نائن الیون کا المیہ کیا ہے؟


\"????????????????????????????????????\"

سنہ 2001 تھا اور ستمبر کی گیارہ تاریخ۔ پاکستان میں سہ پہر کے قریب امریکہ میں ایک بڑی تخریب کاری کی خبر آئی۔ تفصیل آنا شروع ہوئی، نجی ٹیلی ویژن اپنی بالکل ابتدائی صورت میں تھا۔ جہازی حجم کے سیٹلائٹ رسیور کی مدد سے کچھ غیرملکی چینل دستیاب تھے۔ نیویارک میں ٹوئن ٹاور سے ٹکراتا دوسرا جہاز دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے براہ راست مشاہدہ کیا۔ ایک طیارہ امریکہ کی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر پینٹاگون سے ٹکرایا۔۔یو اے 93 البتہ راستے ہی میں مار گرایا گیا۔ سینکڑوں گیلن پٹرول کے جلتے گولوں میں تین ہزار کے قریب امریکی شہری ہلاک ہوئے۔ سو منزلہ عمارتیں ریت کے گھروندوں کی طرح منہدم ہو گئیں۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے اسے امریکہ کے خلاف جارحیت قرار دیا۔ امریکہ کی اپنی زمین پر کسی ایک کارروائی میں امریکیوں کی اتنی بڑی تعداد خانہ جنگی کے بعد سے ہلاک نہیں ہوئی تھی۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ سلامتی کونسل نے یکے بعد دیگرے قراردادوں کے ذریعے اس جنگ کی توثیق کی۔ دنیا کے چھ ارب انسان اکیسویں صدی کے سیاسی اور عسکری منظر میں داخل ہوچکے تھے۔ ہم پندرہ برس بعد بھی گیارہ ستمبر 2001 کی صبح امریکہ میں نمودار ہونے والی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسے مغرب اور مشرق میں لڑائی کا نام دیا جاتا ہے۔ اسے اسلام اور دوسرے مذاہب میں تصادم کا عنوان دیا جاتا ہے۔ اسے ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر اقوام میں کشمکش کا حاشیہ دیا جاتا ہے۔ اسے جمہوریت اور غیر جمہوری سیاسی بند و بست میں جنگ کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ اسے ایک عالمی طاقت کے مقابلے میں میں ابھرنے والی دوسری بڑی طاقتوں میں رسہ کشی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نائن الیون ایک الجھا ہوا سوال ہے۔ پیچیدہ سیاسی اور تاریخی مفروضات کے تناظر میں یہ پاکستان کے لئے اہم ترین سوال ہے۔ گیارہ ستمبر کے 19 دہشت گردوں میں ایک بھی پاکستانی شہری نہیں تھا۔ اس دہشت گردی کا نامزد سرغنہ تب افغانستان میں مقیم تھا۔ پاکستان اس تصویر میں کیسے شامل ہوا۔ عالمی تنہائی کے جنگل میں ہمارے لئے کونسے راستے کھلے ہیں؟

دہشت گردی کے سوال کو سمجھنے کے لئے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد کا منظر سمجھنا ضروری ہے۔ گزشتہ صدی کے وسط میں نو آبادیاتی نظام کا انہدام ہونا شروع ہوا۔ 1947 میں ہندوستان کی آزادی سے شروع ہونے والا یہ مرحلہ ستر کی دہائی کے آخر تک مکمل ہوا۔ ساٹھ سے زائد ریاستوں کی آزادی اس اصول پر حاصل کی گئی کہ انسان اپنی زمین پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں۔ اپنے وسائل کے استعمال پر استحقاق رکھتے ہیں۔ یہ قومی ریاستوں کے نمونے پر تشکیل پانے والی دنیا کا تکمیلی مرحلہ تھا۔ نوآزاد ممالک میں بدھ مت، ہندو مت اور اسلام کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد علمی اور معاشی طور پر پسماندہ تھی۔ سیاسی آزادی ملنے کے بعد ایک آدھ استثنیٰ کے ساتھ ان تمام ممالک میں قومی قیادت اپنے عہد کے سیاسی، علمی اور معاشی سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہی۔ حق خود ارادیت اور جمہوری مساوات کے اصولوں پر آزادی کا مطالبہ کرنے والے اپنے ممالک میں جمہوری اصولوں سے روگردانی کے مرتکب ہوئے۔ غیر ملکی حکمرانی کو پسماندگی کا جواز ٹھہرانے والوں نے مراعات یافتہ طبقے کی بالادستی کے لئے عوام کی پسماندگی کو یقینی بنایا۔ ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں درجنوں ممالک مستحکم سیاسی بندوبست اور منصفانہ معاشی نظام قائم کرنے مین ناکام ہوئے۔ قومی آزادی کی تحریکوں کی یہ ناکامی جدید انسانی تاریخ کا بہت بڑا المیہ تھی۔

عالمی جنگ کے فوراً بعد اشتراکیت اور سرمایہ داری میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ نصف صدی تک دنیا امید کے دھاگے سے لٹکتی رہی۔ ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں فیصلہ کن جنگ ممکن نہیں تھی اور دونوں عالمی طاقتیں غریب مملک میں غیرعلانیہ جنگوں کے ذریعے ایک دوسرے کو زیر کرنا چاہتی تھیں۔ کوریا، ویت نام، مشرق وسطیٰ اور افغانستان مین لڑائیاں سرد جنگ کا کرشمہ تھیں۔ سیاسی نعرے اور تھے، پس پردہ معاشی مفادات اور تھے۔ سفارتی پینترے اور تھے۔ عسکری قوتوں اور خفیہ اداروں نے عوام کے حق حکمرانی پر بالا دستی حاصل کر رکھی تھی۔ اشتراکی دنیا معاشی انصاف، استحکام اور امن کی دہائی دیتی تھی۔ سرمایہ دار دنیا شہری آزادیوں، جمہوری شفافیت اور کھلی منڈی کا پرچم اٹھائے ہوئے تھی۔ روس بھی چھوٹی قوموں کا علمبردار تھا اور امریکہ بھی کمزور اقوام کو اشتراکیت کے دیوِ استبداد سے بچانے کا دعویٰ کرتا تھا۔ سرد جنگ میں اشتراکیت ہار گئی۔ سوشل ازم کی معیشت کھلی منڈی کا مقابلہ نہ کر سکی۔ اشتراکی دنیا کا تحکمانہ سیاسی بندوبست انسانوں کے جمہوری امکان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔علم کی دوڑ مغرب نے جیت لی۔ اس کامیابی کے بہت سے دعوے دار تھے جن میں مذہب اور عقیدے کی آزادی کے نام پر مذہبی اجارہ داری کی علمبردار قوتیں بھی شامل تھیں، ثقافتی تنوع کے نام پر قدیم معاشی مفادات کے رکھوالے بھی تھے اور قومی خودمختاری کے نام پر اپنے عوام سے کھلواڑ کرنے والے بھی۔ سرمایہ دار جمہوریت کی کامیابی نے سرمایہ دار بلاگ کے داخلی تضادات کو واضح کر دیا۔ سابقہ اشتراکی دنیا کے جغرافیائی اور معاشی مفادات بھی بدستور تصویر کا حصہ تھے۔ اس موقع پر سیموئل ہٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا تصور پیش کیا۔ یہ علمی موقف انسانوں کی بنیادی مساوات، بھائی چارے، تنوع اور تکثیریت کی بجائے اختلاف، تصادم اور کشمکش پر مبنی تھا۔ امرتیا سین جیسے مفکرین نے اس نظریہ کی مخالفت کرتے ہوئے بار بار یاد دلایا کہ گزشتہ صدیوں میں انسانی جدوجہد کے علمی اور سیاسی مفروضات تصادم کی بجائے تعاون اور اونچ نیچ کی بجائے مساوات کا تقاضا کرتے تھے۔ جنگل کے قانون کی جگہ تمدن کا مکالمہ نافذ کرنا ہے تو جنگل کی معیشت کو تبدیل کرنا ہو گا۔ جمہوریت کے دائرے میں یہ ممکنہ کشمکش معاشی اور علمی طور پر پچھڑے ہوئے طبقات کی لڑائی تھی۔ جمہوریت سیاسی آزادیوں اور معاشی انصاف میں توازن کے اس سوال سے عہدہ برا نہیں ہو سکی۔

بعد از سرد جنگ دنیا میں تین چیلنج سامنے آئے، مذہب کے نام پر عسکریت پسندی، کثیر قطبی دنیا کے نام پر نئے معاشی مفادات کی صف بندی اور سلامتی کی آڑ میں انسانی حقوق سے انکار۔ نئی دنیا میں ماضی کا بایاں بازو ایک احیا پسند تحریک ہے۔ تاریخی مادیت کے مطابق ہم عصر علم اور معیشت سے شکست کھانے والے نظام کا احیا ممکن نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں بایاں بازو اس حقیقت کو سمجھنے کی بجائے پرانی انہدامی نفسیات کے ساتھ نئی دنیا کی صف بندی میں سیاسی شناخت چاہتا ہے۔ دوسری طرف ہم عصر سیاست اور معیشت کی بنیاد مذہبی شناخت پر نہیں رکھی جا سکتی۔ مذہبی سیاست کئی صدی قبل علم کے میدان میں شکست کھا چکی۔ عقیدے کی آزادی انسانوں کا محترم انفرادی حق ہے۔ تاہم جمہوری بندوبست میں مذہبی شناخت حلقہ انتخاب نہیں ہوتی۔ مذہب کے نام پر سیاست جائز نصب العین نہیں۔ تیسرا نکتہ یہ کہ بیسویں صدی میں انسانی حقوق کی جدوجہد کے بنیادی زاویے اشتراکی جبر اور سرمایہ دارانہ اجارے سے ٹکراتے ہیں۔ اقتدار اور اختیار کو انسانی حقوق کی آواز کبھی پسند نہیں رہی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ریاستوں کی قوت نافذہ کے بل پر نہیں لڑی جاسکتی، یہ جمہوریت، معاشی انصاف اور انسانی حقوق کے لئے لڑائی ہے۔ اسلام یا کسی اور مذہب سے نفرت اس کشمکش کا حل نہیں۔ امریکہ، بھارت، ترکی اور دوسرے ممالک میں قومی مفاد کے نام پر تفریق کی لکیریں کھینچنے والی اکیسویں صدی کی لڑائی نہیں جیت سکتے۔ علم اور معیشت کے پیش آمدہ امکانات کو تسلیم کرنا جدیدیت ہے۔ جدیدیت سے مخاصمت محض ایک سیاسی نعرہ ہے اور یہ نعرہ انتشار پیدا کر سکتا ہے، ترقی اور استحکام کا راستہ اس لڑائی سے نہیں نکل سکتا۔ دہشت گردی اکیسویں صدی کا المیہ ہے اور اس کشاکش میں انسان کی جیت علم، مساوات اور آزادی کے اصولوں ہی پر حاصل کی جا سکتی ہے۔
بشکریہ روز نامہ جنگ

https://jang.com.pk/print/174415-wajahat-masood-column-2016-09-10-nine-eleven-ka-almia-kiya-hay

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments