باپ، بیٹا اور مایا کی محبت


”میں شادی کرنا چاہتا ہوں“
طویل تمہید کے بعد جب بنٹی تقریباً تنگ آ چکا تھا تب بالآخر احمد جمال کے منہ سے یہ جملہ نکلا۔ بنٹی حیران تھا کہ اس کے باپ کو کیا ہوا ہے، اس کا باپ احمد جمال خوش شکل تھا اور متناسب جسم کا مالک تھا۔ اس کی عمر تقریباً پینتالیس برس تھی مگر دیکھنے میں پینتیس کا لگتا تھا۔ چہرے پر گھنی کالی مونچھیں تھیں اور بال کنپٹیوں پر سفید ہو چکے تھے تاہم یہ برے نہیں لگتے تھے بلکہ وہ گریس فل دکھائی دیتا تھا۔

”دیکھو بیٹا! میں نے تمہاری ماما کے جانے کے بعد تمہاری خاطر ہی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیوں کہ اس وقت تم صرف چار سال کے تھے اور میں سمجھتا تھا کہ سوتیلی ماں کبھی ماں نہیں بن سکتی۔ میں نے اپنے بزنس کو بڑھایا، تمہیں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی۔ تمہاری ہر خواہش کو پورا کیا۔ تم ابھی کالج کے سٹوڈنٹ ہو مگر تمہارے پاس اپنی بی ایم ڈبلیو ہے حالاں کہ کرولا سے بھی کام چل سکتا تھا۔ تم چھٹیوں میں کبھی آسٹریلیا گھومنے جاتے ہو کبھی سوئٹزرلینڈ۔ بس ایک کمی رہ گئی۔ میں تمہاری ماما کو واپس نہیں لا سکتا۔ “ احمد جمال جیسے وضاحت کر رہا تھا۔

بنٹی کی حالت عجیب سی تھی۔ وہ بالکل خاموش تھا۔ اس نے جواب میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا شاید اسی لیے احمد جمال کو ایسا لگ رہا تھا کہ اس حوالے سے مزید بات کرنے کی ضرورت ہے۔

”بنٹی بیٹا! اب تم جوان ہو، سوتیلی ماں کا جبر برداشت کرنے والے چھوٹے بچے نہیں رہے۔ میں نے اب بھی ایسا سوچا نہیں تھا لیکن میں جب مایا سے ملا تو مجھے وہ اچھی لگنے لگی اور اب بات ایسی ہے کہ میں اسے کسی طور بھی کھونا نہیں چاہتا، ایک باپ اپنے بیٹے سے ایسی باتیں کرتا ہوا اچھا تو نہیں لگتا لیکن تم میرے بیٹے کے ساتھ ساتھ ایک دوست بھی تو ہو، یار بس اتنی سی بات ہے۔ میں نے کل اسے کھانے پر بلایا ہے، مجھے یقین ہے تم اس سے مل کر خوش ہو گے۔ “

بنٹی نے اس بار دھیرے سے سر ہلایا پھر ایک گہری سانس لے کر بولا، ”ٹھیک ہے ڈیڈ اس حوالے سے مزید کوئی بات تو ان سے ملنے کے بعد ہی ہو گی۔ آج کا کیا پلان ہے، میرے ذہن پر بہت بوجھ ہے۔ “

”آج تو کچھ خاص نہیں، گھر پر ہی ڈنر کرتے ہیں اور ساتھ وائن کا ایک ایک گلاس دماغ کو سکون دینے کے لیے۔ “

احمد جمال نے بنٹی کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہا۔ یہ بھی ایک سہولت تھی جو اس نے بنٹی کی خوشی کے لیے اسے مہیا کر رکھی تھی۔ وقتاً فوقتاً دونوں باپ بیٹا بئیر، وائن اور ووڈکا سے حظ اٹھا لیا کرتے تھے۔ بٹلر دروازے میں آیا تو احمد جمال سمجھ گیا کہ ڈنر ریڈی ہے۔ وہ دونوں ڈائننگ روم کی طرف چل دیے۔

احمد جمال کی ملاقات مایا سے چند مہینے پہلے ہی ہوئی تھی۔ اس ملاقات کا سبب ایک بزنس میٹنگ ہی بنی تھا۔ احمد جمال کو وہ پہلی نظر میں ہی بھا گئی تھی۔ اپنی بیوی کی وفات کے بعد وہ برسوں سے اکیلا تھا۔ اس دوران بہت سی خوبصورت لڑکیوں سے ملا تھا لیکن کسی نے اس کی توجہ ایسے اپنی طرف نہیں کھینچی تھی۔ مایا میں نہ جانے کیا کشش تھی وہ خود پر قابو نہیں رکھ پا رہا تھا۔ اس نے مایا سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مایا نے اپنی کمپنی سے استعفیٰ دے دیا اور احمد جمال کی کمپنی کو جوائن کر لیا۔ اب معاملہ اتنا آگے بڑھ چکا تھا کہ احمد جمال ہر صورت میں اسے گھر لانا چاہتا تھا۔

شام کو بنٹی گھر میں اکیلا تھا۔ وہ پینٹ شرٹ پہنے صوفے پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ابھی اس کے ڈیڈ اس عورت کو گھر لانے والے ہیں جس سے وہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ کیسی ہو گی وہ۔ اسے اپنی ماں کی یاد ستانے لگی وہ اپنے کمرے میں آ گیا اور البم نکال کر دیکھنے لگا۔ وہ اپنی ماں کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ اس کی ماں ایک خوبصورت خاتون تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

”ماما تم کیوں چلی گئیں، تمہیں پتا نہیں میں تمہاری یاد میں کتنا رویا ہوں، مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے، مجھے تنہائی سے بھی بہت ڈر لگتا ہے، کاش تم میرے پاس ہوتیں، مجھے اپنے آنچل میں چھپا لیتیں، آ جاؤ ناں، پلیز آ جاؤ۔ “ وہ خود کلامی کرتے کرتے رونے لگا۔ اس کے آنسو اس کے چہرے کو بھگوتے ہوئے البم پر گر رہے تھے۔ ایسے میں ڈور بیل بجی۔

اس نے جلدی سے آنسو پونچھے اور لاونج میں آ گیا۔ چند لمحوں بعد اس کے ڈیڈ اندر آ گئے۔ مایا ان کے ساتھ تھی۔ مایا کی عمر پینتیس چھتیس برس رہی ہو گی۔ بھرا بھرا سا جسم تھا، چہرے کے نقوش انتہائی دلکش تھے۔ رنگت گوری اور جلد اتنی شفاف تھی کہ کہیں پر کسی تل کا بھی نشان تک نہ تھا۔ اس نے شلوار قمیض پہنا تھا مگر دُپٹے سے بے نیاز تھی۔

”بیٹے یہ مایا ہے“ احمد جمال نے کہا۔ بنٹی سلام کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ مایا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا، ”کیسے ہو بیٹا؟ “

”جی میں ٹھیک ہوں“ بنٹی نے آہستہ سے کہا۔

”بیٹھو ناں“ احمد جمال نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ مایا گھر کا طائرانہ جائزہ لے رہی تھی۔ بنٹی بھی بیٹھ گیا۔ ”ہوں، میں بنٹی بیٹے کے ساتھ بیٹھوں گی۔ “ مایا نے خوشگوار لہجے میں کہا پھر اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی۔ چند منٹ رسمی باتیں ہوتی رہیں۔

”ابھی ڈنر میں تھوڑی دیر ہے۔ تم دونوں باتیں کرو، میں ایک چھوٹا سا کام نمٹا کے آتا ہوں۔ “
”اوہو اب کون سا کام ہے بیٹھو ناں“ مایا نے بھنویں اچکائیں۔

”پلیز! میں بس ابھی آیا۔ “
دراصل احمد جمال چاہتا تھا کہ بنٹی کھل کر مایا سے باتیں کر سکے۔ بنٹی سر جھکائے بیٹھا تھا۔ ”کیا ہوا بنٹی تم کچھ اداس لگ رہے ہو؟ “
”کچھ نہیں ماما کی یاد آ رہی تھی۔ “ بنٹی نے دھیرے سے کہا۔

مایا اس کے قریب ہو گئی پھر بڑے پیار سے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا۔ ”میری طرف دیکھو اور میری بات دھیان سے سنو۔ “ بنٹی کی آنکھوں میں پھر نمی اتر رہی تھی۔ احمد جمال اپنے حالات تفصیل سے بتا چکا تھا۔ مایا کو بنٹی سے بہت ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ بے چارہ برسوں سے ماں کے پیار کو ترستا رہا ہے۔ بنٹی کے آنسو دیکھ کر اس نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگی۔

”بنٹی اب تم کبھی خود کو اکیلا مت سمجھنا۔ میں تمہیں سگے بیٹے سے بھی زیادہ پیار دوں گی۔ “ بنٹی کو ایسا لگا جیسے اس کی ماں واپس آ گئی ہو وہ اس کے کندھے سے لگ کر رونے لگا۔ مایا نے اسے رونے دیا وہ اس کی کمر تھپکتی رہی اور بنٹی روتا رہا آخر کئی منٹ بعد مایا نے اس کے بالوں اور پیشانی کو چومتے ہوئے کہا۔ ”بس اب چپ ہو جاؤ، اب میں آ گئی ہوں، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ “

بنٹی کو جیسے قرار آ گیا تھا۔ اس کے بعد وہ باتیں کرنے لگے۔ جب احمد جمال واپس آیا تو بنٹی اور مایا ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور بڑے خوش نظر آ رہے تھے۔ وہ بھی خوش ہو گیا، اس کا مطلب تھا کہ بنٹی نے مایا کو قبول کر لیا ہے۔ بڑے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد بھی دیر تک محفل جمی رہی پھر مایا چلی گئی۔

اگلی صبح احمد جمال مایا سے ملا اوراس کی خوب تعریف کی۔ ”تم نے بنٹی کو کیسے منایا؟ “
”مشکل نہیں تھا، وہ ماں کی محبت سے محروم رہا ہے، تمہیں چاہیے کہ جلد از جلد مجھ سے شادی کر لو۔ “ مایا مسکرا اٹھی۔

”میں بنٹی کی وجہ سے پریشان تھا مگر اب کوئی پریشانی نہیں“ احمد جمال بھی مسکرا اٹھا۔
”خیر ابھی تو ایک ہی ملاقات ہوئی ہے، بنٹی تمہارے ساتھ گھل مل جائے تو شادی کریں گے تا کہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2