ دُکھ ہوتا، بہرحال جارج کے سنگدلانہ انکار نے اپریل 1917 میں بین الاقوامی بادشاہت کے کلب کا خاتمہ کردیا۔

لارڈ سٹیمفورڈھم نے کنگ جارج اور کوئین میری کو عوام میں گُھلنے مِلنے کا مشورہ دِیا کیونکہ پہلی جنگِ عظیم میں جب لندن کے شہریوں کا بالخصوص اور انگلینڈ کے شہریوں کا بالعموم رویہ شاہی خاندان سے ناراض ناراض سا تھا اور مُمکن تھا کہ یہ ناراضگی بغاوت تک چلی جاتی تو ایسے حالات میں شاہی خاندان کا اِس طرح لوگوں میں گھلنے ملنے سے بڑا اچھا اور مثبت اثر ہوسکتا تھا۔ 1917 کے بہار کے موسم میں پرنس اوو ویلز اور مستقبل کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم بھی اگلے مورچوں پر اپنی افواج کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے اور وُہ اپنے لوگوں میں کافی زیادہ پسند بھی کیے جاتے تھے۔ دُوسرا بیٹا پرنس برٹی بھی نیوی میں خدمات سرانجام دے رہا تھا پرنس برٹی موجودہ ملکہ الیزیبتھ دوئم کے والد تھے۔ پرنس برٹی تھوڑا ہکلاتا تھا اور اُسے نی نوکنگ کا مسئلہ بھی تھا۔

بہرحال ابھی برطانوی شاہی خاندان کو اپنے لئے ایک نئے نام کی تلاش تھی اور بادشاہ کے پرائیویٹ سیکریٹری لارڈ سٹیمفورڈھم سوچ سوچ کر تھک چُکے تھے۔ جو نام ابھی چل رہا تھا یعنی سیکس کوبرگ گوتھا / گوٹا، یہ نام ملکہ وکٹوریہ کے جرمن شوہر پرنس البرٹ نے رکھا تھا اور اب اِس نام کے ساتھ مزید چلنا نامُمکن تھا۔ کئی نام سوچے گئے جیسے کہ Tudor، Stuart، Fitzroy وغیرہ لیکن سب کے سب نام اچھا تاثر نہیں دے رہے۔ لارڈ سٹیمفورڈھم اِس ضمن میں کافی پریشان تھا۔ 13 جون 1917 کو کو جرمن طیاروں نے لندن پر پھر بمباری کی اور اُسی دِن ونڈسر کاسل کی کھڑکی میں کھڑے کھڑے اُسے یہ نام ذہن میں آیا۔

! The Royal House of Windsor

اب یہ برطانوی شاہی خاندان کا نیا نام تھا اور اب برطانوی بادشاہت اِس نام کے ساتھ آگے چلنی تھی۔ یہ نام انگریزی تھا اور اِس سے اجنبیت کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ کنگ جارج نے اپنے پرائیویٹ سیکریٹری کا اِس نام والے مسئلے کو حل کرنے پر بُہت شُکریہ بھی ادا کیا اور تعریفی خط بھی لکھا۔

11 نومبر 1918 میں پہلی جنگِ عظیم ختم ہوگئی۔ اِس جنگ میں دس لاکھ کے قریب برطانوی افراد مارے گئے تھے۔ یورپ میں نو کے قریب بادشاہ اپنے تخت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جِن میں کنگ جارج کے جرمن اور رشین کزنز بھی شامل تھے۔ لیکن لندن میں بادشاہ اور شاہی خاندان کو اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔ پرنس برٹی اور الیزبتھ کی شادی ویسٹ منسٹر ایبی میں 26 اپریل 1923 میں ہُوئی تھی جبکہ اکتالیس سالہ کنگ ایڈورڈ ہشتم جو اپنے والد جارج پنجم کی وفات کے بعد بادشاہ بنے وُہ ابھی تک غیر شادی شُدہ تھے۔

1934 میں ایک امریکن خاتون والس سمپسن جو دو بار طلاق یافتہ تھی اُس کے ساتھ کنگ ایڈورڈ کا افیئر چلا لیکن اُس وقت کے حساب سے بادشاہ ایک مطلقہ عورت سے شادی نہیں کرسکتا تھا تو بادشاہ نے ولیس سمپسن کی خاطر 10 دسمبر 1936 کو اپنی مرضی سے تاجِ برطانیہ چھوڑ دیا۔ اِس وجہ سے اب پرنس برٹی کو برطانیہ کا نیا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ برٹی نے اپنے والد کے نام کی مُناسبت سے اپنا ٹائٹل جارج ششم رکھا۔ موجودہ ملکہ الیزیبتھ دوئم جارج ششم کی ہی بیٹی ہیں جو 2 جون 1953 کو ملکہ برطانیہ بنیں اور ابھی تک ہیں۔ ملکہ برطانیہ کامن ویلتھ ممالک کی بھی ملکہ ہیں اور اُن کی عِزت پُوری دُنیا میں کی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2