قربانی کے کاروبار کا خام مال اور فیملی پلاننگ


\"saleemقربانی کتنی اچھی چیز ہے چاہے وہ بچوں کی ہو یا بکروں کی، ہم تو اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم قربانیوں کا جشن منانا سیکھ گئے ہیں۔ ہمارے بچوں کی جانوں کی قربانی کا موسم جو چار دہائیوں پہلے اس وقت کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جناب جنرل ضیاالحق صاحب نے شروع کیا تھا اس سے شہید ہونے والے بچے کو جنت ملتی تھی اور ان کے والدین کو جنت کی بشارت اور شہید کے والدین ہونے کا فخر۔ والدین کو بچے کے مرنے کا کوئی دکھ وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے ٹی وی، ریڈیو، اخبارات اور علمائے کرام ہمیں جو بتاتے تھے وہ کوئی جھوٹ تھوڑا ہی ہوتا تھا۔ کچھ شیطان صفت لوگ اس وقت بھی گمراہ کرتے تھے کہ ڈالر، ریال اور اپنی بادشاہت لمبی کرنے کے لئے غریبوں کے بچوں کو جنگ میں دھکیلا جا رہا تھا۔ شکر ہے کہ ان شیطانی آوازوں پر کوئی دھیان نہ دیا گیا۔

تو قربانی کا وہ سلسلہ جو چار دہائیاں پہلے شروع کیا گیا تھا بہت ہی پائیدار ثابت ہوا۔ جنرل ضیاالحق ایک بہت ہی انصاف پسند آدمی تھے اور غریبوں کا درد بھی دل میں رکھتے تھے۔ ویسے بھی ان کے اپنے بچے اور ان کے قریبی دوست، بڑے فوجی افسران اور اس وقت کے علمائے کرام، کے بچے تو چونکہ پڑھائی وغیرہ میں مصروف تھے اس لئے انہیں ڈسٹرب نہیں کیا گیا اور قربانی اور شہادت کے انعام و اکرام کے لئے ہمارے بچوں کو موقع دیا گیا۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ غریب لوگ چونکہ یہ عارضی زندگی بڑی تکلیف میں گزارتے ہیں اس لئے ان کے اگلے جہاں کے لئے یقینی جنت کا بندوبست کیا گیا۔

جنرل ضیاالحق چونکہ ایک سیانے آدمی تھے اس لئے انہوں نے قربانی کے کاروبار کی \”سپلائی چین\” کا بہت خیال رکھا۔ فیملی پلاننگ کا پورا محکمہ تقریباً بند کر دیا تاکہ خام مال کی سپلائی کبھی کم نہ پڑ جائے۔ اور پھر اس خام مال کو قربانی کے لئے تیار کرنے کی خاطر مدرسے اور جہادی تربیتی کیمپ قائم کئے۔ جنرل ضیاالحق صاحب ایک انصاف پسند آدمی تھے اور ان بچوں کو نہیں بھولے جو مدرسوں کی بجائے عام سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں۔ لہٰذا سکولوں کا نصاب ٹھیک کیا گیا اور عربی کے استاد متعارف کرائے گئے۔ یہ عربی کے استاد مدرسوں کے پڑھے ہوتے ہیں اور عام سکولوں میں مدرسوں والی سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ وہ عام سکولوں سے جہادی ہیرے تلاش کرتے ہیں اور انہیں تیار کر کے جہادی کیمپوں کو سپلائی کرتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق سوات کے بچوں نے کی۔ جہاد کے لئے بچوں کی ایک بھاری نفری تیار کی گئی تھی اور وہ ابھی استعمال نہیں ہوئی تھی کہ پاک فوج نے سوات پر حملہ کر کے جہادیوں کو بھگا دیا۔ ایسے سینکڑوں بچوں کو واپس نارمل زندگی میں لانے کی خاطر کچھ (De-radicalization) کیمپ قائم کئے گئے ان میں سے بہت سے بچوں نے بتایا کہ وہ اپنے عربی کے استاد سے متاثر ہو کر خود کش جیکٹ پہننے کے لئے تیار ہوئے تھے۔

