حکمران کا حج اور سلطان صلاح الدین ایوبی


\"hashir\"

تکریت سے حجاز کا چھپن برس کا سفر تمام ہونے کو تھا۔ شام، مصر ، عراق، یمن ، حجاز اور شمالی افریقہ کا بلا شرکت غیرے حکمران ، زمانے کی سب سے طاقتور سپر پاور کا تاجدار اب تھک کر سونے کو تھا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر زندگی کرنے والے شاہ سوار کی سانسوں کی طنابیں سمٹ رہی تھیں ۔ آخری وقت آن پہنچا تھا۔ ”زندگی میں میری ایک ہی حسرت رہی“ بوڑھے سلطان نے العادل سے سرگوشی میں کہا ”کاش میں حج کر پاتا ۔ اے کاش“۔

تاریخ کی روشن ترین ہستیوں میں سے ایک یہ عظیم شخص پھر کچھ نہیں بولا ۔ اس کے دل کی دھڑکنیں خاموش ہوئیں تو لشکر گاہ میں ہی نہیں پوری مسلم دنیا میں کہرام مچ گیا ۔ یورپ سے لے کر ایشیا تک کوئی اس کا ہمسر نہیں تھا پر اب اسے خاک میں سلانے کا وقت تھا ۔ وصیت یہ تھی کہ اس کے جنازے کا اہتمام اس کے مال سے ہو۔ اندوختہ ٹٹولا تو سونے کی ایک اشرفی اور چاندی کے کل چالیس سکے نکلے ۔ کل جائیداد اتنی بھی نہ تھی کہ اس کے جنازے کے اخراجات ادا ہو سکتے۔

معلوم نہیں کہ اسلام کا قلعہ کہلانے والے ملک کے حکمرانوں اور اشرافیہ نے کبھی اس در نایاب کے بارے میں کچھ پڑھا یا نہیں جسے ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانتے ہیں۔ شاید نہیں۔ لاکھوں کی زکات فخر سے دینے والے امرا کو یہ پتا بھی ہے کہ صلاح الدین نے کبھی زکات نہیں دی کیونکہ اپنے حصّے کی تمام دولت صدقات میں بانٹنے کے بعد اس کے پاس کبھی اتنا بچا ہی نہیں کہ زکات لاگو ہو سکے ۔ ہر سال اپنی روحانی بیٹریاں چارج کروانے مکہ کا قصد کرنے والے ، کعبے کی چھت پر نماز پڑھنے والے، در کعبہ کو اپنے لئے وا ہوتے دیکھنے والے ہمارے تاجدار شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ صلاح الدین نے کبھی حج بھی نہیں کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ حج اپنی رقم سے ہوتا ہے اور حکمران کے لئے اس وقت جب اس کو اپنی رعایا کی ذمہ داریوں سے فرصت مل جاۓ ۔ صلاح الدین کے پاس نہ کبھی مال اکٹھا ہو پایا نہ ہی اس کی ذمہ داریوں نے اسے مہلت دی۔ حج کی خواہش خواہش ہی رہی اور حیات موت کی آغوش میں جا سوئی ۔ سپر پاور کے طاقت ور حکمران کے پاس تمام عمر اتنا وقت بھی نہ تھا جتنا ہماری جان و مال کے ذمہ داروں کے پاس ہر سال ہوتا ہے۔ یقینا ہمارے مسائل بہت کم ہوں گے ۔ ہمارے یہاں دودھ اور شہد کی نہریں رواں ہوں گی ۔ لوگ خوش باش اور مامون ہوں گے ۔ راوی چین لکھتا ہو گا ، روزگار وافر ہو گا ۔ عزت اور آبرو محفوظ ہو گی ۔معاشرہ امن کا گہوارہ ہو گا اور چونکہ یہ سب مہیا ہو گا تو پھر ہمارے ذمہ دار سکون سے اپنے الله کی بارگاہ میں حاضر ہو کے یہ کہہ سکتے ہوں گے کہ اب انھیں حج کرنے کا حق ہے ۔

احرام کی دو چادروں کا مطلب مزہبی لغت میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ اب دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اب جو کچھ ہے، اللہ کے لئے ہے ۔ عبد اور بندگی کا عھد صرف اس ایک کے ساتھ ہے ۔ اب کسی سے کچھ طلب نہیں ہے، پر یہ تو ہو گیا وہ مطلب جو واعظ سنا سنا نہیں تھکتے پر اگر یہ سب ایسا ہی ہے تو پھر انہی دو چادروں کو پہن کر شاہی پروٹوکول کیونکر مانگا جاتا ہے ۔ ایر کنڈیشنڈ خیموں میں رات کیسے بسر ہوتی ہے۔ سفر کے لئے لیموزین کہاں سے آتی ہے ۔ کعبہ کےبند دروازے کیسے کھل جاتے ہیں۔ شاہی تحائف کا تبادلہ کیسے ہوتا ہے۔ دعا مانگتے ھوے ، حجر اسود کو چومتے ھوے ، سلبرٹیز سے گلے ملتے ہوے تصویریں کون کھینچتا ہے ۔ چاروں طرف چلنے والی سیکورٹی فورس کہاں سے آتی ہے ۔ بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جانے کے دعوے کہاں گم ہو جاتے ہیں پر بس اتنا ہی نہیں ہے، میری کم عقلی اورنا سمجھی کی داستان ابھی طولانی ہے ۔

مجھے آج تک سرکاری خرچے کا حج بھی سمجھ نہیں آیا ۔ یہ بہتی گنگا جو حکمرانوں سے لے کر اشرافیہ تک ہر ایک کے لئے رواں ہوتی ہے، اس کا دینی ، اخلاقی ، شرعی اور قانونی جواز ہمیشہ میری فہم سے باہر رہا ۔ میرے ٹیکس کے پیسے سے دوسرے لوگ اپنے حج اور عمرے کرتے ہیں ، کیا کمال کرتے ہیں ۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان میں سے کوئی چند کلیوں پر قناعت کرنے والا نادان نہیں ہوتا ۔ اپنا حج تو ہے ہی ساتھ ساتھ بیوی، بچے، دوست، احباب، رشتے دار، سیکرٹری ، اے ڈی سی اور نوکر بھی ہمراہ ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اشک شوئی کے لئے ایک پریس ریلیز جاری کر دی جاتی ہے کہ فلائٹ کا کرایہ فلاں آںجناب نے اپنی جیب سے ادا کیا (وہ بھی برسوں میں کبھی ایک آدھ دفعہ ) لیکن اس پریس ریلیز میں کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ باقی لوازمات کس کی جیب سے ادا ہوئے ہیں۔

بچپن سے یہ سمجھایا اور بتایا گیا کہ حاجی الله کا مہمان ہوتا ہے۔ مگر جوں جوں بڑے ہوے پتہ لگا کہ الله کا مہمان ہونا تو بڑے گھاٹے کا سودا ہے مہمان بچارے کے لاکھوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں مشقت کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ بدترین رہائش اور خوراک مقدر بنتی ہے۔ صفائی ستھرائی کو تو میلوں سے سلام ہوتا ہے۔ دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ کئی پیروں میں آکر کچلے جاتے ہیں۔ کئی صعوبتوں کے سبب رزق خاک بنتے ہیں۔ جانے کے لیے کوٹہ ہے جس کے لیے سفارشیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں۔ انتظار کے طویل دن جاتے ہوئے بھی ہیں اور آتے ہوئے بھی پھر کبھی ایجنٹ پیسے لے کر بھاگ جاتا ہے کبھی ویزا جعلی نکل آتا ہے کبھی رہائش غائب ہو جاتی ہے کبھی بس خراب ہوجاتی ہے غرضیکہ مشکلوں کی ایک نہ ختم ہونے والی طویل فہرست ہے لیکن آپ اگر ایسے حج کے متمنی ہیں جس میں ان ساری تکلیفوں کاکہیں گزرنہ ہو تو پھر اللہ کا مہمان بننے کی کوشش ترک کیجئے اور شاہی مہمان بننے کی کوشش کیجئے ۔ شاہی مہمان کا حج ایک اور ہی حج ہوتا ہے اور اگر وزارت خارجہ ایک خط لکھ کر یہ یقین دہانی کر دے کہ پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں ہو گی تو کیا ہی بات ہے

شاہی مہمانداری کے فیوض و برکات صدقہ جاریہ کی طرح جاری و ساری رہتے ہیں باقی تمام عمر آپ اپنی برزیدگی کے ثبوت میں لوگوں کو بتایئے کہ در کی کعبہ آپ کے لئے خاص طور پر کھولا گیا۔ آپ نے کعبہ کی چھت پر نفل ادا کیئے وغیرہ وغیرہ، اور اگر کوئی یہ پوچھے کہ اللہ کے گھر میں تفریق کیا حج کی عبادت کے اصولوں کی توہین نہیں ہے تو ایسے سوالوں پر کان مت دھریے کہ بے وقوف، احمق اور حاسد لوگوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے۔ اگلا سوال وہ یہ پوچھ لیں گے کہ ایسی عبادت ہی کیا جو بذات خود امیر کے لئے ممکن ہو اور غریب کے لئے ایک بس ایک خواب، اک حسرت ناتمام ۔ ایسے سوال ایمان کے لئے سم قاتل ہیں ۔ لوگوں کو اتنا موقعہ نہ دیں ۔

اکثر سوچتا ہوں کہ ایک عبادت جو مزہب میں ایک دفعہ فرض ہے وہ دس دفعہ ، بیس دفعہ یا تیس دفعہ کیوں دہرائی جاتی ہے ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ رسول اللہ نے بھی حج محض ایک دفعہ کیا تھا اور کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی آبادی میں حج کے کوٹے بانٹنے پڑتے ہیں کیونکہ ہر سال ہر کوئی حج نہیں کر سکتا۔ اگر ایک شخص دوسری دفعہ حج پر جاتا ہے تو کیا کوٹے کی وجہ سے وہ ایک ایسے شخص کا استحقاق مجروح نہیں کرتا جس نے پہلے کبھی حج نہیں کیا۔ پر میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ سوال کس سے کروں ۔ جس ملک کے حکمران خود کئی حج کرنے کے دعویدار ہوں اور وہ بھی کوٹے اور اجازت کی قیود سے ماورا ہو کر ، ان سے یہ توقع کیونکر ممکن ہے کہ وہ اس وقت تک کسی کو دوسرے کو حج کی اجازت نہ دیں جب تک اس سال پہلی دفعہ حج کرنے والے تمام لوگوں کومکمل اور قطعی اولیت نہ دے دی جائے۔

کبھی آگے بڑھنے کی لگن میں، کبھی مال کی ہوس میں ، زر اور زمین کے سودوں میں ، کاروبار کے چلن میں سیاست کے کار زار میں اور رشتوں کے بازار میں ہم روز اپنے جیسے انسانوں کو دھوکہ دیتے ہیں پھر اس دھوکے کے ثمرات سمیٹتے ہیں۔ کبھی یہ ثمر روپیہ ہوتا ہے کبھی اقتدار کبھی کرسی اور کبھی محض تفریح مگر میں یہ نہیں سمجھ پاتا کہ ٹیکس دینے والے غریبوں کی کمائی سے شاہی مہمان بن کرتفریق اوروی آئی پی کے گھوڑے پر سوار ہو کر ، دوسروں کا حق مار کر جو حج کیا جاتا ہے اس میں دھوکہ کیا لوگوں کو دیا جا رہا ہوتا ہے یا اس کو جس کے حضور حاضری کا دعوی زبان پر ہوتا ہے ۔ انسانوں کو دھوکہ دینے کے فائدے تو مجھے نظر آتے ہیں پر اوپر اگر کوئی بیٹھا ہے تو اس کو دھوکہ دے کر کوئی کس فائدے کی توقع کرتاہے۔ وہ تو دلوں کے بھید جانتا ہو گا نا ۔۔۔۔۔۔ یا پھر یہ سب مایا ہے

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments