نوے روز کا انتظار: خدشے سے خواب تک


\"????????????????????????????????????\"قومی افق پر روشنی کے کچھ آثار نمودار ہوئے ہیں۔ دبے لفظوں میں یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ محترم جنرل راحیل شریف 27 نومبر کو اپنے منصب کی میعاد مکمل کر کے سبک دوش ہوجائیں گے۔ جنرل راحیل شریف غیر معمولی صلاحیت کے حامل سپاہی ہیں اور پاک فوج کی سربراہی ایک غیر معمولی سپاہی ہی کو زیب دیتی ہے۔ جنرل صاحب نے ہمارے جسد اجتماعی کو لاحق کچھ بنیادی مسائل کا سینگوں سے پکڑ کر مقابلہ کیا۔ ماننا چاہئے کہ پاکستان میں جون 2014 کے بعد سے دہشت گردی کی مزاحمت کا رنگ بدل گیا۔ زمینی کامیابیوں سے قطع نظر، طالبان کے غالی حامیوں میں بھی اب یہ ہمت نہیں کہ پاکستان کی ریاست کو للکار سکیں۔ دہشت گردی ایک روز میں پیدا نہیں ہوئی اور اسے کیلنڈر پر کسی تاریخ کے گرد دائرہ لگا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے جو آئندہ برسوں میں بھی جاری رہے گی۔ قوموں کا بندوبست ساٹھ منٹ کی تمثیل نہیں ہوتا جس میں اختلاف اور تصادم کے تمام دھاگوں کو اطمینان بخش طور پر سلجھایا جا سکے۔ قومی زندگی میں تسلسل پایا جاتا ہے۔ منتخب حکومت اور ریاستی منصب کی مدت طے ہوتی ہے۔ ہماری قوم آئندہ برسوں میں بھی دہشت گردی سمیت تمام مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی بہترین کوشش کرتی رہے گی۔ جنرل راحیل شریف سے ایک بیان منسوب کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج ایک عظیم ادارہ ہے۔ اس ضمن میں کوئی دو آرا نہیں ہوسکتیں۔ یہ ادارہ ماضی میں بھی پاکستان کا اثاثہ رہا ہے اور آئندہ بھی قوم کے بہترین بیٹے سپاہی اور افسر کی حیثیت سے قوم کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ امید کا ایک دوسرا اہم اشارہ سیاسی میدان سے مل رہا ہے۔ عمران خان اور حزب اختلاف کی دیگر قوتوں کی احتجاجی سیاست ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی جماعت کو تحریک اور سیاسی اجتماع کو دھرنے کی ثقافت میں بدلنے کی کوشش فی الحال بار آور ہوتی نظر نہیں آرہی۔ عمران خان نے 24 ستمبر کو رائے ونڈ میں اجتماع کا جو اعلان کیا تھا اس سے درجہ حرارت مطلوبہ سطح پر بلند نہیں ہو سکا۔ چوہدری شجاعت حسین کی سیاست سے اختلاف ہوسکتا ہے، ان کی متانت اور معاملہ فہمی شک و شبہ سے بالا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کے بروقت بیان سے نہ صرف طاہر القادری صاحب کو پیچھے ہٹنا پڑا بلکہ عمران خان بھی اپنے پروگرام میں مناسب تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں۔ سمجھنا چاہئے کہ 2014 کے موسم گرما سے شروع ہونے والا وہ ابھار اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے جس کی امید آئینی انحراف سے وابستہ تھی۔ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی قوتیں ہمارے ملک کا قابل احترام اثاثہ ہیں اور یہ احترام آئین کی بالا دستی اور جمہوریت کے تسلسل سے مشروط ہے۔

ایسا نہیں کہ جمہوریت کے افق پر سب بادل چھٹ گئے ہیں۔ 1977 میں ضیاالحق مرحوم نے ہمیں نوے روز کے انتظار کا پیغام دیا تھا۔ قریب چالیس برس بعد ہم یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ نوے روز کی اس میعاد میں ابھی کتنے روز باقی ہیں۔ امکان یہ ہے کہ معمولات زندگی کو درہم برہم کرنے والے بادل اگلے چند مہینوں میں راولپنڈی ڈویژن اور نواحی علاقوں سے اٹھیں گے، کچھ چھینٹے جنوبی پنجاب اور دیہی سندھ میں بھی پڑیں گے۔ کراچی کے کچھ علاقے زیر آب آنے کا امکان بھی موجود ہے لیکن باد و باراں کے یہ سب مناظر انتخابی مہم کا حصہ ہوں گے۔ ایک قابل غور اشارہ فری اینڈ فیر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی طرف سے رائے عامہ کے تجزیے میں سامنے آیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وطن عزیز میں 45 فیصد شہری جمہوریت کو پسند کرتے ہیں۔ 18 فیصد آمریت کے حامی ہیں اور 37 فیصد فلاحی مملکت یا خلافت کے کسی کے نمونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جمہوریت پسند عناصر کو کچے دھاگے سے بندھی 45 فیصد کی عددی برتری پر خوش ہونے کی بجائے سوچنا چاہئے کہ 18 فیصد لوگ تو دو ٹوک لفظوں میں آمریت کے حامی ہیں۔ آمریت کی ثقافت کے خوشہ چینوں کے لئے یہ بہت بڑی خبر ہے کہ ملک میں ایک کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کے دل آمریت کی اصطلاح پر بلیوں اچھلتے ہیں۔ ان مہربانوں سے بار بار آمریت کے خد و خال اور ممکنہ نتائج پر سوال کرتے رہنا چاہئے۔ کوئی امرت دھارا نسخہ ہے یا کوئی شہزادہ گلفام ہے۔ پہاڑوں سے کوئی جوگی بین بجاتا اترے گا یا کوئی جادوگر شہر کی گلیوں میں رازوں سے بھری پوٹلی لیے نکلے گا۔ پوچھتے رہنا چاہئے کہ آمریت کسے کہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آمریت کے حامی آمریت کو جانتے ہی نہ ہوں۔ نہ جاننے کی بہت اچھی کہی۔ فلاحی مملکت کا تصور ایک خوش کن خیال ہے۔ ہمیں ایک دوسرے سے پوچھتے رہنا چاہئے کہ جس ریاست کو سالانہ بجٹ کا قریب پانچواں حصہ بیرونی امداد سے حاصل کرنا ہوتا ہے وہاں فلاحی مملکت کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں؟ جہاں جی ڈی پی اور ٹیکس میں تناسب دنیا بھر میں کم ترین درجے پر ہو، وہاں فلاحی ریاست کے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ سوال کرتے رہنا چاہئے کہ قابل احترام ہم وطن خلافت سے کیا مراد لیتے ہیں۔ ملک کے بانیوں نے مارچ 1940، اپریل 1941، جولائی 1946، جون 1947 اوراگست1947 میں کسی قرارداد، کسی دستاویز اور کسی باقاعدہ پالیسی بیان میں کبھی یہ لفظ استعمال کیا تھا؟ پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ امریکہ اور چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہے ہیں۔ اقتصادی کوریڈور اہل پاکستان کی قسمت بدل سکتا ہے لیکن یہ کوریڈور محض زمین پر تارکول ملے پتھر بچھانے کا نام نہیں ہے اس سے سیاست، معاشرت اور معیشت میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ یہ تبدیلیاں خوش کن بھی ہوں گی اور کسی قدر ناخوشگوار بھی۔ بار دگر عرض کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے آئین کو آبادی کے اس 55 فیصد سے خطرہ لاحق ہے جو جمہوریت سے گریز میں کوئی ہرج نہیں سمجھتے۔ یہ صرف ناخواندہ لوگ نہیں، ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ دوست بھی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے بغیر بھی ترقی ممکن ہے۔ انھیں بتاتے رہنا چاہئے کہ جمہوریت کے بغیر تمدنی قوتوں اور علم کی ایسی توانائی کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا جو معیار زندگی میں ہموار بہتری اور آئندہ نسلوں کی مسابقت پذیری (مقابلہ کرنے کی صلاحیت) کی ضمانت دے سکے۔

جمہوریت کا بنیادی اصول شہریوں کی مساوات ہے اور یہ مساوی رتبہ کسی بھی طرح کے حالات میں منسوخ نہیں کیا جاتا۔ مختلف معاملات میں فیصلہ سازی اور رفع نزاع (اختلاف رائے کو نمٹانے ) کے لئے کثرت رائے کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے لیکن 51 فیصدی کی اکثریت کے مقابل 49 فیصدکے مساوی حقوق اور شہری رتبے پر حرف نہیں آتا۔ الطاف گوہر نے بھٹو صاحب کو کیا خوب یاد دلایا تھا کہ حضور آپ نے انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے، پاکستان کو فتح نہیں کیا۔ 99.99٪ کی اکثریت کو بھی جمہوری میزان میں01.01٪ کی معمولی اقلیت کے حقوق پامال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ جمہویت میں مستقل اقلیت یا اکثریت کا کوئی تصور نہیں۔ کسی بھی معاملے پر ووٹوں کی گنتی کے طریقہ کار سے بالادست وہ جمہوری اصول ہے جس میں ہر شہری کو برابر قرار دیا جاتا ہے۔

یہ سمجھنا انتہائی گمراہ کن ہے کہ مسلمان اکثریت کے ممالک میں جمہوری معاہدے کے اصول باقی دنیا سے مختلف ہوں گے۔ صرف بھارت میں قریب 20 کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ گویا دنیا کا ہر آٹھواں مسلمان بھارت میں آباد ہے، بھارت میں مسلم آبادی کی نمائندہ تنظیموں کو سیکولر بندوبست پر اصرار ہے۔ یورپ اور شمالی امریکا میں بسنے والے مسلمان سیکولر مساوات کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں گویا کمزور عددی حیثیت رکھنے والے شہری گروہ سیکولر بندوبست پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان اکثریتی ممالک میں مذہبی اور ثقافتی اقلیتوں کو ایسے غیرجانبدار بندوبست سے محروم رکھا جائے۔ پاکستان کی معاشی ترقی ہم سب کا خواب ہے۔ ہمیں دہراتے رہنا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ اور جمہوریت کا نسخہ خانہ ساز نہیں ہو سکتا۔ جن اصولوں پر ملک حاصل کیا تھا، ان اصولوں کی طرف ہی لوٹنا ہو گا۔ نوے روز میں سے بہت سے دن کٹ گئے۔ ہمارا امتحان لامتناہی نہیں ہو سکتا۔ ہمیں پہاڑی کے پار روشنی اور تتلیوں کی وادی میں پہنچنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments