یہ امت اشتہارات میں کھو گئی


\"abdul

امتحانات اور کچھ ذاتی مصروفیات کے باعث ’ہم سب‘ کے لئے لکھے عرصہ ہو گیا۔ کل ایک ایسا مضمون نظر سے گزرا کہ مجبورہو کر قلم اٹھانا پڑا۔ انعم احسن صاحبہ نے ’انارکلی میں لباس نہیں، جسم کی تشہیر‘ کے عنوان سے ایک دھواں دار تحریر لکھی۔ زمانہ ء طالب علمی میں تقریری مقابلوں میں شرکت کا موقعہ ملتا رہا، یقین کیجیے کہ زیر نظر تحریر نے وہ سنہری دور یا د کروا دیا۔ فاضل مصنفہ نے ماہر مقررین کی طرح حال ہی میں انارکلی میں بنائے جانے والے ایک اشتہار اور اس کے بعد معاشرے میں اقدار کی دگرگوں حالت پر خامہ فرسائی کی۔

سب سے پہلے تو اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ ’مغربی لباس‘ کیا ہوتا ہے؟ ضمنی سوال ہے کہ ’مشرقی لباس‘ کیا ہوتا ہے؟ اور لباس کی مشرقیت یا مغربیت کا تعین منبر و محراب کی جانب سے ہو گا یا خواتین کے رسائل کی جانب سے؟ مغرب سے مصنفہ کی کیا مراد ہے؟ جغرافیائی طور پر پاکستان کے مغرب میں افغانستان اور ایران واقع ہیں، ان سے پرے ترکی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک موجود ہیں۔ مشرق میں بھارت اور اس سے پرے بنگلہ دیش، میانمار/برما اور پھر تھائی لینڈ واقع ہے۔ میری ناقص عقل کے مطابق مصنفہ (اور دائیں بازو کے لکھاریوں) کے نزدیک ’مغرب‘ دراصل ایک نظریاتی تخلیق ہے جسے’اخلاقیات‘ کی چھڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور زمانے بھر کی برائیاں اس ’مغرب‘ نامی علاقے پر تھوپ دی جاتی ہیں۔ لباس کا بنیادی مقصد موسم سے تحفظ کے لئے جسم کو ڈھانپنا ہے۔ کسی ریاست یا ادارے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لباس کی ایک مخصوص تعریف لوگوں پر نافذ کرے (جیسے حال ہی میں فرانس کے چند شہروں اور داعش نے کیا)۔پدر سری نظام کے پیروکار اکثر مذاق کرتے ہیں کہ عورت کی سب سے بڑی دشمن اصل میں عورت ہی ہے۔  اس بات میں کچھ وزن تو بہر حال موجود ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کی ذہنیت کو بچپن ہی سے ایسے ڈھالا جاتا ہے کہ وہ Stockholm Syndromeکا شکار ہو جاتی ہیں۔Stockholm سویڈن کا دارالحکومت ہے اور سنہ 1973 ء میں ایک بینک ڈاکے کے دوران بینک میں محصور  کچھ مغوی افراد، ڈاکووں کی حمایت کرنا شروع ہو گئے تھے۔

\"anarkali-ad\"

قیاس ہے کہ اشتہار میں موجود لڑکیوں کے ’ٹھمکوں‘ پر تبصرہ کرنے سے قبل فاضل مصنفہ نے رقص کی مبادیات یا مقصد سمجھنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ رقص محض فحاشی و عریانی یا جسم کی نمائش کا نام نہیں۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ تو ہمارے معاشرے میں فنون لطیفہ کو صرف لطیفے کی حیثیت دینا ور اسے فالتو کام سمجھنا ہے۔اگر نوجوانوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں ملے گا اور موسیقی یا رقص پر مسلسل قدغن لگائی جائے گی تو کوئی اس گھٹن زدہ معاشرے میں رہنا کیوں پسند کرے گا؟  اسی طرح میری ناقص رائے میں (Do Your Own Thing)کا ترجمہ ’اپنی مرضی کرو‘ نہیں بلکہ ’اپنے آپ کو ممتاز کرو‘ ہونا چاہئے(تجربہ کار مترجمین، جن میں خاکسار کا شمار نہیں ہوتا، سیاق وسباق کو کامیاب ترجمے کی پہلی شرط قرار دیتے ہیں)۔مادیت پرستی یا Consumerism دراصل سرمایہ داری نظام کا ایک اہم جزو ہے اور اس پر تنقید بجا ہے۔ حقوق نسواں کی تحریک کو کاروبار کے لئے استعمال کرنا(جیسے پچاس کی دہائی میں سگریٹ بنانے والے اداروں نے کیا) بھی قابل مذمت ہے۔

یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ مغرب کے خاندانی نظام کی تباہی کا نوحہ لاہور میں کیوں پڑھا جا رہا ہے؟ ہماری اقدار نے ایسا کون سا نوبل پرائز جیت لیا ہے کہ ہم ان کے بقا کو معاشرے کی بقا سے خلط ملط کیے بیٹھے ہیں۔ پدر سری معاشرے میں عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جانا او ر ’غیرت’کی آڑ میں اس کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنا ہی اگر ہماری ’اقدار‘ ہے تو ایسا معاشرہ آپ کو مبارک ہو۔ چادر اور چار دیواری میں مقید عورت اگر Public Spaces  میں آنا چاہتی ہے تو اس میں ایسی کیا برائی ہے؟  آپ کو انار کلی میں سرعام رقص پسند نہیں تو آپ وہ ویڈیو نہ دیکھیں۔ فحاشی اور عریانی مبہم تصورات ہیں اور لکھنے /کہنے والے کے ذہن میں دبی خواہشات اور محرومیوں کا مظہر ہونے کے سوا ان کی کوئی حیثیت نہیں۔’لاہور کے غیور عوام‘ نے کچھ ماہ قبل انار کلی میں اس ویڈیو کو بنتے دیکھا اور ان کو اس وقت اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ بعدازاں یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر بیٹھے نام نہاد ’پڑھے لکھوں‘ کے ہتھے چڑھ گئی اور آج ان لڑکیوں کو موت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ پاکستان کی پڑھی لکھی مڈل کلاس اپنے تخلیق کردہ ایک دائرے میں بند ہے جہاں ’سب اچھا ہے‘ اور معاشرے کے کسی بھی بدنما پہلو پر تنقید انہیں سخت ناگوار گزرتی ہے۔ ایسے گھرانوں میں لڑکوں کی مائیں گول روٹیاں پکانے والی ڈاکٹر بہوویں ڈھونڈتی ہیں جنہیں شادی کے بعد کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔

فاضل مصنفہ کے مطابق: ’آزادی نے مغرب میں عورت کو اعلیٰ مقام دینے کی بجائے اسے زمانے کی گرد میں ذلیل و خوار کیا‘۔اگر انسان نے ساری عمر نوائے وقت،نسیم حجازی اور ہم ٹی وی کے سوا کچھ نہ دیکھا ہو تو اس طرح کی سوچ پیدا ہونا کوئی حادثہ نہیں۔ لکھتی ہیں:’پاکستانی عورت کو پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے۔عورت کسی بھی گھر کی ہو،ہر پاکستانی اسے اپنی عزت سمجھتا ہے(اور سات سال سے لے کر ساٹھ سال کے مرد اس پر آوازے کس کر اور گھور کر عزت دیتے ہیں)اور اس کا تحفظ اپنا اولین فرض جان کر کرتا ہے(اس استدلال کا جواب قندیل بلوچ یا سمیعہ شاہد دے سکتی تھیں، لیکن ان کی عدم موجودگی میں مختاراں مائی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے)۔

\"anar\"

 فاضل مصنفہ کے خیال میں آزادی کے تصورکے باعث ’عورت اپنی قدر کھو رہی ہے‘ اور ’عورت نے معاشرے میں اپنا مقام کھو دیا ہے‘۔ عورت کی آزادی سلب کرنا صدیوں سے قبائلی معاشروں کا نصب العین رہا ہے اور اسی طرح ہمارے معاشرے میں قدامت پرستوں کو سب سے زیادہ چبھن عورت کو ملنے والی معاشی آزادی سے ہے۔ اس لئے عزت، غیرت اور فحاشی جیسی اصلاحات گھڑی گئی ہیں جن کا مقصد عورت کو کھونٹے سے باندھ کر رکھنا ہے۔ اگر عورت تعلیم یافتہ ہو گی تو معاشی خود مختاری کی جانب بڑھے گی اور اس صورت میں خدا ناخواستہ ا پنی آئندہ زندگی کے لئے ساتھی بھی اپنی مرضی کا پسند کرے گی (یا ممکن ہے کہ شادی سے ہی باغی ہو جائے)۔ اس طرح تو ہمارا کھوکھلا خاندانی نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گا لہٰذا بہتر ہے کہ عورت کو ’پرائے گھر کے مال‘ کی طرح رکھا جائے او رپہلی ہی فرصت میں رخصت کر دیا

 جائے۔عورت کا کام بچے پیدا کرنا اور گھر گرداری کرنا ہے، اسے باہر کے کاموں میں شامل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔انعم احسن سے پہلے مفکر وقت اوریا مقبول جان نے ایک اشتہار کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کیا تھا کہ لڑکیاں کرکٹ کے ذریعے فحاشی پھیلا رہی ہیں۔ علامہ اقبال حیات ہوتے تو پکار اٹھتے: یہ امت اشتہارات میں کھو گئی!

 

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments