اس ذہین نوجوان کو لڑکیوں سے نفرت تھی


اُن کی اِن خامیوں کے باوجود ہم ان کے دوست تھے۔ ان کی کسی باتوں کا برا نہیں مانتے، ان کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں بھی مزہ آتا۔ وہ گالیاں خوب دیتے، گندی گندی گالیاں غلاظت سے بھری ہوئی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عام لڑکے نہ تو ان سے ملتے اور نہ ہی دوستی کرتے۔ ان کی اپنی کلاس میں بھی ان کا کوئی خاص دوست نہیں تھا۔ ان کے زیادہ تر دوست ان کے جونیئر تھے، ہمارے جیسے جاہل جو ان سے کچھ پڑھنا چاہتے یا ان کی گالیوں سے لطف اندوز ہوتے۔ ہمارے فرسٹ پروفیشنل کے نتائج کے بعد ہی ان کے تھرڈ پروفیشنل کے نتائج آگئے۔ انہوں نے ایک بار پھر چوتھے سال کے مضامین میں سب سے زیادہ نمبر لے لیے تھے۔

ہمارا تیسرا سال بھی خوب گزرا۔ پہلی دفعہ وارڈوں میں ڈیوٹیاں لگیں۔ ہم آٹھ کے گروپ میں سے تین لڑکے تین دوسرے گروپوں میں چلے گئے۔ ہمارے کلینکل گروپ میں دو دوسرے لڑکے اور پانچ لڑکیاں آگئیں۔

کلینک پوسٹنگ بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ دوسرے سال کے پاس ہونے کے بعد پہلی دفعہ مریضوں سے سامنا ہوتا ہے اسٹیتھواسکوپ استعمال کرنا سکھایا جاتا ہے۔ پہلی دفعہ لوگ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کہہ کر بلاتے ہیں۔ یکایک غیرارادی طور پہ غرور سا اندر بھرجاتا ہے۔

پہلے دو مہینوں کے بعد جب وارڈ اور مریضوں کا سحر ٹوٹا تو بہت دنوں بعد بہت دیر تک سلیم بھائی کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا۔ شام کوکینٹین میں سب کے جانے کے بعد اتفاق سے اس دن ہم دوبارہ آٹھ کے آٹھ وہاں موجود تھے۔

”زنانیوں کی وجہ سے گروپ ٹوٹ گیا نا تم لوگوں کا! “ سلیم بھائی نے زور سے کہا۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ غصے میں کہا ہوا جملہ تو نہیں ہے مگر اس میں مذاق کا عنصر بھی شامل نہیں۔ پھر باتوں باتوں میں انہوں نے لڑکیوں اور عورتوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کیں کہ پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ یہ عورت ذات سے ہی متنفر ہیں۔ بہت زہر بھرا ہوا تھا ان کے دل میں۔ تمام لڑکیاں خودغرض تھیں ان کے خیال میں۔ اس قابل تھیں ہی نہیں کہ ان سے کسی بھی قسم کی دوستی میل ملاپ رکھا جائے۔

ان کا خیال تھا کہ یہ لڑکیاں عورتیں بس ہر وقت مردوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔ سمجھتی ہی نہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مرد ان کی مکاری کا شکار ہوجائے۔ عورتوں کے بارے میں ان کے نظریات سے سخت کوفت ہوئی ہم سب لوگوں کو۔ ان کے خیال میں زندگی میں جتنی عورتیں ملی تھیں انہیں ان کی آنکھوں میں تو نجانے کیا بھرا ہوا تھا۔

میں ان سے نفرت تو نہیں کرسکا مگر تکلیف ہوئی مجھے۔ ایک افسوس سا ہوا کہ اتنا قابل آدمی، اتنا ذہین شخص کیوں اس طرح کی باتیں کررہا ہے۔
آٹھ دس گندے لطیفوں اور بے شمار گالیوں کے بعد وہ شام اختتام کو پہنچی۔

تھرڈ ایئرکے امتحان آگئے اور پھر سلیم بھائی نے اسی طرح سے ہماری مدد کی۔ اخیر کے دو مہینوں میں، میں پھر ہاسٹل آگیا اور پڑھنے کا وہی پرانا طریقہ اختیار کرلیا گیا تھا۔ اس دفعہ میوزیم اور لیب کی ضرورت نہیں تھی۔ فارماکولوجی اور فارنسک میڈیسن میں تو سمجھنا اور رٹنا ہی تھا۔ صبح کالج، دوپہر کے بعد لائبریری اور رات کھانے کے بعد سارے گروپ کا سوال جواب۔ سلیم بھائی کی مدد ویسے ہی حاصل ہوگئی تھی۔

کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پڑھنے کے بجائے سب نے پروگرام بنالیا کہ پہلے نو سے بارہ پرنس سینما میں نئی انگریزی فلم دیکھنی ہے یا قسمت ٹاکیز میں ڈبل پروگرام دیکھنا ہے یا رینو میں نئی پنجابی فلم دیکھنی ہے جس میں قیامت کے ڈانس ہیں۔ یہ سارے پروگرام یکایک ہی بنتے اور عام طورپر ان پروگراموں می سب ہی لوگ شامل ہوجاتے، ہاسٹل میں موجود سینئر اور جونیئر لڑکے، سلیم بھائی بھی ہمیشہ ساتھ ہوتے۔

کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میٹروپول کے پاس پیلس سینما یا صدر کے پیراڈائزمیں فلم دیکھی پھر صابر کی نہاری کھائی یا برنس روڈ پر مرچوں والا کھانا کھایا اور ہاسٹل میں آکر سوگئے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ رات کو سوالوں جوابوں کا سلسلہ دیر تک چلتا پھر کوئی کہتا کہ چل کر ٹاور پر باکڑا کھاتے ہیں اور پھر رات گئے تک باکڑا ریسٹورنٹ میں کھانا کھا کر بندر روڈ پر ٹہلتے ہوئے کراچی کی سوندھی سوندھی ہواؤں کے نشے میں چور ہوکر اپنے اپنے بستروں پر پڑجاتے تھے۔

ایسے میں کئی دفعہ یہ بھی ہوا کہ مجھے سلیم بھائی کے کمرے میں سونا پڑا کیوں کہ کسی نئے بندے کے بڑھ جانے کی وجہ سے بستروں کی کمی پڑگئی۔ سلیم بھائی ہر ایک کو اپنے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ مگر میرا معاملہ اور تھا مجھ پہ جیسے بھروسا تھا ان کو۔

ان کی نیند بڑی عجیب ہوتی تھی۔ وہ بار بار جاگتے، بستر پر کروٹیں بدلتے۔ کبھی ایک طرف کبھی دوسری جانب۔ ایک عجیب قسم کا انتشار ہوتا تھا ان کی نیند میں۔

ان کا کمرہ بہت صاف ستھرا ہوتا۔ چمکتا ہوا فرش، گرد سے صاف چیزیں، قاعدے سے رکھی ہوئی کتابیں، صاف ستھرے پردے، صاف ستھری چادر اور صاف ستھرے تولیے رومال اور کپڑے۔ مجھے کبھی بھی اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہ کتنے گھنٹے سوتے ہیں، کب پڑھتے ہیں، کب پڑھاتے ہیں، کب کمرے کو صاف کرتے ہیں، جھاڑو دیتے ہیں، پوچا لگاتے ہیں؟

ایک اور عجیب بات تھی کہ وہ کبھی بھی کسی کے گھر نہیں جاتے تھے۔ کئی دفعہ میں نے جب دوستوں کو گھر پر بلایا تو انہیں بھی بلایا یا دوسرے دوستوں نے کوئی دعوت کی تو انہیں بھی مدعو کیا مگر انہوں نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ کردیا۔ بہت دنوں تک ان کے نہ آنے کی وجہ ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ ان کا خیال تھا، اگر وہ کسی کے گھر جائیں گے تو انہیں بھی کسی نہ کسی کو اپنے گھر بلانا پڑے گا، شاید یہ انہیں گوارا نہیں تھا۔

ان کا گھر کراچی میں ہی تھا مگر بہت کم وہ گھر جاتے۔ یہاں تک کہ اتوار کے چھٹی والے دن بھی وہ ہاسٹل میں ہی نظر آتے۔ یہ ایک خفیہ بات تھی۔ کوئی کہتا کہ ان کے سوتیلے باپ ہیں جن سے ان کی نہیں بنتی، کوئی کہتا کہ سوتیلی ماں نے انہیں گھر سے نکال دیا ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ ان کی بڑے بھائی بہنوں سے نہیں بنتی ہے۔ دس لوگ دس طرح کی باتیں کرتے مگر مجھ میں کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ میں ان سے پوچھتا کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟

میں تھرڈ ایئرپاس کرکے چوتھے سال میں چلا گیا اور سلیم بھائی فائنل ایئر امتحان میں بھی اول پوزیشن لے کر ڈاکٹر بن گئے۔ انہوں نے اپنا کمرہ مجھے دے دیا کیوں کہ وہ ڈاکٹروں کے ہاسٹل میں چلے گئے تھے اور میں بھی چاہتا تھا کہ ہاسٹل میں ہی آجاؤں۔

اپنے ہاؤس جاب کے دوران بھی ان کا ہم دوستوں سے تعلق نہیں ٹوٹا۔ وہی گالیاں، وہی گندے لطیفے، وہی رات کی فلمیں، وہی رات کا کھانا اور اسی طرح سے پڑھائی میں ہم سب کی مدد۔ وہ تکلیف دہ شخصیت کے ہونے کے باوجود کالج اور ہسپتال کے مخصوص طبقے میں بہت پسند کیے جاتے، گو کہ ان سے نفرت کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4