تھوڑا واپس دوبارہ جاتے ہیں اور بات کا سلسلہ قربانی سے شروع کرتے ہیں۔ جب 9/11 ہو گیا اور امریکہ نے پلٹا مارا تو اس وقت روشن خیال حکمران جنرل پرویز مشرف صاحب کو بھی پاکستان اور اس کی ترقی کا درد کھائے جا رہا تھا۔ ملک کی ترقی کے لئے، ظاہر ہے، ڈالر اور جنرل مشرف صاحب کی بادشاہت دونوں ہی درکار تھے ورنہ ان سیاست دانوں نے تو لٹیا ہی ڈبو دینی تھی۔ لہٰذا مشرف صاحب کو بھی مجبوراً پلٹا تو مارنا پڑا۔ لیکن امریکیوں کو بے وقوف بناتے ہوئے پلٹا آدھا سا مارا۔ جس کا بڑا فائدہ ہوا۔ ڈالر بھی آتے رہے اور ہماری جہادی قوت جو کہ اب سٹریٹیجک ڈیپتھ بن چکی تھی وہ بھی قائم رہی۔ اس آدھے پلٹے نے ہمارے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ باقی لوگوں کے لئے بھی قربانی کے مواقع کئی گنا بڑھا دئے۔ ایک تو دو طرفہ قربانیاں ہونا شروع ہو گئیں۔ کچھ بچے جہاد پر جاتے اور ہماری فوج کے خلاف لڑتے ہوئے قربان ہوتے اور شہادت پاتے اور کچھ ہمارے فوجی جوان ان کو شہید کرتے ہوئے شہید ہو جاتے۔ مزید یہ کہ جو بچے قربانی کے لئے تیار تو ہو جاتے مگر کسی وجہ سے براہ راست پاک فوج کے خلاف لڑائی کے لئے میدان جنگ تک نہ پہنچ پاتے وہ یہیں کہیں بازار، مسجد، دفتر، سکول یا کسی بھی جگہ پر اپنے اپ کو پھاڑ دیتے اور اپنے ساتھ درجن بھر آدمیوں کو بھی اسی رتبے سے نواز دیتے۔

یہ بازاروں، دفتروں، عدالتوں اور سکولوں والی قربانی تو اتنی عام ہو گئی کہ ہم اس کو کچھ زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اب تو اگر ہمارے ہسپتال میں دھماکہ ہو اور سو کے لگ بھگ وکیل، ڈاکٹر اور محکمہ صحت کے دوسرے لوگ مر جائیں تو ہم انہیں خاطر میں ہی نہیں لاتے اور دھماکے کی اہمیت بڑھانے کے لئے ہم اپنے آپ کو سمجھاتے ہیں کہ یہ ہمارے سی پیک پر حملہ ہو گیا ہے۔ یا یہ بتاتے ہیں کہ کرپشن کے خلاف ہماری تحریک پر حملہ ہوا ہے۔ اس سوچ کے بعد ہی ہمیں کچھ افسوس وغیرہ ہوتا ہے۔ لیکن اتنا افسوس پھر بھی نہیں ہوتا کہ ہم اپنی قومی تقریبات سے عین دھماکے والی جگہ پر جا کر لطف اندوز نہ ہوسکیں۔

آج کل بچوں کی قربانی کے بزنس میں بظاہر تھوڑا سا مندا آیا ہوا ہے۔ البتہ ہر سال کی طرح عید قرباں کا جشن بھی بکروں اور دوسرے جانوروں کی قربانیوں سے منایا جا رہا ہے۔ کمال یہ ہے کہ ہر طرح کی قربانی کا فائدہ ہمارے مدرسوں کو ضرور ہوتا ہے۔ بکروں کی قربانی بھی تبھی قبول ہوتی ہے جب کھال مدرسے کو جائے۔ اب تو کھال کی بجائے مدرسے والے یہ سہولت مہیا کرتے ہیں کہ پورے بکرے کے پیسے ان کو بھیج دیں۔ وہ آپ کے نام پر جانور ذبح کر دیں گے اور آپ کو گھر بیٹھے بٹھائے ثواب مل جائے گا۔ آؤٹ سورسنگ (out sourcing) کا رواج جو پڑ گیا ہے۔

جو بھی ہو قربانی کا جشن اب بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہماری ہر سڑک اور گلی محلے میں مردہ جانوروں کے خون اور مختلف اعضا کے گلنے سڑنے کی بو پھیل نہیں جاتی۔ اسی جشن میں محلے کے شرافا اپنے بکروں کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہیں اور دوسروں پر اپنا رعب جما رہے ہیں۔

بکروں کی سپلائی کم ہوتی جا رہی ہے اس لئے قیمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ شکر ہے کہ بچوں کی قربانی کے سلسے میں خام مال کی کوئی کمی نہیں ہے۔ فیملی پلاننگ کی ممانعت ہی بچوں کی قربانی کے دھندے کے لئے پوری سپلائی چین کی ضمانت ہے۔

 

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments