عید تو بیٹیوں کی ہوتی ہے!


\"husnainدادی اکثر امی سے کہا کرتی تھیں، بہو، عید کا مزہ تب آتا ہے جب بیٹیوں کے لیے عید کی تیاری کرنی ہو۔ بیٹوں کا کیا ہے، ایک پتلون قمیص لی یا کرتا شلوار لیا، جوتے لیے، کھیل ختم پیسے ہضم۔ مزہ تب آئے گا جب تمہارے بیٹی ہو گی۔ مہندی لگوانی ہے، چوڑیاں لینی ہیں، بندے ڈھونڈنے ہیں، بالوں کے لیے کلپ لینے ہیں، میچنگ کے کپڑے ڈھونڈنے ہیں، دوپٹے رنگوانے ہیں، ہر جوڑے کے ساتھ جوتے لینے ہیں، ایڑھی والے لینے ہیں یا سادہ، کھسے لینے ہیں یا کولہاپوری، بند پمپس لینے ہیں یا سینڈل قسم کے، بھاگتی پھرو گی دوکانوں میں، عید سر پر آ جائے گی اور دیکھنا تیاری ختم نہیں ہو گی۔ جب نام خدا بڑی ہو جائے گی تو پارلر کے پھیرے بھی ساتھ شامل کر لو۔ عید کا مزہ تب ہے جب لڑکیوں کے لیے عید کی تیاری کرنی ہو۔

ابھی ظل ہما نہیں آئی تھی۔ ظل ہما وہ نام تھا جو پہلوٹھی کی اولاد کے وقت سے دادی نے سوچا تھا۔ لڑکا ہوا، حسنین نام رکھ دیا گیا۔ بے تحاشا لاڈ اٹھائے اس کے، گودیوں میں پلا، قدم زمین پر کم ہی رکھنے پڑے اسے، چندا کہا کرتی تھیں اسے پیار سے اور چاند کے جیسا ہی مانتی تھیں۔ دوسری مرتبہ پھر جب امکانات ظاہر ہوئے تو ظل ہما نام پھر یاد آ گیا دادی کو، ظل ہما پھر نہ آئی، اب کے خاور آ گیا۔ گورا چٹا، باریک نقش و نگار، پیارا سا بچہ، لگتا یہی تھا کہ اللہ میاں کے یہاں ظل ہما کو دھکا دیا اور خود چل پڑا کہ ہم جائیں گے، نقش و نگار وہی نازک اٹھا لیا۔ خاور دادی سے زیادہ اماں ابا کا لاڈلا تھا۔ ابا سے تو وہ مستیاں کرتا تھا جو آج بھی کوئی دیکھے تو حیران ہو جائے کہ یہ باپ بیٹے ہیں یا دو چھوٹے لڑکے۔ تو ان دو لڑکوں کے لیے عید سے پہلے جب بھی شاپنگ کی جاتی، دادی وہی بات کرتیں کہ بہو، عید کا مزہ تب آتا ہے جب بیٹیوں کے لیے خریداری کرنی ہو۔

پھر خاور کے کافی عرصے بعد ظل ہما آ ہی گئی۔ دادی ظل ہما کو نہ دیکھ سکیں، دس بارہ روز کا فرق تھا ان کے جانے اور ہما کے آنے میں۔ \"husnain-jamal-family\"ہما کیا آئی کھلونا آ گیا، دونوں بھائی اٹھائے اٹھائے پھرتے، تھوڑی بڑی ہوئی تو اس کی مزے مزے کی باتیں سنتے۔ اور بڑی ہوئی تو سکول جانے سے پہلے روزانہ روتی تھی۔ ایسی منحوس آواز میں روتی کہ حسنین کو غصہ آ جاتا، \”کیا مصیبت ہے، روز اسی منحوس آواز سے آنکھ کھلتی ہے، امی یہ اتنا زیادہ کیوں روتی ہے؟\” لیکن بڑے مزے کا وقت تھا۔ ہما سے خوب کھیلا جاتا، ابا اماں کا وقت بھی مزے سے گزرتا۔ پھر وہ عیدیں بھی آئیں جن کا دادی کہا کرتی تھیں۔ لو بھئی اب ہما کے لیے پونی لینے جانا ہے، اس کی چوڑیاں علی بھائی لے کر آ رہے ہیں۔ مہندی لگانے والی خاتون آ کر بیٹھی ہوئی ہیں اور ہما صاحبہ دونوں ہاتھوں پر مہندی لگوا رہی ہیں۔ امی جو فراک لے کر آئی تھیں اس کی فٹنگ ٹھیک نہیں تھی، آج دوبارہ جائیں گی، فراک ایک سائز بڑا لینا ہے اور لیگنگ بھی لینی ہے ساتھ میں، عید کے دوسرے دن کے لیے جو شلوار قمیص سلوایا تھا اس کی لیس بھی لینی ہے، اسی بیچ یاد آتا کہ میچنگ جیولری بھی چاہئیے، پھر سے بھاگا دوڑی ہوتی، تو کل ملا کر سب کو تب سمجھ آیا کہ دادی ٹھیک کہتی تھیں، عید کا مزہ بیٹیوں کے ساتھ آتا ہے۔

ہما آئی تو اس کے بعد گھر میں گاڑی بھی آئی، پہلے ویسپا شریف ہوتا تھا اکیلا، اب ساتھ میں ایک ایف ایکس سوزوکی آ گئی۔ اب سارے اس میں بیٹھ کر اکٹھے عید شاپنگ کے لیے جایا کرتے، پھر کچھ برس بعد مکان بھی بدل لیا، یہ علاقہ پہلے والے سے نسبتاً زیادہ ماڈرن تھا۔ پھر حسنین کی نوکری شروع ہوئی تو اس کے لیے موٹر سائیکل لی گئی، پھر ایک سیکنڈ ہینڈ موٹرسائیکل خاور کے لیے خریدی گئی اور زندگی کی گاڑی دوڑتی رہی۔

بیچ کے پندرہ برس نکال دیجیے۔ آج ماشاللہ حسنین ایک عدد بیٹی کے بابا ہیں اور خاور کے ایک بیٹا ہے۔ تیاریوں میں وہی فرق ہے جو دادی بتایا کرتی تھیں۔ بلکہ یوں سمجھیے چار ہاتھ آگے کا ہی سین ہے۔ چند روز پہلے کراچی جانا ہوا تو آئلہ کی نانی جان نے کون مہندی کے چار پیکٹ پکڑا دئیے کہ بھئی اس کا فون آیا تھا، کہہ رہی تھی کہ یہاں کی مہندی کا رنگ اچھا نہیں ہوتا آپ فلاں بازار میں ملنے والی فلاں مہندی \"husnain-family\"بھیج دیجیے۔ چلیے جی مہندی آ گئی۔ پھر آئلہ کی ماں نے جو کپڑے لینے تھے وہ لیے گئے، جو سلنے دئیے تھے ان کی واپسی کے لیے بھاگ دوڑ شروع ہوئی۔ عید پر ملتان آنا تھا، جس صبح آنا تھا اس سے پہلے والی رات کو وہ کپڑے جہانگیر بھائی نے لا کر دئیے، یاروں کا تراہ نکلا ہوا تھا کہ اگر کپڑے نہ آئے تو پھر کیا ہو گا، بلکہ کیسے ہو گا۔ کپڑے آ گئے اب جوتے ملتان سے لینے ہیں، آج ہما، اوما اور آئلہ نے مہندی لگوانے بھی جانا ہے، اس کے بعد تینوں خواتین کی تیاری میں جو کمی رہتی ہو گی اس کے لیے بھی بازار کے پھیرے لگنے ہیں۔ یاد آیا، ابھی چوڑیوں کا تو نام بھی کسی نے نہیں لیا، بہتر ہے کہ پارلر والے پھیرے میں یاد کروا دیا جائے کہ بی بی صاحبو چوڑیاں بھی خرید فرما لو۔

عید واقعی بیٹیوں کی ہوتی ہے، دادی کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ خدا ہمیشہ خوش رکھے، آئلہ زینب عید کے دن سب سے پہلے صبح تیار ہوتی ہیں، بال بنائے جاتے ہیں، ہیل والے جوتے پہنے جاتے ہیں، دادی دشمن زیر کا کلمہ پڑھتی ہیں، پھر لائٹ سا میک اپ ہوتا ہے، پھر ٹک ٹک کرتی سارے گھر میں گھومتی پھرتی ہیں، جب تھکن ہوتی ہے تو دادا کے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی بڑی اسکرین پر کچھ کھیلا جاتا ہے یا فیس بک کھولا جاتا ہے، پھر شام تک کچھ اور پہنا جاتا ہے، اس چیز کا دھیان رکھا جاتا ہے کہ اگر صبح مشرقی لباس ہے تو شام میں کچھ پینٹ شرٹ ٹائپ ہو گا، جیولری بھی ماشاللہ بدلی جاتی ہے۔ دادا اور بابا سارا دن کرتہ اتار کر بنیان میں سوتے رہتے ہیں، کوئی مہمان آ گیا تو کرتہ پہن لیں گے، ورنہ مردوں کی عید تو بھئی یہی ہوتی ہے!

 

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments