خیرپور میں زہر کا پیالہ اور میرپورخاص میں محبت کا شربت


\"akhterکسی زمانے میں سندھ کے دیہات اور قصبوں میں لوگ کلہاڑی اپنے ساتھ لیے پھرتے تھے، اس کا ایک اہم ترین مقصد تو اپنی جان کی حفاظت کرنا تھا جبکہ دوسرا یہ کہ وہ سندھی روایت کا حصہ تھی۔ مگر پھر اسی کلہاڑی سے درختوں کی بجائے عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کی گردنیں تن سے جدا کرنے کی ایسی روایت پڑی کہ اب یہ گمان ہونے لگا ہے کہ سندھ میں شاید ان چمکیلی کلہاڑیوں نے اتنے درخت نہیں کاٹے ہوں گے جتنے سر عورتوں کے تن سے جدا کیے ہوں گے۔

سندھ میں اگر کسی شوہر کو اپنی بیوی سے جان چھڑانی ہے تو اس پر “کاری” کا الزام لگا کر اسے قتل کردینا ایک عام سی بات ہے اور جرگے کے ذریعے چند لاکھ روپے دے کر خود کو آزاد کراکے پھر نئی عورت سے شادی رچا لو، اگر کسی کی بہن یا بیٹی اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو ان کے لیے یہ دھرتی اتنی تنگ کر دی جاتی ہے کہ شادی کرنے والا جوڑا بھاگتے بھاگتے اپنی محبت تو ہار جاتا ہے بلکہ اپنی زندگیوں سے بھی چھٹکارا پا لیتا ہے۔

\"subas-tahira\"

انگریزوں کی عملداری میں چارلس نیپیئر وہ واحد انگریز منتظم تھے جنہوں نے کارو کاری اور ستی جیسی رسومات کے خاتمے کے لیے جو اقدامات کیے تھے، وہ اس وقت تک جاری رہے جب تک انگریز حکمران تھے۔ اسی زمانے کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ کسی قبیلے کے ایک فرد نے اپنی بیوی کو غصے میں آکر قتل کر دیا جب یہ خبر چارلس نیپیئر تک پہنچی تو اس شخص کو بیوی کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی، جس کے بعد قبیلے کا سردار چارلس نیپئرئ کے ہاں حاضر ہوا اور منت سماجت کرتے ہوئے قاتل کی زندگی بخشوانے لگا۔ نیپیئر نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا کہ “اس نے اپنی بیوی کا قتل کیا ہے”۔ جس پر سردار نے کہا کہ “اگر اسے نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو قتل کر دیا ہے تو کیا قیامت آگئی”۔ جس پر نیپئرئ نے کہا کہ “اس وقت میں بھی غصے میں ہوں پھر کیوں نہ تمہیں بھی مار دوں”۔ سردار یہ سن کر خاموش ہو گیا۔

 اسی طرح ستی میں عورتوں کو زندہ جلانے والوں کو بھی سزائیں ملیں اور یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ مگر یہ باتیں اس زمانے کی ہیں جب انگریزوں نے عورت کو صرف عورت ہی نہیں بلکہ انسان بھی سمجھا تھا۔

سندھ آج بھی ذات پات کے دقیانوسی روایتوں میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ کوئی لڑکی کسی غیر ذات کے لڑکے کو پسند بھی کرے تو ایک قیامت \"subas\"برپا ہو جاتی ہے۔

پچھلے ماہ سندھ کے چھوٹے سے شہر ہنگورجا سے تعلق رکھنے والی سباس طاہرہ اور کامران لاڑک نے پسند کی شادی کی جس کی بھنک ان کے گھر والوں کو پڑ گئی۔ گو کہ کسی سے پسند کی شادی کرنا یا کسی کو شریک حیات بنانا کسی بھی گناھ کے زمرے میں نہیں آتا، مگر “غیرت” بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جو کہ ہمارے ہاں عورت کو قتل کرتے وقت ہی آتی ہے۔ یہ سندھ میں اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ تھا اور کسی فلمی سین سے کم بھی نہیں تھا، کیونکہ سباس طاہرہ شاہ اور کامران لاڑک کے نکاح کے بعد دونوں کے والدیں نے انہیں قرآن کی قسم کھا کر اس بات کا یقین دلایا تھا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ اس شادی کو قبول کرتے ہیں۔ مگر ابھی ان کی کہانی کو اور کربناک ہونا تھا۔

وہ لمحہ اور بھی درد ناک تھا، جب انہیں ایک کمرے میں بند کرکے پوچھا گیا کہ ’گولی ماریں یا شرب پلائیں‘ شربت پلانے سے مراد زہر پلانا تھا۔ چونکہ گولی کی آواز سے کسی کو بھی ان کی موت کا پتہ چل سکتا تھا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ دونوں کو شربت یعنی زہر پلایا جائے۔ اور یہ کام تمام گھر والوں کے سامنے سباس طاہرہ کے چچا نے سرانجام دیا تھا۔ جنہیں یہ لگا یہ ان کی بھتیجی نے اپنی پسند کی شادی کرکے ان کے منہ پہ کالک مل دی ہے۔ مگر یہ واردات چھپ نہ سکی اور پولیس نے دونوں کو ہسپتال داخل کروایا۔

\"sabas-tahira\"

خون کی الٹیاں کرنے اور زہر کی مقدار زیادہ پلانے کی وجہ سے کامران لاڑک جاں بر نہ ہوسکا مگر طاہرہ بچ گئی۔ اب وہ تنہا ہے اور اسے کامران لاڑک کے رخصت ہونے کی خبر بھی کئی روز بعد سنائی گئی تھی۔ جس کے بعد طاہرہ کا کہنا تھا کہ کامران ان سے تین روز میں ملنے آئے گا۔ مگر اس قصے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ سباس طاہرہ کے چچا اپنی جوانی کے دنوں میں کامران لاڑک کی پھوپھی سے پیار کرتے تھے پر وہ شادی ہو نہیں پائی تھی اور انہیں واپس اپنے گھر آنا پڑا تھا، مگر انہیں نہ تو زہر دیے کر قتل گیا تھا اور نہ ہی ان سے جینے کا اختیار چھینا گیا تھا۔

سباس طاہرہ اگر چارلس نیپئرر کے زمانے میں پیدا ہوئی ہوتی تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ انہیں کوئی زہر پلا سکتا مگر یہ اس زمانے کی نسل ہے، جہاں محبت کرنے والے تو قتل ہوتے ہی ہیں بلکہ کسی کو دیکھ لینے پر بھی قتل کر دینا ایک عام سی بات ہے۔

انہی دنوں میں جہاں سباس طاہرہ اور کامران لاڑک زندگی اور موت کے دوراہے پہ کھڑے تھے۔ تب میرپورخاص کے ڈاکٹر گوردن کھتری \"kamran\"نے اپنی بیٹی منیشا کی شادی بلال قائم خانی سے کردی تھی۔ سندھ میں ہندو لڑکوتں کا اسلام قبول کرکے بیاہ رچانا تو چلتا رہتا ہے مگر کسی باپ کی جانب سے اپنی بیٹی کی پسند کا احترام کرتے ہوئے، مذہب کی تمام بندشوں کو توڑ کر اپنی بیٹی کا ہاتھ کسی مسلمان لڑکے کے ہاتھ میں رضا خوشی دینا، اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ جہاں ڈاکٹر نے اپنی بیٹی کا گھر بسایا ہے وہاں اسے اپنے گھر سے محض اس لیے دربدر ہونا پڑا کہ انہوں نے اپنی برادری اور پنچائت کے کسی بھی اعتراض کو نہیں مانا، صرف اپنے دل کی آواز سنی اور اپنی بیٹی کی خوشیوں کی خاطر کسی بھی قسم کی پرواہ نہیں کی۔

ڈاکٹر کے اس فیصلے کے بعد پنچائت نے نہ صرف انہیں بے دخل کر دیا ہے بلکہ انہیں جلاوطن بھی ہونا پڑا ہے۔ کیا اس معاملے میں ایک ہندو پاکستانی نے ان دو مسلمان خاندانوں سے بڑے دل کا مظاہرہ نہیں کیا جنہوں نے اپنے بچوں کو اس لیے قتل کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے زندگی ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حالانکہ ان میں سے کسی کو بھی مذہب تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر مسئلہ اس جھوٹی خاندانی انا کا تھا، جس کے ہاتھوں آج سباس کے چچا اور دیگر لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر مرد خود کو یہ حق دینے سے بالکل بھی نہیں گھبراتا کہ وہ کسی عورت یا لڑکی کو پسند کرکے شادی کرے، لیکن معاملہ اگر اس\"kamran2\" کی اپنی بیٹی یا بہن کا آئے تو سوئی ہوئی غیرت بھڑک اٹھتی ہے۔ مرد کی جانب سے یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ وہ جس کی زلفوں کا اسیر ہوا ہے وہ بھی کسی کی بہن اور بیٹی ہی ہوتی ہے۔ اگر اسے پانے کے لیے زمین و آسمان ایک کیا جا سکتا ہے تو کیا کسی اور لڑکی کو اتنا اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ خود کرے۔

جبکہ ملک و سماج میں اور بھی بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر غیرت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ سباس طاہرہ کا کھویا ہوا شوہر کامران لاڑک تو اب لوٹ کر نہیں آسکتا اور نہ ہی منیشا کے والد کو اب پنچائت اپنی برادری میں پناہ دے گی۔ مگر سباس طاہرہ نے یہ عہد ضرور کیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے اپنی زندگی وقف کرے گی جو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب ہماری حکومت میں “غیرت کے ٹھیکیداروں” کو روکنے کے لیے چارلس نیپئرھ جیسے لوگ بھی موجود ہوں۔

 

اختر حفیظ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

akhter-hafeez has 20 posts and counting.See all posts by akhter-hafeez

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments