ارشد لطیف کی نئی کتاب کا انتظار


\"arifپاک و ہند سے باہر اردو ادبیات کا سب سے بڑا مرکز یقیناً لندن ہے۔ سن اسّی کے عشرے میں، جب بی سی سی آئی کی مالی امداد سے چلنے والا اردو مرکز اپنے جوبن پر تھا، تو لندن کی اردو سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ اردو مرکز کے روح رواں افتخار عارف مستقلاً لندن میں مقیم تھے۔ یہ مرکز لندن کے انتہائی مہنگے کمرشل علاقے میں واقع تھا لیکن زیر زمین ریلوے کی بدولت ہر چھوٹا بڑا یہاں بڑی آسانی سے پہنچ سکتا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق لندن کے ہفتہ وار جلسے بڑی باقاعدگی سے اسی دفتر میں ہوا کرتے تھے جہاں پرانے اور بزرگ ادیبوں کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کے شاعر اور افسانہ نگار بھی بڑے ذوق و شوق سے حاضری دیتے تھے۔

ویسے ادبی سرگرمیاں تو برطانیہ میں اس سے پہلے بھی کسی نہ کسی سطح پر جاری تھیں اور خاص طور پہ لندن، برمنگھم، مانچسٹر، لیڈز اور ایشیائی آبادی والے دیگر برطانوی شہروں میں مشاعرے بڑی باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے، لیکن اردو مرکز کے قیام سے ان ادبی سرگرمیوں میں ایک نظم و ضبط اور باقاعدگی آگئی تھی۔

ساقی فاروقی آج سے 65 برس پہلے لندن میں آباد ہو چکے تھے، اور اگرچہ انہوں نے روائتی استادی شاگردی کا سلسلہ کبھی قائم نہ کیا تھا لیکن نوجوانوں کا ایک جم غفیر ان کے فن سے استفادہ کرنے کے لئے ان کے گرد منڈلاتا رہتا تھا۔ جن نوجوانوں کو براہ راست ساقی فاروقی سے اصلاح لینے کا موقع ملا ان میں تین نام نمایاں ہیں اور یہ تینوں اب صاحب کتاب ہیں؛ ارشد لطیف، یشب تمنّا اور سلیم فگار۔

آج کی نشست میں ارشد لطیف پر کچھ بات کرتے ہیں:

\”ارشد لطیف کی شاعری نے مجھے چونکا دیا\”۔۔۔ ڈاکٹر خورشید رضوی لکھتے ہیں۔۔۔\” وہ بے ساختہ لہجے میں برجستہ مگر گہری بات کہنے کا فن جانتا ہے۔۔۔ اس کی غزل فرسودگی سے اور نظم اکہرے پن سے محفوظ ہے۔ اس کے ہاں مضامین کا تنوع اس کے کینوس کی وسعت کا آئینہ دار ہے، چنانچہ زمانے بھر کے رنگ ایک ہی صورت کے بنانے میں صرف کر دینے والا یہ شاعر وقت کے نیلے شامیانے میں ہزار روشن وجودوں سے بھی صرف نظر نہیں کر سکتا۔۔۔\”

رضوی صاحب ارشد کے جس کلام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں آئیے اس کی ایک جھلک براہ راست دیکھتے ہیں:

ایک صورت تری بنانے میں\"arshad-latif\"

رنگ مصروف ہیں زمانے میں

قطرہ قطرہ ٹپک ٹپک رہا ہے دل

قصہ عاشقی سنانے میں

کیسے کیسے وجود روشن ہیں

وقت کے نیلے شامیانے میں

میرا پیکر مجھے عطا کر دے

کیا کمی ہے ترے خزانے میں

آج سے برسوں پہلے جب ارشد کا اولین مجموعہ کلام مرتب ہوا تو افتخار عارف نے کہا تھا \”یہ کہتے ہوئے میرا دل اپنے آپ کو بہت مطمئن اور باثروت محسوس کرتا ہے کہ ن م راشد اور ساقی فاروقی کی تابندہ شعری روایت سے جگمگاتے مغرب کے دبستان اردو سے اکتساب فیض کرنے والے اس نئے مسافر کا پہلا شعری مجموعہ اردو دنیا میں محبت سے پڑھا جائے گا\” اور افتخار عارف کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ ارشد کی غزلیں جس ذوق و شوق سے پڑھی گئیں، اس کی نظمیں اور نثری شاعری کو بھی وہی پذیرائی حاصل ہوئی۔

ساقی فاروقی جیسے مجنھے ہوئے استاد کی زمین میں غزل کہنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن ارشد نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا:

آخر آخر اس نے مجھ کو تنہا چھوڑ دیا

جس منزل کی خاطر میں نے رستہ چھوڑ دیا

آنکھ کے دروازے پر منظر دستک دیتے ہیں

لیکن میں نے دل سے باہر آنا چھوڑ دیا

آج ہوا کا دامن خالی میٹھی خوشبو سے

شاید اس نے باغ میں آنا جانا چھوڑ دیا

تیری یادیں وصل کا ماتم کرنے آتی ہیں

بیچ میں تُو نے ہجر کا لمبا عرصہ چھوڑ دیا

کون کسے اپنا سمجھے اور پیار کی رِیت نبھائے

قہر خدا کا ہیر نے اپنا رانجھا چھوڑ دیا

ہم عصر شاعری سے استفادہ نہ کرنا ایک طرح کا کفران نعمت ہے لیکن تتبع کو تقلید یا کاربن کاپی کی سطح تک لے جانا شاعر کے لئے گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔

ارشد نے بزرگوں کی تحریروں اور براہ راست ملاقاتوں اور بحثوں کے دوران جو کچھ اخذ کیا اسے پہلے تو اپنی ذات میں بخوبی جذب کیا، اس کے بعد اپنے تخلیقی وفور کے بہاؤ میں اس کا اظہار کیا:

مرے کمرے میں

اک نرم ملائم بستر ہے

اس نرم ملائم بستر پر

ترے وصل کی یادیں سوتی ہیں

میں رات کو اکثر اُٹھ جاتا ہوں

جب وہ مِل کر روتی ہیں

اور دل کی دیوار میں کوئی

ہجر کی کھڑکی کھلتی ہے

اِک چہرہ روشن ہوتا ہے

یہ چاند ہے رات کے پہلو میں

یا تم ہو اپنے آنچل میں

مرے کمرے میں

اِک نرم ملائم بستر ہے۔۔۔

اور آخری بات کہنے سے پہلے ارشد کی غزل کے تین شعر:

پہلے دل کی باتوں میں آ جاتے ہیں

بعد میں سارے لوگ بہت پچھتاتے ہیں

نیند سے پہلے دھیان ترا آ جاتا ہے

خواب مجھے پھر ساری رات جگاتے ہیں

لوگوں کو اُلجھن ہوتی ہے لوگوں سے

ہم اپنی تنہائی سے گھبراتے ہیں

اور آخری بات یہ ہے کہ ارشد کی غزلوں اور نظموں سے محبت کرنے والے لوگ اب بے چینی سے اس کی دوسری کتاب کے منتظر ہیں اور نقش اول کو سراہنے والے بڑی بے تابی سے نقش ثانی کی ایک جھلک دیکھنے کے مشتاق ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments