فرمانبردار داماد، ساس جی اور کتورہ,


اس کتورے کو تو میں نے بڑے پیار سے پالا تھا۔ اور اسے کاٹنے کی تربیت دی تھی۔ مگر وہ کاٹنے کی عادت چھوڑ کر گوروں کے کتوں کی \"tajطرح امن پسند بن گیا تھا ۔ اس کی یہ عادت مجھے گوارہ نہیں تھی۔اسلئے گلی میں پکڑ کر اس کی پٹائی شروع کردی ۔اور اس نے چاؤں چاؤں شروع کردی۔ آواز سن کر میرا پڑوسی بشیر خان گھر سے نکلا اور مجھے کہنے لگا۔ ”ارے او  آدم خان کے بچے کیوں اس معصوم کتورے کے پیچھے پڑے ہو کیا تمہیں کاٹ لیا ہے؟“

”ہاں اس نے مجھے کاٹا تھا مگر میں نے اسے کچھ نہیں کہا تھا کیونکہ اس وقت میں اسے کاٹنے کی تربیت دے رہا تھا۔ پھر ایک دن میرے بیٹے کو کاٹ لیا میں نے تب بھی کچھ نہیں کہا کیونکہ غلطی سے تمہارا بیٹا سمجھ کر کاٹا تھا ۔ پھر ایک دن ایک خود غرض قسم کے مہمان نے میرے گھر آ کر ڈیرے لگا دئے ۔ اس  پر ایسا جھپٹا مار ا کہ اس کی ٹانگ سے گوشت کا پورا ٹوٹا لے اڑا۔ میں یہ سوچ کر چپ رہا کہ تربیت کامیاب رہی ۔ اس نے اپنا فرض ادا کردیا ورنہ وہ خود غرض شخص ساری عمر میرے گھر مہمان بن کر بیٹھا رہتا“۔

” تو آج کیا ہو گیا جو اس غریب کی شامت آگئی ؟“

”دیکھئے نا آپ خود انصاف کریں ۔ میری پیاری ساس، درخانئ کی والدہ ماجدہ پورے ایک ماہ سے میرے گھر پڑی ہے ۔ رات بھر کھانستی رہتی ہے مگر جانے کا نام نہیں لیتی \”۔

” ساس تمہاری ہے اس  غریب کا کیا قصور؟“

” یہ کتے کا بچہ دم ہلا ہلا کر اس کے آگے پیچھے یوں پھرتا ہے جیسے اس کی ماں ہو اسے کاٹنے کا نام تک نہیں لیتا“۔

”دفع مارو ایسے کتے کو ۔ جو ساس کو نہ کاٹے ایسا کتا کس کام کا۔ لے جا کر کسی اونچی پہاڑی سے نیچے پھینک کر جان چھڑاؤ“۔

” یہ بھی میں کر چکا ہوں ۔ دریا کنارے پہاڑی سے نیچے گہرے پانی میں پھینک دیا تھا کہ ڈوب جائیگا مگر یہ کتے کی اولاد تیرنے کا ماہر نکلا ۔ مجھ سے پہلے گھر پہنچ چکا تھا اور دم ہلا ہلا کر ساس کی چاپلوسی کر رہا تھا“

” آدم خان یہ کتورا تمہیں ڈبو دیگا“۔

” کتورے کی تو بات چھوڑو، میری اپنی بیوی مجھے طعنے دیتی ہے کہ ماں کو آئے ایک ماہ ہو گیا اور تم اتنے بے حس ہو کہ نہ مرغ لائے ،نہ گوشت، نہ کوئی حلوہ پوڑی ۔ کان آنکھیں بند کر رکھی ہیں“۔

میرا دماغ جل رہا ہے اور یہ کم بخت مرغ گوشت اور حلوہ پوڑی مانگ رہی ہے۔  یہ سب قصور باوا آدم کا ھے۔ اگر ہمارے مستقبل کی بہتری کے لئے ذرا سا بھی غور فکر کرلیتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ہم آرام سے بیٹھ کر جنت کے مزے لے رہے ہوتے ۔ بہتے دودھ کی نہر کے کنارے ، پھلدار درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر تازہ تازہ میٹھے پھل درختوں سے توڑ کر کھاتےاور نہر کا ٹھنڈا ٹھنڈا دودھ پیتے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی، نہ گرمی ہوتی، نہ سردی، نہ مکھی مچھر کا خوف ہوتا، نہ بجلی کی لوڈ شڈنگ کا سیاپا

اللہ جانے بابا آدم کو کونسی تنہائی کا غم کھا گیا تھا کہ اللہ سے فریاد کرنے لگا کہ ایک ساتھی، ایک درخانئ  بخش دے ۔ اللہ کو بھی نہ جانے کیوں اس پر رحم آگیا کہ ساتھ دینے کو ایک عدد درخانئ بخش دی مگر جہیز میں ابلیس خبیث کو بھی حوالے کردیا ۔ اس نے دونوں کو ایسا ورغلایا کہ جنت سے چھٹی کروادی ۔اور درخانئ کی اولاد جب جوان ہوئی تو وہ ساس بن گئی او ہم نے  اس ساس سے چھٹکارا پانے کے لئے کتے پالنا شروع کردئیے۔

اس کتے کے بچے کو درست کرنے کے لئے ابھی دو چار بینت ہی لگائے تھے کہ وہ اندر دوڑ پڑا میں اس کے پیچھے اندر چلا گیا ۔ ساس نے دیکھا تو غصے سے بولی کیوں اس معصوم کے پیچھے پڑے ہو۔ او ر اسے اٹھانے کیلئے بازو پھیلا دئے ۔ کہ اسے گود میں اٹھا لے ۔ کتورا تو مجھ سے خار کھائے بیٹھا تھا  جونہی ساس نے  اسے ہاتھ لگایا اس نے وہی ہاتھ کاٹ لیا ۔ دبا کر دانت گاڑ دئے ۔ ساس چیخ اٹھی او ہاتھ زور سے جھٹکے مگر کتورے نے دانت گہرے گاڑھے تھے ذرا دانت ڈھیلے ہوے تو کتورا نیچے گرا اور باہر کو دوڑا ۔ میں سمجھ گیا کہ اس نے اپنا فرض پورا کردیا ۔ اب وہ انعام کا حق دار بن گیا ہے ۔ اندر جاکر فرج کھولا ۔ درخانئ نے ماں کیلئے گوشت کا ایک عمدہ ٹوٹا رکھا تھا میں نے سوچا اب اس گوشت کے کے ٹوٹے کا اصلی حقدار درخانئ کی ماں نہیں ، میرا کتورا ہے۔ گوشت نکالا اور باہر نکل آیا۔ کتورا باہر دروازے کے پاس ہی کھڑا تھا ۔ میرے ہاتھ میں بینت کی بجائے گوشت دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آگئی اور دم  ہلاتے میرے پاس آیا۔ تو میں نے اسے گود میں اٹھا لیا۔

بشیر خان وہیں اپنے دروازے کے سامنے ابھی تک کھڑا تھا ۔ یہ بدلی صورت حال دیکھ کر بول اٹھا ” کیوں آدم خان ! یہ ذرا سی دیر میں کیا انقلاب آگیاْ ابھی اسے مار پڑ رہی تھی اور ابھی اس کی خاطر تواضع گوشت سے ہو رہی ہے؟“

” بشیر بھائی کیا بتاؤں کتورا تو ایک نمبر نکلا ۔ ساس کے ہاتھوں پر ایسا کاٹا کہ اب وہ چیخ رہی ہے اور بیٹی سے کہہ رہی ہے میرا سامان باندھ دو میں یہاں اب ایک منٹ کیلئے نہیں ٹہر سکتی اپنے گھر جارہی ہوں“۔

” سچ؟“

” ہاں جی ۔ کتورا لاجواب نکلا“۔

” یار آدم خان، یہ کتورا چند دن کیلئے مجھے ادھار دے دو۔ میری ساس بھی بہت دنوں سے میرے گھر ڈیرہ لگائے بیٹھی ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments