وہ بہت اچھی طوائف تھی


دنیا کا تو کام چلتا ہے۔ ابھی اپن لوگ ہندو کا خیال رکھیں، ہندو کا بھی نہیں اس کی پرانی پرانی بلڈنگوں کا خیال کریں۔ بزنس کریں، تو پارسی کا موافق۔ بابا پھر بزنس کاہے کو کرنا ہے۔ نقل اگر پارسی اور ہندو کی ہی کرنی ہے تو پھر پاکستان میں کیا کام ہے۔ بندہ پارسی ہو جاوے، ہندو ہو جاوے۔ انہی کا موافق کام کرے، انہی کی طرح زندگی گزارے تو پھر لائف میں تھرل کیا ہے؟

بڑی کوشش کی میں نے اپنے باپ کو سمجھانے کی مگر سمجھا نہیں بڈھا۔ بہت ایمان داری سے کام کرتے ہوئے بہت خاموشی سے ایمان داری کی موت مرگیا۔ مرنے کے ٹائم پہ تو بہت دکھ ہوا بعد میں یاد بھی بہت آئی۔ تھا تو آخر اپن کا باپ مگر اوپر والے کا بھی کیا نظام ہے، باپ ہمارا بنایا دماغ کسی اور کا بنا دیا۔ باپ ہمارا اور بات کسی اور کی سمجھتا تھا۔ اس کی بات اور میری بات میں بہت فرق تھا، اکھا فرق۔

اصل میں بات یہ ہے کہ ان کے مرنے سے پہلے اپن کا ایک لفڑا ہوگیا۔ ویسے تو زندگی پوری لفڑا ہے اور لفڑے سے ہی سارا کام چلتا ہے۔ اپن کو تو اس لفڑے سے فائدہ ہوا، اکھا فائدہ ایسا فائدہ تو کسی کا بھی نہیں ہوا ہوگا۔

ہوا یہ کہ مجھے حمید جی ولی جی والوں نے گھیرلیا۔ ایک بڑا سودا تھا۔ فوج کو بارود چاہیے تھا۔ بہت بڑا کنسائنمنٹ تھا۔ کروڑوں روپے کا۔ سویڈن میں کہیں پڑا ہوا تھا۔ باقی تو سب ٹھیک تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ بارود کسی وجہ سے خراب ہوگیا۔ پہلے تو ان لوگوں نے نائیجیریا والوں کو پیسے کھلا کر اسے بیچنے کی کوشش کی مگر ادھر کام نہیں بنا۔ سالے نائیجیریا والے ہم سے بھی زیادہ حرامی ہیں مگر اس وقت کچھ چکر ہوگیا تھا کہ چکر میں نہیں آئے اور بارود بکتے بکتے رہ گیا۔

بنگلہ دیش میں کام بن گیا مگر اتنا بڑا مال لینے کے لیے ان کے پاس جواز نہیں تھا۔ وزیر نے تو کیس بنا لیا مگر کام خراب ہوگیا۔ ان کا اتنا بڑا جھگڑا نہیں ہے نہ انڈیا سے نہ برما سے نہ نیپال سے۔ اتنا بارود کا کرتے کیا وہ لوگ۔ وہ سالے بنگالی بھی ہمارے موافق ہیں۔ آخر ہیں تو اپنے بھائی۔ بات بنتے بنتے بگڑ گئی، سودا خراب ہوگیا۔ رہ گیا پاکستان۔ پاکستان میں تو سب ہوجاتا ہے۔ سب ہو ہی گیا۔

اپنے وزیر صاحب کی بات صحیح تھی، پہلی بات تو یہ ہے کہ انڈیا سے جنگ تو ہونی نہیں ہے۔ اپن دونوں کے پاس ایٹم بم ہے اور اگراُدھر کے ہندوؤں نے لڑنا چاہا تو ہم ان کا کیا بگاڑسکتے ہیں؟ پہلے کون سی جنگ لڑے ہیں ہم لوگ۔ فوجی لڑے ہیں تھوڑے دن دونوں طرف کے۔ اپنے اپنے فوجی ٹینکوں جہازوں کی ٹیسٹنگ کی ہے پھر ٹھس ہوکر بیٹھ گئے دونوں طرف کے لوگ۔ جنگ لڑے بھی نہیں اور ہار بھی گئے۔ پھر ہار جائیں گے۔ فوجیوں کے تو مزے ہیں۔ اِدھر والوں کے بھی اُدھر والوں کے بھی۔ بارود خراب ہے تو کیا ہوا جنگ ہونی ہی نہیں ہے توخراب بارود بھی چلے گا۔ یہی سوچا تھا میں نے بھی۔ سالوں کے بعد خود ہی ضائع کردیں گے، بیچ میں جو آمدنی ہوتی ہے وہ تو ہو جائے۔

اس لفڑے میں سب نے کمایا۔ اب کسی کا نام لینے کا تو فائدہ ہے نہیں۔ مگر میرے خیال میں سب سے بڑا حصہ مجھے ہی ملا۔ اپن کا کام بھی مشکل تھا۔ کیسے کیسے ایمان دار لوگوں کوخریدنا تھا۔ ایمان دار کو تو کیا خریدوں گا۔ یہ تو ممکن نہیں تھا۔ وہ تو بکتے ہی نہیں۔ ان کی بات سامنے ہوتی ہے اور صاف ہوتی ہے۔ یہ جو دو نمبر کے ایمان دار ہیں ان کے ساتھ مسئلہ ہے اور مسئلہ نہیں مسیئل تھے جنہیں میں نے حل کیا۔

کیسے اپنے دن کالے کٹے اور راتوں کوجاگتا رہا۔ ہر ایک کی قیمت تھی، ہر ایک کی قیمت لگائی۔ کسی کے پیسے لندن بھجوائے۔ کسی کے لیے مکان خریدا، کسی کی بیٹی کے نام پہ پلاٹ لکھوائے۔ ایک تو جمعہ کی نماز کے بعد مسجد میں لفافے پہنچائے۔ اس کے بعد تو سب سے زیادہ ملنا ہی تھا مجھے، مل گیا مجھ کو۔ غلطی ہوگئی، بس جوش میں باپ کو بتا بھی دیا۔ شاید بڈھا انتظار میں تھا، ناراض ہوگیا۔ ناراض تو پہلے بھی ہوا تھا مگراس دفعہ کی ناراضگی بڑی تھی، بہت بڑی۔ کچھ بولا نہیں، خاموش ہوا اور ایسا خاموش کہ مر ہی گیا۔

ابھی اس لفڑے میں میرا کیا قصور۔ دنیا ایسے ہی چلتی ہے، ایسے ہی چلے گی۔ کون رکتا ہے کسی کے لیے۔ ابھی ون اسے سمجھاتا۔ لوگ کہتے ہیں اسے میرا غم کھا گیا۔ ابھی اس کا کوئی جواب ہے۔ اپن کا غم اپن کوکھاتا نہیں، ہمارے باپ کو کھا گیا۔ موت کا وقت آگیا تو مر گیا۔ ابھی اور زندہ رہتا تو اچھا تھا لیکن مرگیا۔ بہت یاد آتا ہے ابھی بھی کبھی کبھی۔ کیسا بھی تھا اپن کا باپ تو تھا۔ بڑے اچھے دن گزرے اس کے ساتھ، جب میں چھوٹا تھا۔ دن ویسے ہی رہتے تو اچھا ہوتا مگر دن بدل گئے۔ دوست بدل گئے۔ اپن بدل گئے پر باپ نہیں بدلا اپنا۔ یاد آتا ہے اسی وجہ سے کبھی کبھی۔

اس لفڑے کے بعد میں نے بنکاک میں یہ پارٹی کی تھی۔ ایک ایک کرکے سارے جمع ہورہے تھے۔ ہم تین کے علاوہ سب سرکاری تھے۔ سب کے این او سی بنے، سب کے ٹکٹ خریدے گئے اور سب بنکاک پہنچ گئے۔

فائیو اسٹار ہوٹل میں رہنے کا انتظام تھا اور ہر روز روزِ عید تھا اور ہر شب شبِ بارات۔ میں نے جو ہوٹل چنا تھا اس کا بھی جواب نہیں ہے۔ دریائے چادپائی یا کے کنارے نیا ہوٹل بنا ہے بینن سلا کے نام سے۔ ایسا ہوٹل میں نے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا ہے۔ ہر چیز الیکٹرونک۔ دروازے، کھڑکی کے پردے، ٹوائلٹ، ہر نظام ریموٹ سے چلتا ہے۔ مزہ کرا دیا تھا میں نے۔

بنکاک کا بھی کیا مزہ ہے۔ ایک رات ہم لوگوں نے ایک بڑی گاڑی پکڑی اور ہنٹنگ پہ نکلے۔ بگلم پو سے بھی آگے جہاں بنگلوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ان بنگلوں کے بڑے بڑے گیٹ کھلتے ہیں، گاڑیاں اندر جاتی ہیں۔ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس منیجر نما لوگ آپ کوخوش آمدید کہتے ہیں۔ خوب صورت دروازوں سے گزرتے ہوئے مختلف کمروں میں لے جایا جاتا ہے پھر آہستہ آہستہ کرکے کم از کم کپڑوں میں ملبوس کم عمر لڑکیاں چلی آتی ہیں۔ جسم اور جان کے ہر اشارے سے بلاتی ہیں کہ انہیں چن لیا جائے۔

کوئی آ کر گود میں بیٹھ جاتا ہے، کوئی گلے سے لگ جاتا ہے، کوئی بوسوں کی بھرمار کرتا ہے۔ اس رات تین بجے تک ہم لوگ تقریباً دس گھروں میں گئے۔ یہ بھی ایک طرح کا تھرل تھا اور جب رات ٹوٹنے والی تھی تو ہم سب نے ایک ایک لڑکی منتخب کرلی۔ چوبیس گھنٹوں کے لیے یہ لڑکیاں ضرور مہنگی ہوں گی مگر ہمیں زیادہ نہیں لگا تھا۔ کیوں کہ رقم کسی اور نے دی تھی۔ کسی سودے میں سے، کسی روڈ کی تعمیر کے اکاؤنٹ میں سے، کسی ہسپتال کی خریداری کے لیے دیے گئے رقم کے کمیشن میں سے۔ کسی گاڑیوں کے لائسنس کے حصول کے بعد ملنے والے بھتے میں سے یا کسی زمین کو کمرشل بنا کر لوٹ مار کرنے سے یا کسی بینک کا قرضہ لوٹ کر بھول جانے سے۔

وہ دن وہ رات غضب کے تھے۔ ہم لوگوں نے بے تحاشا ڈالر خرچ کیے اور بنکاک نے بھی ہم سے پورا انصاف کیا۔ اتنا سستا شہر، اتنے سستے ہوٹل، اتنی سستی شراب، اتنی سستی عورت کسی اور شہر میں نہیں ملے گی۔ ہمیں مزہ آگیا تھا۔

وہ مجھے پینٹ پانگ میں ملی۔ پینٹ پانگ کا علاقہ بھی کیا علاقہ ہے۔ دنیا بھر کی چیزیں خریداری کے لیے مہیا ہیں اور ساتھ میں ایک قطار میں کلب ہیں جہاں دن رات چوبیس گھنٹے ننگی عورتوں کا ڈانس ہوتا رہتا ہے۔ تنتی ہی ہوتی چھاتیوں پہ کچھ کپڑا اور نیچے کچھ چیتھڑے، یہ بھی کوئی لباس ہے۔ میں سوچتا ہوں اس کی بھی کیا ضرورت ہے۔ شاید کبھی ایسا بھی ہو کہ اس کے بغیر ہی ڈانس ہوں۔ اس کے لیے علیحدہ کلب ہیں جہاں لڑکیاں بغیر کپڑوں کے تھرکتی رہتی ہیں۔ بس ڈالر چاہیے۔ آج کے زمانے کا سب سے بڑا بھگوان۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4