بچے چڑیاں ہوتے ہیں، مچھلیاں ہوتے ہیں


پشاور آرمی سکول کے تقریباً ڈیڑھ سو بچوں کے قتل عام کے بارے میں ، میں نے بہت دن کچھ نہ لکھا، ان کے سروں میں گولیاں مارنے والے، اُن کی ایک ٹیچر کو زندہ جلا دینے والے سورماؤں کے بارے میں کچھ نہ لکھا اور پھر خبر ملی کہ پورے پشاور میں اُن کے لئے تابوت کم پڑ گئے تھے چنانچہ ہنگامی طور پر اناڑی ترکھانوں سے تابوت بنوائے گئے جو بچوں کی لاشوں کے سائز کے نہ تھے تو وہ اُن میں لڑھکتے پھرے اور تب میں نے ’’اے مرے ترکھان‘‘ ایک کہانی لکھی، ایک بوڑھا شخص ایک ترکھان کی منت سماجت کر رہا ہے اور وہ ترکھان بھی کب کا مر چکا ہے کہ اے مرے ترکھان میرے لئے کچھ تابوت گھڑ دے، تیرے بچے جئیں کچھ تابوت بنا دے، میرے بچے نہیں جئے۔

پھر چارسدہ یونیورسٹی پر بھی ہمارے کچھ لاڈلوں اور بہادروں نے کچھ بچے یونہی تفریحاً ایک مقدس مقصد کے لئے مار ڈالے تو پھر اُسی ترکھان سے رجوع کیا تو اُس نے کہا، میں آخر کتنے تابوت بناؤں، پاکستان کے جنگل کم ہو گئے ہیں، اتنی لکڑی کہاں سے لاؤں۔ میں تابوت گھڑتا تھک گیا ہوں کیا تمہارے کندھے بچوں کے جنازے ڈھوتے نہیں تھکے۔ گلشن اقبال میں ایک اور کربلا برپا ہوئی تو اُس ترکھان نے تنگ آ کر کہا۔ ان بچوں نے تو ذرا سے بارود سے گوشت کے لوتھڑے ہو جانے کی عادت ہی بنا لی ہے۔ مکھیوں کی طرح مرتے جاتے ہیں اور وہ مارتے جاتے ہیں جن کی ہم غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرتے اُنہیں صحابہ کرامؓ کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں تو اُن سے کہو کہ وہ خود بچوں کے لئے تابوت مہیا کریں اور دوہرا ثواب کمائیں، بلکہ ہمیشہ کہ وہ بہت رحم دل ہیں یہاں تک کہ وہ اغوا شدگان کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ وہ دوچار برس کی قید کے بعد ہٹّے کٹّے واپس آتے ہیں اور پھر بھی ہم اُن کو بُرا کہتے ہیں، کیسے ناہنجار اور ناشکرے ہیں۔ تو وہ تابوت اپنے ساتھ لائیں اور اُن کے سائز کے مطابق بچوں کے قد ناپ کر اُنہیں ہلاک کریں کہ وہ خدا ترس لوگ ہیں۔

اب یہ حقیقت ہے کہ ترکھان نے مزید تابوت بنانے سے انکار کر دیا ہے اور میرے کندھے بھی تھک چکے ہیں بچوں کے جنازے ڈھوتے اس کے باوجود کہ میں بھی ترکھان کی مانند بیزار ہو چکا ہوں، وہ تابوت گھڑنے سے تنگ آ گیا ہے اور میں لفظوں سے بچوں کی قبریں کھودتے تھک گیا ہوں۔ اس کے باوجود اگر میں گلشن اقبال کے مقدس دھماکے کے بارے میں ایک بار پھر اپنے کالم کی قبر بنا رہا ہوں تو صرف اس لئے کہ بہت سے بچے ماؤں کی گود میں مر گئے۔ اُن کے کومل بدنوں پر ایک خراش تک نہ آئی اور اس کے باوجود وہ مر گئے۔ دھماکے سے اُن کے مٹھی بھر دل تھم گئے۔ جیسے کسی بندوق کے فائر کا دھماکا ہو تو شجر میں چہچہاتی متعدد چڑیاں اُس دھماکے کے صدمے سے مر جاتی ہیں اور شجر کے گرد مری ہوئی چڑیوں کے انبار لگ جاتے ہیں، اُن کے بھی ننھے سے دل دھماکے کی دھمک سے رُک جاتے ہیں۔ بچے بھی چڑیاں ہوتے ہیں۔ جیسے کچھ لوگ کسی ندی یا جھیل کے پانیوں میں دھماکہ خیز بارود پھینکتے ہیں تو اُس کی شدت سے سینکڑوں مچھلیوں کے دل تھم جاتے ہیں، وہ خواہ مخواہ مر جاتی ہیں، بچے بھی مچھلیاں ہوتے ہیں۔

مجھے پہلے علم نہ تھا کہ بچے چڑیاں اور مچھلیاں ہوتے ہیں، ذرا سے دھماکے سے اُن کے دل رُک جاتے ہیں۔ مجھے علم تب ہوا جب امریکیوں نے عراق پر حملہ کر دیا۔ شہر بغداد پر گئی شب اُن کے سینکڑوں طیاروں نے بمباری کی اور کچھ امریکی پائلٹ بم برساتے ہوئے نعرے لگاتے تھے۔ فک بیگڈاڈ ۔ اُس شب درجنوں عراقی بچے، مسلمان اور عیسائی بچے اپنی ماؤں کی گود میں دھماکوں کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گئے۔ اور ماؤں کو خبر ہی نہ ہوئی، وہ اُن کو لوریاں دیتی رہیں، جھلاتی رہیں اور ذرا حیرت میں آئیں کہ آج یہ اتنی جلدی سو گئے ہیں، ان کے رخساروں پر بوسہ دیتی ہوں تو یہ کچھ مردہ سے لگتے ہیں۔ ماؤں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ اُن کی گود ایک قبر ہو چکی ہے۔ میں نے اپنے ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ میں دھماکوں کی شدت سے مردہ ہو جانے والے بچوں کے بارے میں ایک باب تحریر کیا ہے۔

مجھے کیا معلوم تھا کہ میرے اپنے شہر میں بھی، اور یہ تو بغداد نہ تھا، اور نہ ہی اس پر امریکیوں نے حملہ کیا تھا، میرے اپنے بچے یوں ماؤں کی گود میں مر جائیں گے۔ میں نے کچھ تصویریں دیکھی ہیں، ایک بچہ ماں کی گود میں۔ اُس کا ننھا مُنا ہاتھ فضا میں بلند ہے، اکڑ چکا ہے، مر چکا ہے۔ گلشن اقبال جہاں بہت سی ماؤں اور بہنوں کے گلشن اجڑ گئے یقیناً ہنود و یہود کی سازش ہے۔ کوئی مسلمان یہ حرکت نہیں کر سکتا بے شک وہ ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگا کر حملہ آور کیوں نہ ہو۔ ویسے اب ہمارے ہاں ایک ’’اسکیپ گوٹ‘‘ ہے۔ ہم نے ہندوستانی نیوی کے ایک افسر کو پکڑ لیا ہے اور وہ باقاعدہ ثابت ہو چکا کہ ’’را‘‘ کا جاسوس ہے تو جو کچھ بھی بلوچستان، سرحد اور پنجاب میں ہو رہا ہے یہ اسی ایک جاسوس کے کارنامے ہیں۔

ویسے کمال کا ہر فن مولا جاسوس ہے۔ کچھ لوگ اور میں تو ہرگز ان میں شامل نہ تھا یہ امید کر رہے تھے کہ اسلام آباد میں جمع وہ لوگ جو یقیناً صدق دل سے ایک بڑے اور مقدس مقصد کے لیے احتجاج کر رہے تھے، شاید گلشن اقبال کے قتل عام کے بعد سوگوار ہو کر اپنا احتجاج ان کے غم میں موقوف کر دیں۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان سے کچھ شکایت نہیں کہ شکایت بھی کفر کے زمرے میں آتی ہے۔ شکایت تو ان بچوں سے ہے جو اپنی ماؤں کی گود میں دھماکے کی تاب نہ لا کر مر گئے۔

ہمارے بچے تھے یا چڑیاں تھے، مچھلیاں تھے، جن کے دل تھم گئے، قصور بچوں کا ہے، یہ جاننے کے باوجود کہ جنگل تمام ہوئے۔ ان کے تابوت کہاں سے لائیں تو انہیں اپنی ماؤں کی چادروں میں لپیٹ کر دفن کر دو۔ اگرچہ وہ شہید تو نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments