ہم کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں؟



\"tanveer تاریخ پڑھیں تو ایک بات بہت واضح ہوجاتی ہے اگر کسی قوم کو مغلوب کرنا ہے اگر کسی ملک کو فتح کرنا ہے تو اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس قوم کے لڑنے والوں کو قوم کے دفاع کرنے والوں کو اپنے ساتھ ملالیا جائے بالفرض اگراگر کوئی ساتھ دینے کے لئے اپنی قوم سے غداری کرنے کیلئے تیار نہ ہوتو پھر ان لڑاکوں کی کردارکشی کی جائے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے انہیں اپنی قوم میں مشکوک بنادیا جائے قوم اوران لڑاکوں کے درمیان فاصلے پیدا کیے جائیں یہاں تک کہ قوم ان پر اعتماد کرنا چھوڑدے اورجب دشمن حملہ کرے تو عام عوام اپنے جنگجوؤں کا ساتھ دینے کے بجائے دشمن کو مسیحا جانے اور ان کا ساتھ دے۔

تاریخ بھی ایک عجیب ہی منظر کشی کرتی ہے جہاں ہمیں میرجعفراورمیرصادق نظر آتے ہیں جو ٹیپوسلطان کی یقینی فتح کو شکست میں بدل دیتے ہیں۔ ہمیں بہادرشاہ ظفر کے مصاحبین نظر آتے ہیں جو کہ بادشاہ کو قلعے سے باہر نہیں آنے دیتے یوں ڈھائی ہزار انگریزفوج دس ہزار پر مشتمل باغیوں کی شکست دے دیتی ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں اپنا مشرقی پاکستان بھی تو اسی طرح ہاتھ سے گیا ہے۔ اندرا گاندھی نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ \”آج ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا\”۔ اس طعنے کا بھی پس منظر یہی ہے کہ بنگال میں احساس محرورمی پیدا کیا گیا ورنہ تاریخ شاہد ہے کہ مغربی پاکستان والے بھی کسی جنت میں نہیں رہتے تھے بلکہ یہاں بھی بھوک وافلاس کے ہی ڈیرے تھے۔ بھارت نے پروپیگنڈہ کیا فوج کو بدنام کیا مکتی باہنی کی کارروائیاں فوج کے کھاتے میں ڈالی گئیں۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے اپنی لاعلمی اورکم عقلی کا بھرپور ثبوت دیا اور بھارتی پروپگینڈے کو مزید تقویت بخشی۔ مارشل لاء کی آڑمیں فوج کو بدنام کیا گیا اور تاریخ نے دیکھا کہ کس طرح اپنے ہی ملک کی عوام نے فوج کا ساتھ نہیں دیا اپنے دفاع کرنے والوں سے لاتعلقی ظاہر کی ان کے لئے لڑنے والوں کے بجائے دشمن کاساتھ دیا۔ ہندوستان کو مسیحا جانا اورپھر بنگلہ دیش بنا لیکن یقین جانیں نہ تو بھارت نے بنگالیوں کوکبھی قبول کیا اور نہ ہی اس کی موجودہ پالیسیاں اس کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں بلکہ بھارت نے اب تک بنگالیوں کو نقصان ہی دیا ہے۔

حال ہی میں موٹروے پولیس کے کانسٹیبل اور آرمی کے دوافسروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور مبینہ طور پر ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ شاید یہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سوشل میڈیا اورالیکٹرانک میڈیا پر ہر دوسرے تجزیہ کاراینکرکی زبان پر یہی معاملہ تھا۔ میں کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہا ہے لیکن بظاہر جس قسم کی فضا قائم کی گئی اور جس انداز میں فوج کی کردارکشی کی بھرپور کوشش کی گئی اس سے کوئی سوالات اٹھتے ہیں۔

اگر مان بھی لیں ہمارے فوجی جوانوں کی غلطی ہے تو کیا ہمیں یوں سربازار اپنے فوجیوں کی عزت نیلام کریں گے ؟ سب کو پتا ہے کہ بھارتی نیوی میں کیا ہوتا ہے سب کے علم میں ہے کہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ تامل ناڈو میں کیا ہورہا ہے سب کو پتا ہے کہ راجھستان میں کیا چل رہا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ بھارتیہ پنجاب میں کیا صورتحال ہے۔ سب کو پتا ہے کہ خالصہ تحریک زوروشورسے جاری ہے۔ سب کے علم میں ہے کہ بھارت خواتین کیلئے دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہمارے ان مہان دانش وروں اینکرپرسنز کالم نگاروں کی زبان سے ایک لفظ تک نہیں نکلا چلیں چند گنے چنے محتاط انداز میں تحریر کئے گئے کالم بھی مان لئے یہ بھی مان لیا کہ جناب بھارت کا معاملہ ہے ہم تو اپنا ملک دیکھیں گے تو میرے عزیزوں کوئی بتائے گا کبھی بھارتی میڈیا پر آرمی کا کوئی مسئلہ اس طرح سے زیر بحث آیا اس انداز میں آرمی کی تزلیل کی گئی۔ اور یہ کیا بلڈی سویلینز لگا رکھا کچھ تو خوف خدا کریں یہ آرمی ہی ہے جو کہ بلا تفریق سب کی ہے۔ آرمی کو متنازعہ بنا کر آپ کس کو خوش کرنا چارہے ہیں؟

ایک اہم سوال یہ ہے کہ عام عوام آج بھی اپنی فوج کی ساتھ ہے سروے کرالیں۔ اور یہ موٹروے پولیس کچھ بہتر ضرور ہے لیکن جو حال ہمارے ہیں ٹریفک پولیس اورشہری پولیس کا ہے ان سے اللہ ہی بچائے۔ عام عوام کا واسطہ روزانہ کی بنیاد پر ان ٹریفک والوں سے پڑتا ہے اور ان کو بھگتنا بھی پڑتا ہے۔ عوام نے سیلاب کے دوران فوج کو بھی دیکھا ہے۔ لہذا کم ازکم مخصوص لوگوں کی آراء کو عوامی رائے قرار دینا یقیناً ناانصافی ہے۔ ہماری عوام کی عظیم اکثریت صرف اتنا لکھنا پڑھنا جانتی ہے کہ بمشکل اپنا نام لکھ سکے۔ بالکل اسی طرح عوام کی نظر میں یہ سارے پولیس والے ایک جیسے ہیں۔ دیکھنا میں یہی آیا ہے کہ ہم ایسا سماں باندھتے ہیں کہ عوام نے مذمت کی عوام کی یہ رائے ہے عوام میں شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ ارے بھائی کوئی بتائے تو سہی کہ عوام سکھر میں رہنے والا خیرالدین ہے عوام ہری پورکے گاؤں باغدرہ میں رہنے والارشیداعوان ہے۔ عوام بنوں کا رہنے والا نعمت اللہ ہے جو کہ فوج سے محبت کرتا ہے جو اپنے جوانوں کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرسکتا آپ کی باتوں سے ان کا دل دکھتا ہے کم ازکم عوام کی دل آزاری تو نہ کریں۔ یہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے مخصوص مائنڈسیٹ کے آٹے میں نمک سے بھی کم لوگ ہرگزعوام نہیں کہلاسکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments