آزادی صرف جنسی نہیں ہوتی۔ ۔ ۔


\"Rashidمعاشرتی آزادی سے اکثر یہ مراد لی جاتی ہے کہ لوگ جنسی اعمال کی انجام دہی میں جس طرح چاہیں اپنی مرضی کریں۔ مغرب کی سماجی آزادی پہ اگر تنقید ہوتی ہے تو اس میں بھی صرف ایک ہی پہلو کو لتاڑا جاتا ہے۔ ان کی تمام تر سماجی کامیابیوں کو دو لحاظ سے پیٹا جاتا ہے کہ اول تو وہ انتہائی بے حیا واقع ہوئے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہاں مسلمان حکمران نہیں یا غالب اکثریت میں نہیں ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے آج ہم ان کی بیشتر سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر برائیاں اتنی ہیں کہ شمار نہیں۔ یہ کمپیوٹر جو میرے اور آپ کے رابطے کا زریعہ ہے علاوہ ازیں اس نے انسانی یاداشت اور زہنی تخلیق کے کام کو کس حد تک سہل بنا دیا ہے۔ پیغام رسانی کو نا قابل یقین حد تک آسان بنا کر لوگوں کی مشکلات کو تقریبا ختم کر دیا ہے۔ ۔ ۔ آج ہماری چٹھی کو سمندر پار جانے کے لئے کسی اور واسطے کی ضرورت نہیں، ہم دوسرے سرے پہ موجود اپنے متعلقین کو دیکھ سکتے ہیں، انہیں سن سکتے ہیں ان کی خیریت کو ان کی زبانی جان سکتے ہیں۔ انسانی آزادی صرف جنسی جبلت کی رسی چھڑانے کا نام نہیں مگر ایک بات ضرور ہے کہ یہ \”ناک کی نکیل\” کو بلاوجہ کسی کا زیور بنا دینے پہ بھی اتفاق نہیں کرتی، یہ ناحق کسی عورت کو اس کے جائز حق سے محروم نہیں کرتی، آزادی کا مطلب بے پردگی نہیں ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہین کہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے یا کسی مرد کے وار سے محفوظ رہنے کے لئے ایسے لباس کا اہتمام کرنا پڑے کہ جو بنیادی طور پہ اپنے آپ کو چھپانے کے مترادف ہو تو پھر ہماری تہزیب کو عصر حاضر میں دنیا کے لئے مثال نہیں بنایا جا سکتا ۔ سماجی آزادی کو بہتر سمجھنے کے لئے ہمیں شخصی آزادی کی اس بنیاد کو سمجھنا پڑیگا کہ جو کسی فرد کی مرضی یا اسکی خواہش کو معاشرتی جبری اقدار کی بھینٹ چڑھانے کے خلاف ٹھوس جواز مہیا کرتی ہے۔ اگر معاشرتی آزادی کو افراد کا حق تصور کیا جائے تو اس کے بدلے میں افراد اپنی سماجی ذمہ داریوں کو بخوشی اختیار کریں گے وہ ہر اس قدم سے اجتناب کریں گے کہ جسکی معاشرتی قواعد اجازت نہیں دیتے جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ایسے اقدامات سے لوگوں کے احساسات یا ان کی فکری نظریات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پھر خود کو صحیح سمجھنا اور اپنے نظریات کو باقی لوگوں پہ مسلط کرنا انتہائی غیر مہزب تصور کیا جاتا ہے۔ گویا یہ ریوڑ کی طرح ہانکے جانے سے مختلف کوئی رویہ ہے جسے لوگوں نے اگر قبول کیا تو وہ صدیوں کی \”بے زنجیر\” غلامی سے نجات حاصل کر لیں گے۔

اب زمینی خداؤں نے مذہب جیسے انسانی ضابطے کو بھی بطور ہتھیار استعمال کر کے لوگوں کی بنیادی آزادیوں اور ان سے متعلق آگہی کوبہت سی ممنوعات سے جوڑ دیا جو کہ دراصل وقتی اختراعات ہیں اور وہ سختیاں متعارف کرا دیں جو در حقیقت خدا و رسولﷺ کو مقصود و مطلوب نہیں۔ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات اسی لئے کہا ہے کہ انسان کی افضلیت یہی ہے کہ وہ صاحب اختیار ہےاور نفس کو اپنا ماتحت بنا سکتا ہے۔

لہذا مغربی آزادی کو صرف بے حیائی یا خراب معاشرت کی دلیل بنا کے پیش کرنے سے ہماری سماجی اصلاح ممکن نہیں ہے یا ہمارے دم توڑتے مغربی تنقیدی فلسفے میں نئی روح ڈالنا بہت کٹھن ہے اور اگر زبردستی کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہے تب بھی وقت کا اپنا قانون ہے اسکا اپنا چلن ہے گھڑی کی سوئی الٹی نہیں چلتیں چاہے ہمیں زامنے کی ہر ہر حرکت سے بیزاری اور جھنجھلاہٹ ہو۔ ترقی یافتہ دنیا نے طرز معاشرت کے اندر لچک بنائے رکھی ہے اور پھر اس سے ان کی روشن راہیں ہموار ہوتی رہی ہیں۔ ہم اپنی اقدار کو غیر متغیر انداز سے رکھنے پہ بضد ہیں یہ ہمارے متیعین افکار جن پہ نظر ثانی کو ممنوع بنانے کا سلسلہ جاری ہے یقینا اس کے صرف نقصانات ہی ہم جھیل سکتے ہیں لیکن آگے کی طرف سفر تصور کرنا ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو ہم اپنی زات کو یا اپنے ارد گرد افراد کو دیتے آئے ہیں۔

مذہبی تشریحات کو ہم نے اپنے گروہی مفادات کے حصول کے لئے پیش کیا اور پھر اس کے درست یا غلط ہونے کے دلائل ہر فرد اپنی موزونیت کے اعتبار سے دیتا چلا آیا ہے-بہت سارے ایسے احکامات جن کا مذہب سے کیساتھ انتہائی نازک تعلق ہے ان موضوعات کی بحث سے ہم سب بچ کے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایسے مسائل پہ اختلافات کو سامنے لایا جاتا ہے جنہیں نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔ بہت سارے مذہبی اعمال کیساتھ ہماری عقلی وابستگی نہیں ہے لیکن ان کی انجام دہی کو صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کیونکہ اکثریت کیے جا رہی ہے اور روایتی یا تاریخی اعتبار سے ایسا ہوتا آیا ہے۔ ایسا کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں مگر چاہیے یہ کہ ہم تمام سرگرمیوں کا از سر نو جائزہ لیں اور انسانوں کی اجتماعی حیثیت سے انکار کرنے والے معاملات سے گریز کریں۔

رسول خداﷺ چچا زاد بھائی اور پہلے اسلام قبول کرنے والی ہستی جنہیں رسول خداﷺ نے علم و حکمت کا زریعہ قرار دیا حضرت علی المرتضی کا ایک قول نظر سے گزرا کہ \”جو عبادت انسانی اخلاق اور کردار کو متاثر نہ کرے وہ عبادت نہیں مشقت تصور کی جانی چاہیے\”۔ یہ معیار ہے ایک مسلمان کی عبادات کا ۔ ۔ ایسا کیونکر ممکن ہے کہ وہ عبادات کی بجا آوری میں پیش پیش ہو اور بے حیائی کی تقریر میں اپنی زات کو پاکیزگی کے اعلی مقام پہ رکھے اور باقی سب پہ انگلی دراز کرے اب اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مسجد کو بنانے اور آباد کرنے میں اور ان کی تزئین و آرائش کرنے میں ہم نے شاید ہی کوئی کمی چھوڑ رکھی ہو مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہماری زات میں وہ کون سی نمایاں تبدیلیاں آ رہی ہیں،، ہمارا اخلاق محض اپنے معاشی مفادات کے لئے بہتر بنتا ہے۔ ہم اس سے سروکار نہیں رکھتے کہ ہماری اچھائی سے اچھائی کرنے کا رواج فرغ پائے گا اس سے اکثریت کی زندگی بہتر ہو گی۔ بہتر انسانی بستی کا نظام رائج ہو گا جو جذبات کی بجائے ، عقل سے رہ نمائی لیگا۔ انسان دوسرے انسان کو مرد یا عورت کی نشانیوں کے علاوہ پہچانے گا۔

اسلام میں عورت کا تصور صرف جنسیت کا نہیں رہا ہے بلکہ ایک انسان کے طور پہ انسانی سماج کی بناوٹ میں عورت کا اہم کردار رہا ہے۔ آزادی کا مطلب مغربی معیار سے ہی ثابت کرنا ضروری نہیں ہے اور نہ اس سے مراد یہ ہے کہ عورت کا لباس ویسا ہو کہ جس طرح وہاں کی خواتین زیب تن کرتی ہیں تو آزادی کے ثمرات تب ہی لئے جا سکتے ہیں۔ مغرب کی عورت ہو سکتا ہے جنسی درندگی اور جنسی لحاظ سے ہراساں کرنے کے ویسے تجربات سے کم گزرتی ہو جتنی جنسی گھٹن ہمارے ہاں ہے۔ کیونکہ گھٹن سے چھٹکارا پانے کے لئے آزادی کی جو راہ تخلیق ہوتی ہے اس میں جارحیت شامل ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ رجعتی انداز سے اپنی زیرکفالت خواتین کی زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں انکے نتائج عموما بھیانک ہوتے ہیں اس طرح کم عمر میں ہی لڑکیاں اور لڑکے سکول یا کالج کی زندگی میں ہی ایسے انتخابات کر لیتے ہیں جنہیں آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا اور اس سے نا حق تلفی ہوتی ہے اور یا بغاوت جنم لیتی ہے۔ عورت اور مرد کو انسانی سانچے میں خدا نے ڈھالا ہے، جو صلاحیتیں انہیں عطا کی گئی ہیں ان مین کوئی تخصیص نہیں کی جا سکتی ہے ، زہنی استعداد میں بھی دونوں میں تفریق بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اگر کچھ فرق دکھائی دیتا ہے تو وہ عہد رفتہ کے حوالے ہیں جن سے ہم نے مطلب نکال کے خط تقسیم کھینچ دیا، ہمارے زہن مین جنسی معتبری صرف مرد کو حاصل ہے ۔ جنسیت پہ بحث اور اس مو ضوع کو شجر ممنوعہ سمجھنے سے نہ یہ زندگی سے خارج ہو سکتا ہے اور نہ اس بنیاد پہ عورت کو مسلسل تاریکی میں رکھا جا سکتا ہے، ہم اقدار کے احترام میں قومی لباس کو جواز بنا سکتے ہیں، مگر ایسا لباس کہ جس سے عورت خود کو چھپا سکے اگر یہی رائے ہے تو ایک پٹی ہمیں \”مرد\” کی آنکھ کے لئے بھی چاہیے ہو گی۔ مغرب کی آزادی نے اگر بے حیائی کو فروغ دیا ہے تو زرا تھہریئے یہ فیصلہ انہیں کرنے دیجیے۔ ۔ ہمیں پہلے خود کو دیکھنا ہے اور سنبھلنا ہے۔ دنیا کو ملامت کرنے اور برا بھلا کہنے سے اگر ہمیں فرصت مل جائے تو زرا اک نگاہ اپنے لئے بھی درکار ہے کہ سب لوازمات کے باوجود ہماری عورتیں اور ہمارے کم سن بچے اور بچیاں کیوں محفوظ نہیں ہیں، اس سب کو دیکھنے کے لئے اپنی خود پسندی والے چشمے کو اتار کر دیکھنا ہو گا کہ آخر منظر میں کیا دھندلاہٹ ہے جو ہمیں دیکھنے نہیں دیتی یا پھر ہم اس خود پسندی کی عینک کے علاوہ کچھ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ مانیے کہ معاشرتی آزادی صرف جنسی نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments