یادیں سیّد قسور گردیزی کی


گزشتہ ماہ اگست میں الطاف حسین نے پاکستان کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی اس پر ہر پاکستانی دل گرفتہ ہے۔ مَیں نے ہر پاکستانی سے پہلے ’محب وطن‘ جیسا روایتی لفظ اس لیے نہیں لکھا کہ الطاف حسین نے ہر پاکستانی کا دل دُکھایا ہے۔ اور جب مَیں ایسے ملک دشمن لوگوں کے خیالات کو پڑھتا یا سنتا ہوں تو مجھے سید قسور گردیزی یاد آ جاتے ہیں۔ جن کا تعلق اس سیاسی جماعت سے تھا جس کو ماضی میں ملک دشمن جماعت کہا جاتا تھا۔ جبکہ قسور گردیزی کا تعلق پنجاب کے اس علاقے سے تھا جہاں پر صرف محرومیاں راج کرتی تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود سید قسور گردیزی کا قلم اور ان کی زبان کبھی بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوئی۔ وہ پاکستان کی محبت میں اس انداز سے گرفتار تھے کہ اگر انہوں نے اپوزیشن کی سیاست کرنی ہوتی تو حکومت وقت کو مطعون کرتے لیکن پاکستان اور قائداعظم محمد علی جناح کے بارے میں ہمیشہ اپنے خیالات ارفع و اعلیٰ رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں ہر سال ستمبر میں سیّد قسور گردیزی کو یاد کرتا ہوں کہ ان کی شخصت کے ہیولے کے سامنے نہ صرف اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتا ہوں بلکہ اسی تناظر میں جب آج پاکستان کی سیاست دیکھتا ہوں تو پھر سیّد قسور گردیزی کی یاد کی شمع مزید روشن ہو جاتی ہے کہ جس وقت مَیں یہ تحریر قلم بند کر رہا ہوں تو اسلام آباد کے ایوانوں میں الطاف حسین کی گفتگو کے بارے میں نرمی دیکھ کر سیّد قسور گردیزی جیسے لوگ بے ساختہ یاد آ جاتے ہیں۔ اسی لیے ملکی سیاست کے منظرنامے میں جب سیّد قسور گردیزی جیسے لوگوں کی کمی دیکھتا ہوں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ ہم نے رائیگانی کے جس سفر کو اپنا منشورِ حیات بنا رکھا ہے وہ تو صرف وقت کا ضیاع ہے۔

یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ سیّد قسور گردیزی کبھی اقتدار میں نہیں رہے لیکن عوام اور خواص ان کا برابر احترام کرتے تھے۔ اس کا بین ثبوت مجھے ان کی پہلی برسی کے اجتماع پر ملا جہاں پورے پاکستان کے نامور سیاست دان جمع تھے۔ سیاسی کارکن اپنے نظریات کے مطابق تقاریر کر رہے تھے۔ بہاولپور روڈ (اب سیّد قسور گردیزی روڈ ہے) پر ان کے آبائی گھر کے وسیع و عریض صحن پر ہزاروں لوگ جمع تھے۔ کہیں پر جئے بھٹو والے تھے تو کسی جانب اے این پی والے سرخ سویرا کی تشریح کر رہے تھے اور تو اور جماعت اسلامی کے ملک وزیر غازی بھی سیّد قسور گردیزی کی شان میں رطب اللسان تھے۔ غرض یہ کہ برسی سیّد قسور گردیزی مرحوم کی تھی لیکن وہاں لوگوں کا جوش و خروش ہمیں لاہور میں ہونے والے فیض اَمن میلے کی یاد کروا رہا تھا۔ دورِ ضیاءکی گھٹن کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ لوگ اپنے کتھارسس کے لیے میلے، مشاعرے، اور کانفرنس وغیرہ کروا لیا کرتے تھے۔ جب سے اس ملک میں جمہوریت کے نام سے جو کام شروع ہوا ہے اس نے ہمارے ہاں میلے اور مشاعرے کو تمام کر دیا ہے۔ نئی نسل کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمارے ہاں موسموں اور فصلوں کے حوالے سے میلے ٹھیلے ہوا کرتے تھے۔ اب شاعری پڑھنے کے لیے یار لوگوں کو نئی غزل یا نئی کتاب کا انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ ان کی یہ ضرورت ایک ایسا ایس ایم ایس پوری کر دیتا ہے جس میں نہ تو شعری ذوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی وزن کا۔ بس ملکی سیاست میں اب جس طرح کے لوگ آ رہے ہیں ان کی حالت بھی شاعری کے ایس ایم ایس جیسی ہے ان میں کوئی بھی بزنجو، بھٹو، قسور گردیزی، ولی خان جیسا نہیں۔ اب جو لوگ ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں ان پر تو پھر کبھی لکھوں گا فی الحال سیّد قسور گردیزی کے بارے میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنی اکہتر سالہ حیات میں کبھی کوئی ایسا کام نہ کیا جس پر انہیں شرمندگی ہوئی ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیّد قسور گردیزی جس گھرانے میںپیدا ہوئے وہاں پر چاروں جانب آسودگی ہی آسودگی تھی۔ لیکن سیّد قسور گردیزی کی حیات نو کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے وہ پیدا ہوتے ہی بغاوت کے نظریئے سے واقف ہو گئے تھے۔ عملی زندگی کے آغاز میں بڑے منصوبے ترتیب دیئے گئے لیکن سیّد قسور گردیزی کی تربیت میں بچپن سے مجلس و ماتم کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی تربیت دی گئی۔ ایک طرف یزیدی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر بات کرنا ان کی سرشت ہو گیا تو دوسری طرف ان کو سیاسی جدوجہد میں ایوب اور ضیاءکی آمریت ملی۔ اس دوران جب ان کو بھٹو کا اندازِ حکمرانی پسند نہ آیا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ یعنی ساری زندگی سیاست کی وادی میں گزار دی۔ جہاں پر طویل اور تھکا دینے والے مقدمات اور انسانیت سوز سزائیں جھیلیں۔ اہلِ خانہ اور بچوں سے دوری صرف اس لیے برداشت کی کہ جھوٹ نہیں بول سکتے تھے۔ پوری زندگی سیاست دانوں کے ساتھ بسر کی لیکن نہ لوٹے بنے اور نہ ہی کسی نے بکاؤ مال کہا۔ کہیں پر ہارس ٹریڈنگ کا حصّہ نہ بنے۔ البتہ ملتان میں ٹریڈرز کے لیے چیمبر آف کامرس قائم ضرور کیا۔ اپنا کاروبار پوری ایمان داری سے کیا اور خسارہ بھی اُسی انداز میں برداشت کیا۔ جس طرح انہوں نے اپنی سیاست کی یعنی ان کی پوری زندگی اس بات کی غماز رہی کہ طاقت کو کریں سجدہ یا سچ کا بھریں دم، یہ راز اب بھی تشریح طلب ہے۔

سیّد قسور گردیزی کو ہم سے جداہوئے تئیس (23) برس ہو گئے لیکن ان کی یاد تو کم نہیں ہوتی۔ مَیں جب بھی کوئی اچھی کتاب دیکھتا ہوں، کسی باوقار شخصیت سے ملتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے سیّد قسور گردیزی کا اجلا اور روشن چہرہ یاد آ جاتا ہے کہ اب ہمیں عام زندگی میں یا ملک کے سیاسی منظر نامے میں ان جیسا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ ان کی تاریخ پیدائش 6 ستمبر اور تاریخ وفات 11 ستمبر ہے جو آج پاکستان کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل تاریخیں ہیں۔ مجھے سیّد قسور گردیزی کا وہ زمانہ بھی یاد ہے کہ جب ان کے قریبی عزیز مخدوم سجاد حسین قریشی گورنر پنجاب تھے۔ یہ وہی دورِ سیاہ تھا جب سیّد قسور گردیزی کی آمریت کے خلاف جدوجہد عروج پر تھی۔ ایک طرف گورنر ہاؤس لاہور تھا دوسری جانب وہ لاہور کی سڑکوں پر پولیس سے لاٹھیاں کھا رہے تھے۔ فی زمانہ سیاست میں کون سا ایسا سیاستدان ہے جس کا قریبی عزیز صوبے کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہو اور گھر کا دوسرا فرد جمہوریت کی قید کاٹ رہا ہو۔ سیّد قسور گردیزی نے اپنی زندگی ترقی پسند جدوجہد کے لیے گزاری اور کامیاب رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں جب بھی حضرت شاہ یوسف گردیز کے مرقد پر جاتا ہوں تو پہلے سیّد قسور گردیزی کے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مَیں اپنے آپ کو نظریاتی طور پر ان کے خاندان کے قریب جانتا ہوں کہ مجھے علم ہے سیّد قسور گردیزی نے اپنی زندگی جس انداز میں بسر کی اس طرح کی زندگی گزارنے والے اب اس دنیا میں نہیں آتے۔ اس لیے شاہ جی جیسے سیاست دانوں کی کمی پاکستان جیسے ملک کے لیے ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ملکی حالات دیکھ کر ہی مر جاتے۔ انہوں نے ذاتی قربانیوں سے پسماندہ طبقات کے دلوں میں احترام پایا۔ کچلے ہوئے طبقات کی بھلائی کے لیے جدوجہد کی تاکہ پاکستان کے عوام خوشحال ہوں۔ عوام کی خوشحالی کے لیے اقتدار میں جانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ نیک نیتی، ایمانداری سے محروم طبقات سے محبت بھی اس سمت کا پہلا زینہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments