پاکستان کے شہری، فوجی افسر اور قانون کی عملداری


\"motorway-police\"10 ستمبر کو خیبرپختون خوا میں دو فوجی افسروں اور نیشنل ہائی ویز کے ڈیوٹی پر موجود افسروں کے درمیان ہونے والے تنازعہ پر سوشل میڈیا پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ سرکاری طور پر ہائی وے پولیس کا موقف بھی سامنے آیا ہے اور متاثرہ افسروں نے حملہ کرنے والے فوجیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کے بھی اپنے نقطہ نظر اور شکایت کا اظہار کر دیا ہے۔ فوج کی طرف آئی ایس پی آر ISPR نے اس جھگڑے کی تصدیق کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس معاملہ کی تفتیش کی جا رہی ہے اور یہ کہ انصاف فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس جھگڑے میں ملوث فوجی افسروں کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر ایسے بیان گردش کر رہے ہیں جس میں ایک نوجوان جو مبینہ طور پر جھگڑے میں شامل ایک فوجی کپتان ہے، اس تنازعہ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کر رہا ہے۔ اس بیان کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی کیوں کہ سرکاری طور پر ان افسروں یا آئی ایس پی آر نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے اور فیصلہ کے لئے تحقیقات مکمل ہونے اور فوج کے متعلقہ افسروں کے فیصلہ کا انتظار کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کے مین اسٹریم میڈیا نے خبر دینے کے علاوہ اس معاملہ پر زیادہ بحث کرنے اور دور کی کوڑی لانے سے گریز کیا ہے۔ اسے فوج کا خوف ہی کہا جائے گا کیوں کہ بصورت دیگر ملک کا الیکٹرانک میڈیا ایسے کسی واقعہ میں بال کی کھال اتارنے میں دیر نہیں لگاتا۔

بظاہر یہ معمولی واقعہ ہے جو پاکستان کی سڑکوں پر گاڑی چلانے والوں اور پولیس کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر پیش آتا رہتا ہے۔ لیکن خاص طور سے اس واقعے میں قانون کی عملداری کے حوالے سے بعض بنیادی اہمیت کے سوال سامنے آئے ہیں۔ یہ سوالات قانون کا احترام کرنے والے معاشرہ کی تشکیل کے حوالے سے اہم ہیں۔ قانون کی بالادستی اور ملک کے آئینی اداروں کا احترام نافذ کروانے کے لئے ہی آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا اور اسی مقصد سے نیشنل ایکشن پلان بھی بنایا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے یوم دفاع کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ملک میں قانون شکن عناصر کے خاتمہ کے لئے خاص طور سے اس منصوبہ پر مکمل عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ وہ بہرصورت ملک میں قوانین کو موثر کرنے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ یہی بنیادی اصول ہے جس کی وجہ سے ایک معمولی جھگڑا ، اس ملک کے نظام کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔ اس لئے نہ تو اسے چند افراد کے درمیان روزمرہ کی لڑائی قرار دے کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی صرف فوج کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ خود ہی اپنے ان افسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق محفوظ رکھے، جوعام شہریوں کے طور پر عام علاقے میں ملک کے قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ جب انہیں روک کر چالان کرنے اور جرمانہ عائد کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے اور ڈیوٹی افسر پر پستول تان لیا۔

یہ ممکن ہے کہ موٹر وے پولیس کے اہلکاروں نے بدزبانی کی ہو یا اسلحہ دکھا کر فوجی افسروں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کی ہو۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ہوگی کہ موٹر وے پولیس کے اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے۔ وہ تیز رفتار گاڑیوں کو روک کر ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بادی النظر میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ڈرائیور یا کسی گاڑی میں سفر کرنے والا کوئی مسافر ایسے کسی حادثہ کے بعد اشتعال میں آئے بغیر ڈیوٹی آفیسر کا فیصلہ قبول کرلے تو تنازعہ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ جھگڑا اسی صورت میں ہو گا جب اپنی کسی سرکاری حیثیت کے زعم میں ڈیوٹی آفیسر کو حقیر سمجھتے ہوئے، اس کے فیصلہ کو مسترد کیا جائے گا اور اصرار کی صورت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سزا دینے کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ جھگڑا کرنے والے اور پستول تان لینے والے کسی شخص کو کنٹرول کرنے کے لئے اگر ڈیوٹی افسر ساتھیوں کو طلب کرتا ہے اور یہ اہلکار ہتھیار اٹھاتے ہیں تو اسے جائز طریقہ قرار دیا جائے گا۔ اس لئے اس بحث میں پڑے بغیر بھی کہ موٹر وے پولیس یا فوجی افسروں میں سے کس کا بیان غلط اور کس کا سو فیصد درست ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈیوٹی پر موجود ہائی وے پولیس افسروں سے منہ ماری کرنے والا شخص اول تو اپنے عہدے کی وجہ سے غیر ضروری اور غیر قانونی گھمنڈ کا شکار تھا اور دوسرے یہ کہ اس نے اس تہذیب اور ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کیا جو ملک کی فوج کی تربیت کا بنیادی حصہ ہے اور جس کی وجہ سے یہ ایک کامیاب اور قابل احترام ادارے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

اس پس منظر میں اکوڑہ خٹک کے قریب چند روز قبل پیش آنے والا یہ سانحہ صرف فوجی قیادت کے لئے ہی قابل غور اور باعث تشویش نہیں ہے بلکہ ملک کی سول قیادت کے لئے بھی بے حد اہم ہے کہ وہ کس حد تک ملک کے قوانین کو سب کے لئے موثر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور کیوں کر اس ملک کے سارے شہری بلا تخصیص عہدہ اور حیثیت، قانون کے سامنے مساوی ہیں۔ اسی لئے جب فوج کا ادارہ تعلقات عامہ اس تنازعہ پر انصاف فراہم کرنے کا اعلان کر رہا ہے تو اس پر نہ تو بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فوج ہی کے چند افسروں یا تحقیقاتی کمیٹی کو اس جھگڑے کی جانچ کرنے اور اس پر فیصلہ صادر کرنے کا حق دیاجا سکتا ہے۔ اگر ایک فوجی نے مملکت پاکستان کے شہری کے طور پر قانون شکنی کی ہے یا اس پر اس قسم کا الزام عائد ہے تو اسے یہ امتیاز حاصل نہیں ہونا چاہئے کہ چوں کہ وہ اس ملک کے طاقتور ادارے کا رکن ہے، اس لئے اس کے ساتھ خصوصی سلوک روا رکھا جائے گا۔ فوج کا اندرونی نظام خواہ اپنے ان افسروں کے خلاف کتنی ہی سخت کارروائی کا فیصلہ کرے، اس سے قانون کے تقاضے اور اصول انصاف کی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔ ان فوجی افسروں کو اپنا موقف اس ملک کے شہری کے طور پر اسی عدالت کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور وہیں سے بے قصور یا قصوروار ہونے کا فیصلہ حاصل کرنا ہوگا جہاں ایسی خلاف ورزی اور قانون شکنی کرنے والے دوسرے شہریوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ فوج کی اندرونی کارروائی اس ڈسپلن کی خلاف ورزی کی سزا ہوگی جو متعلقہ شخص سے، باہر جا کر جھگڑا کرنے اور فوج کو بدنام کرنے کی صورت میں سرزد ہوئی تھی۔

اس معاملہ میں سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہو گا کہ عام شہری کے طور پر فوجی اہلکار قانون کو جوابدہ ہیں یا وہ من مانی کرنے کے مجاز ہیں کیوں کہ وہ فوجی کے طور پر ملک کے خصوصی شہری ہیں اور ان کا طاقتور ادارہ بہرصورت ان کو تحفظ فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ اگر اس طریقہ کو اصول کے طور پر تسلیم کیا گیا تو ملک میں عملی طور پر شہریوں کے کئی درجے قائم ہو جائیں گے۔ اگرچہ سیاسی اور سماجی رویوں اور مزاج میں کمی کے باعث اب بھی امتیازی سلوک کی کئی مثالیں سامنے آتی ہیں لیکن کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر فائز ہو یہ اعلان کرتے ہوئے یا تسلیم کرتے ہوئے حجاب ضرور محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کی وجہ سے قانون شکنی سے استثنیٰ چاہتا ہے۔ پھر ملک کا میڈیا اس قدر ’’خود مختار‘‘ ہو چکا ہے کہ کسی سیاستدان یا سول بیوروکریٹ کی طرف سے ایسا رویہ سامنے آنے کی صورت میں زمین آسمان ایک کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں سندھ میں صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخاب لڑنے والی ایک خاتون امیدوار نے پولنگ افسر کو تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ پورا ملک کئی ہفتے تک اس تھپڑ کی گونج کا اسیر رہا تھا۔ تاہم عام شاہراہ پر ایک فوجی کپتان کے پستول نکال لینے کی صورت میں یہی میڈیا مختلف قسم کی مصلحتوں یا پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے بندھن میں بندھا دکھائی دیتا ہے۔ فوج کو اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ایک جمہوری معاشرے کا اہم ادارہ کسی فوجی کی غلط روی پر کیوں سوال اٹھانے سے گریز کرنے پر مجبور ہے۔

تاہم اس سانحہ میں جو پہلو سب سے زیادہ تشویش کا سبب ہے اور جس کے لئے کسی قسم کی کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی، وہ دو فوجی افسروں اور موٹر وے پولیس کے درمیان جھگڑے کے بعد فوج کی نفری کا موقع پر پہنچ کر انصاف کرنے یا سزا دینے کا طریقہ ہے۔ ایک فوجی افسر کی ٹیلی فون کال پر اس کا سینئر افسر بیس تیس جوانوں کو لے کر موقع پر پہنچتا ہے اور کچھ جانے بغیر پولیس کے اہلکاروں کو زدوکوب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اسی پر بس نہیں یہ فوجی افسر اور جوان چار پولیس افسروں کو پکڑ کر اٹک قلعہ میں لے گئے اور وہاں، درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق، سزا کے طور پر ایک گھنٹہ تک شدید دھوپ میں کھڑا رکھا گیا اور بعد میں چار گھنٹے تک حبس بے جا میں رکھا گیا۔ موٹر وے پولیس کے اعلیٰ افسروں نے سینئر فوجی افسروں کی منت کر کے اپنے اہلکاروں کو اس ’’حراست‘‘ سے رہائی دلوائی۔

فوج کے اس میجر میں جو اپنے ایک کپتان کی صدا پر اپنے جوان لے کر کارروائی کے لئے پہنچا تھا اور کسی علاقے میں دہشت نافذ کرنے والے کسی غنڈے میں کیا فرق رہ گیا جو اپنے آدمیوں کی بازپرس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرتا ہے۔ فوج ایک قابل احترام اور ایک خاص ضابطے کے تحت چلنے والا ادارہ ہے۔ اگر اس میں ایسے افسروں کو برداشت کیا جائے گا جو قوم کے ایثار اور احترام کی وجہ سے حاصل ہونے والی قوت کو کسی عام قانون شکن کی طرح استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تو ان کے ساتھ سلوک بھی اس قانون شکن جیسا ہی ہونا چاہئے۔ جو فوجی افسر اپنے عہدے کا احترام اور اپنے ادارے کی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے وہ اس قوم کا دشمن سے کیسے دفاع کر سکتے ہیں۔

رینجرز یا ایف سی کے اہلکاروں کی طرف سے حراست کے دوران شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں۔ ڈیوٹی کے دوران بعض اہم شخصیات کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں۔ لیکن ان تمام معاملات میں یہ عذر پیش کیا جا سکتا ہے کہ متعلقہ فوجیوں نے ڈیوٹی نبھائی تھی یا وہ ڈیوٹی کے دوران کوئی کارروائی کر رہے تھے۔ ایسے میں ہونے والی زیادتی کی تحقیق بلاشبہ فوجی افسر اور تحقیقاتی ٹیم کر کے فیصلہ کر سکتی ہے۔ تاہم جب فوجیوں کی پلٹن سرکاری گاڑیوں پر سرکاری اسلحہ سے لیس ایک نجی جھگڑا نمٹانے کے لئے اپنی بیرکوں سے نکلتی ہے تو اس کی حقیقت اس دہشت گرد ٹولے سے مختلف نہیں ہوتی جو اپنی مرضی کے نظام یا سلوک کا مطالبہ کرتے ہوئے قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔

پاک فوج ملک سے قانون شکنی کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایک مہذب معاشرے کے خلاف برسرپیکار دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے برسرپیکار ہے۔ ان فوجیوں کی اصل طاقت اس اسلحہ اور بارود میں نہیں ہے جو وہ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ قانون کی عملداری کا اصول ان کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ اگر فوج کے ہی کچھ لوگ اس اصول کا احترام کرنے سے انکار کرتے ہیں اور فوج اس بدعملی پر ایک ادارے کے طور پر ان عناصر کو پناہ فراہم کرتی ہے، تو وہ اس اخلاقی برتری سے محروم ہو جائے گی جو اسے ملک میں امن بحال کرنے کی جنگ میں شرپسندوں پر حاصل ہے۔

جنرل راحیل شریف کو بطور آرمی چیف اور نواز شریف کو بطور وزیراعظم اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے یہ اصول طے کرنا پڑے گا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے والا قانون شکن پہلے ہے، فوجی بعد میں۔ کوئی قانون شکن کسی احترام اور تحفظ کا مستحق نہیں ہوتا۔ اس اصول کو تسلیم اور نافذ کئے بغیر پرامن مہذب معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments