تعلیم سے محروم پناہ گزین بچے


\"malala\"اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت دنیا کے60 لاکھ پناہ گزین بچوں میں سے نصف سے زائد یعنی 37 لاکھ بچے بنیادی تعلیمی سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ رپورٹ 19 ستمبر سے نیویارک میں تارکین وطن اور مہاجرین کے بارے میں منعقد ہونے والی کانفرنس سے پہلے جاری کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے اس صورت حال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ اس سلسلہ میں اقدامات کرے اور جنگ زدہ علاقوں سے بے سروسامانی میں بے گھر ہونے والے محروم بچوں کی تعلیم کے لئے وسائل فراہم کئے جائیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے ذیادہ تر پناہ گزین ایسے ترقی پذیر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جو خود اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

پناہ گزین بچوں کے حوالے سے یہ صورت حال پورے عالمی سماج کے لئے ایک اہم چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے لیکن خاص طور سے ایسے طاقتور ملکوں کو اس بارے میں ذمہ داری قبول کرنی چاہئے جن کی مسلط کردہ جنگوں کی وجہ سے دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مہاجرین کی تعداد میں کمی کے لئے یورپی ملکوں نے پابندیاں عائد کرنے اور نئے قوانین بنا کر ان کی آمد کا راستہ عملی طور سے روکنے کا اقدام کیا ہے۔ اس طرح مہاجرین ایسے معاشروں میں جانے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں جہاں انہیں بنیادی سہولتیں حاصل ہوں اور بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لئے وسائل موجود ہیں۔ پناہ گزین بچوں کے بارے میں تیار ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے دنیا کے پناہ گزینوں کی تعداد اس وقت ذیادہ تر سات ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ ان میں پاکستان اور ترکی کے علاوہ، لبنان، چاڈ ، کانگو، ایتھوپیا اور کینیا شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر ممالک اپنی آبادیوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور بچوں کو تعلیم دینے سے قاصر ہیں ۔ اس لئے نئے آنے والے مہمانوں یا پناہ گزینوں کو وہ کوئی سہولتیں دینے کے قابل نہیں ہوتے۔ ایسی صورت میں دولتمند اور باوسیلہ ملکوں کا فرض ہے کہ وہ خاص طور سے بچوں کی تعلیم کے منصوبوں پر توجہ دیں اور اس کے لئے وسائل فراہم کریں۔ عام طور سے دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کانفرنس یا اجلاس کے موقع پر امداد دینے کے وعدے کر لئے جاتے ہیں لیکن بعد میں اس مد میں رقم مہیا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی کا کہنا ہے کہ پنا گزین بچوں کی تعلیم بنیادی اہمیت کا معاملہ ہے تاکہ ان بچوں کو بے راہروی سے بچاتے ہوئے معاشروں کی تعمیر کے کام کے لئے تیار کیا جا سکے۔ تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں یہ بچے صرف اپنے حالات ہی بہتر نہیں بنائیں گے بلکہ میزبان معاشروں کی تعمیر و ترقی میں بھی حصہ لیں گے ۔ اور جنگ کے خاتمہ اور امن قائم ہونے کی صورت میں جب یہ اپنے ملکوں میں واپس جائیں گے تو اپنے معاشروں کی تعمیر میں اہم خدمات سرانجام دے سکیں گے۔

دنیا آج اگر ان محروم بچوں کی تعلیم پر وسائل صرف نہیں کرے گی تو وقت کے ساتھ ان پڑھ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا جو نہ صرف معاشروں پر بوجھ بنیں گے بلکہ معاشرتی اور سماجی مسائل پیدا کرنے کا سبب بھی بنیں گے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ رپورٹ میں پیش کردہ ان معلومات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پناہ گزینوں میں صرف ایک فیصد نوجوان یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ دنیا میں اس کا تناسب 34 فیصد ہے۔ اسی طرح دنیا کے 84 فیصد کے مقابلے میں پناہگزین بچوں میں سے صرف 22 فیصد سکنڈری اسکول جاتے ہیں۔ پرائمری اسکول جانے والے پناہگزین بچوں کی تعداد 50 فیصد ہے جبکہ دنیا میں اس وقت 90 فیصد بچوں کو پرائمری تعلیم کی سہولت حاصل ہے۔

یہ اعداد و شمار انتہائی تشویش کا سبب ہیں اور انہیں تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے مالی وسائل فراہم کرنے کے علاوہ جنگوں کو محدود کرنے اور قیام امن کی کوششوں کو تیز کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments