میرے عزیز ہم مٹن اور اللہ میاں کی گائے


\"Naheedisrar\"عید کی گہما گہمی اپنے اختتام کو پہنچی، اس وقت رات کے کوئی بارہ بجنے کو ہیں۔ اڑوس پڑوس کی چھتوں پر ہلکے ہلکے دھویں کے بادل نظر آرہے ہیں ساتھ ہی دن بھر کی بساند اور سڑکوں پر پڑی اوجھڑیوں سے اٹھتے تعفن پر قابو پانے کی ناکام کوشش کرتی فضا میں پھیلی تکوں کی اشتہا انگیز خوشبو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ سب بڑی عید روایتی جوش و خروش کے ساتھ منا رہے ہیں۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں یہ جوش و خروش رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس سے کئی دن پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔ چاند سے کئی دن پہلے ایک رات اچانک گلی میں شوروغل کی آوازیں سنائی دیں، نصیب دشمناں تھوڑی دیر کو تو یہ گمان ہوا شاید محلّے میں ڈاکو گھس آئے ہیں۔ تحقیق کرنے پر پتا لگا کہ گلی میں بقرعید کی پہلی گائے کی آمد ہو چکی ہے اور اس کے بعد قطار اندر قطار محلّے میں قربانی کے جانور آتے چلے گئے۔ جیسے جیسے جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے فضا میں چارے اور فضلے کی بدبو میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ صبح گھر کا دروازہ کھولتے ہی تازہ ہوا کی بجائے تعفن کا بھبکا ہمارا استقبال کرتا۔

قربانی سے دو دن پہلے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ گیٹ سے قدم باہر رکھتے ہی منہ سے بے اختیار \”ہولی کاؤ..!! \” (Holy Cow ) نکل گیا کیوں کہ گلی ایک چھوٹی بکرا منڈی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ قدم قدم پر فضلے اور چارے کے ڈھیر اور جانور پڑے تھے۔ ٹھیک اسی لمحہ ہماری حس شاعری نے انگڑائی لیتے ہوئے فٹ سے ایک شعردے مارا (شاعرسے معذرت کے ساتھ)۔

انہی مینگنیوں پہ چل کر گر آسکو تو آؤ

میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

اپنی شاعرانہ طبع کو دل ہی دل میں داد دیتے اور تازہ ترین شعر پر مزید تک بندی کرتے آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ ایک کار کی اوٹ سے انتہائی خرانٹ بکرا باں!! کرتا سامنے آگیا۔ اس ناگہانی آفت پر جان اٹک کے حلق میں آگئی!! بہرحال الٹے قدموں واپس ہولئے اور لمبا چکر کاٹ کر نسبتاً محفوظ راستے سے مرکزی گیٹ تک پہنچے۔ وہاں دیکھتے ہیں تو ایک ہجوم چوکیدار کو گھیرے کھڑا ہے۔ موبائل فون میں غرق پاس کھڑے ایک خاصے برخوردار قسم کے صاحب زادے سے استفسار کرنے پر جواب آیا کہ پچھلی گلی سے ایک بکرا چوری ہوگیا ہے اور اب سب چوکیدار کے پیچھے پڑے ہیں کہ اس نے بکرا گیٹ سے باہر جانے کیسے دیا۔ پھر مزید گویا ہوئے،\” میری سمجھ نہیں آتا آخر لوگ قربانی پر اتنے مہنگے جانور کیوں خریدتے ہیں، اتنے پیسوں میں تو کسی غریب لڑکی کی شادی ہو جائے\”۔ ہم ان کے ہاتھوں میں موجود گیلیکسی ایس سیون غور سے دیکھتے ہوئے بولے، \” دریں چہ شک، خدا ہم سب کو ایسی فضول خرچی سے بچائے اور ہدایت دے\”۔ موبائل سے نظر اٹھائے بغیر وہ آمین کہتے آگے روانہ ہو گئے اور جا کر ایک گاں سے ٹکرا گئے۔

ایسا نہیں کہ ہمیں قربانی کے جانوروں سے کوئی ذاتی بیر ہے۔ ہمیں جانور بہت پسند ہیں بشرطیکہ وہ پلیٹ میں ہوں اور ہم کھانے کی میز پر۔ بہرحال سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلز پر قربانی کے جانوروں کے ساتھ لوگوں کی والہانہ محبّت دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ پاکستانی جانور دوست قوم ہے شاید یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے ساتھ بھی ہم اکثر جانوروں جیسا ہی سلوک کرتے ہیں۔

اس عید پر ایک بات بڑی اچھی ہوئی، ڈاکٹر فاروق ستار صاحب نے عوام سے اپیل کی کہ اس بار قربانی کی کھالیں فیصل ایدھی کو دی جائیں، ساتھ ہی یہ شکایت بھی کی کہ جو کھالیں رضاکار بڑی محنت کے ساتھ لوگوں سے زبردستی حاصل کرتے ہیں انہیں بعض\” نامعلوم افراد \” چھین کر لے جاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ہم ڈاکٹر صاحب کا اعلان ابھی سن ہی رہے تھے کہ باہر کی گھنٹی بجی اور کوئی قربانی کی کھال کے لئے پرچی صحن میں ڈال کر چلا گیا (کراچی کے متنوع سیاسی ماحول کا انوکھا پہلو یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی پاور ویکیوم نہیں رہتا، کوئی نہ کوئی ضرور اس خلا کو بھرنے کے لئے موجود رہتا ہے) بہرحال موجودہ حالات کے پیشنظر یہ فیصلہ دانشمندانہ ہے امید ہے میٹھی عید پر فطرانے کے وقت بھی ڈاکٹر صاحب ایسی ہی بصیرت کا مظاہرہ کریں گے۔

جب تک یہ بلاگ آپ تک پنہچے گا شاید عید کا تیسرا یا چوتھا دن ہو بہرحال دیر سے آئے پر آئے تو سہی کے مصداق میرے عزیز ہم مٹنوں کو عید کی مبارکباد اور خاص مبارک باد ان مرغیوں کو جنہیں اس مبارک دن کے وسیلے سے ایکسٹینشن نصیب ہوگئی۔ بہرحال ہر مرغی کے لئے ایک دن اور چھری معین ہے (اس جملے کو ہرگز دو معانی میں نہ لیا جائے۔ ہمیں بکری کی موت مرنے کا بالکل شوق نہیں۔ ویسے بھی ہمارے منہ پھٹ انداز سے اماں جان خاصی خائف رہتی ہے اور ہر وقت خیر کی دعا کرتی ہیں، لیکن آخر کب تک)۔

ایک بار پھر عزیز ہم مٹنوں آپ سب کو عید قرباں مبارک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments