خاندان کے حالات بدلنے میں ایک فرد کا کردار


\"habib\"یہ تصویر محمد حبیب صدیقی کی ہے۔ وہ پاکستان کے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے انگلش میں پی ایچ ڈی کی۔ وہ آج کل ٹیکساس میں رہتے ہیں۔ میں ان کو اس لئے جانتی ہوں کہ وہ میرے بڑے ماموں ہیں۔ حبیب ماموں انڈیا میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947 میں جب جب انڈیا کا پارٹیشن ہوا تو نانا نے اپنی پولیس کی نوکری انڈیا سے سکھر ٹرانسفر کرا لی تھی۔ ان کے ریٹائر ہونے کے بعد تک لوگ ان کو دیوان جی کہہ کر ہی پکارتے تھے۔ وہ پہلے گئے اور پھر میری نانی تین بچوں کے ساتھ ٹرین میں بیٹھ کر اکیلے پاکستان چلی گئی تھیں۔ رشید ماموں‌ نے ایک بار مجھے بتایا کہ ان کے سر میں‌ ابھی تک گومڑ سا بنا ہوا ہے۔ یہ سر میں‌ چوٹ تب لگی تھی جب ہر اسٹاپ پر لوگ ٹرین سے اتر کر جلدی جلدی بھاگتے تھے کیونکہ دہشت کا عالم تھا۔

حبیب ماموں سب سے بڑے تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سکھر میں ایک سرکاری اسکول سے حاصل کی، اس کے بعد اسلامیہ کالج سے ایم اے کیا۔ حبیب ماموں ایک اسٹوڈنٹ لیڈر تھے جو کالج کے میگزین میں لکھتے تھے اور اس کے علاوہ وہ تقاریر میں حصہ بھی لیتے تھے۔ حبیب ماموں کو سب جاننے والے دلیپ کمار کہتے تھے لیکن یہ ناانصافی ہے کیونکہ اپنی جوانی میں وہ دلیپ کمار سے کہیں زیادہ خوبصورت انسان تھے۔ تھے کیا بلکہ ہیں۔ انسان خوبصورت صرف شکل صورت اور قد و قامت یا عمر سے نہیں‌ بلکہ اپنے خیالات کی خوبصورتی اور اپنے اخلاق سے ہوتا ہے۔ لیجنڈ ہے کہ کالج میں لڑکیاں \”یا حبیبی!\” کہتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے جاتی تھیں۔ ان دنوں لاڑکانہ میں ایک انگریزی میں تقریر کا مقابلہ ہوا اور اس میں انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور ذوالفقار علی بھٹو سے میڈل وصول کیا۔ انہوں نے سرکاری نوکری کا امتحان پاس کرلیا تھا لیکن انہیں سندھ میں نوکری نہیں ملی کیونکہ ڈومیسائل انڈیا کا تھا۔ ان سے کم لیاقت کے لوگوں کو بہتر نوکریاں مل گئیں۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان کا دل اکتا گیا تھا اور وہ دور چلے جانا چاہتے تھے۔

نانی نے اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر کے ان کو امریکہ پڑھنے بھیجا۔ اس زمانے میں لوگ ولایت جاتے تھے، امریکہ تو اتنے لوگ نہیں جاتے تھے۔ معلوم نہیں کیسے ان لوگوں نے سوچا کہ امریکہ جائیں۔ میری امی آخری اور بڑی امیدوں سے ہوئی اولاد تھیں۔ باقی سب لڑکے تھے۔ بیٹی ہونے کی ان کو اتنی خوشی تھی کہ سر سے پیر تک کے زیور بنوائے گئے تھے۔ خاندان میں کہانی ہے کہ وہی زیور بیچ کر ماموں کو پڑھنے بھیجا گیا تھا۔ نانی صرف چالیس سال کی عمر میں کینسر سے چل بسیں۔ حبیب ماموں ستر کی دہائی میں امریکہ آئے، یہاں سے انگلش میں پی ایچ ڈی کی، اس کے بعد سعودی عرب میں کئی سال انگلش کے پروفیسر کی جاب کی۔ پھر اپنے دو بچوں کی تعلیم کے لئے واپس امریکہ آئے۔ امریکہ آکر انہوں نے میری ممانی کو یونیورسٹی بھیجا جہاں سے انہوں نے اپنی ڈگری مکمل کی اور ابھی تک پڑھاتی ہیں۔ ماموں ایک کمیونٹی کالج میں انٹر فیتھ کا کورس پڑھاتے ہیں۔ نانا خود بھی تعلیم پر بہت زور دیتے تھے اور پھر شائد بڑے بھائی کا اثر تھا کہ باقی سب نے بھی خوب محنت کی اور ترقی حاصل کی۔ اب سارے ماموں اور خالائیں ادھیڑ عمر یا بوڑھے ہیں اور امریکہ میں سیمی ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح‌ یوں‌ ہوا کہ سارا ننھیال انڈیا سے پاکستان اور پاکستان سے امریکہ سیٹل ہوگیا۔ یعنی کہ دو نسلوں‌ میں‌ دو ہجرتیں۔ دادا کی سائڈ کا کافی سارا خاندان انڈیا میں‌ ہی رہ گیا۔ دنیا کیسی گلوبل ہوگئی ایک ہی خاندان کے لوگ کہاں‌ کہاں ‌چلے گئے۔ فیس بک نہ ہوتا تو ایک دوسرے کی خبر بھی نہیں‌ ہونی تھی۔ اب کم از کم ایک دوسرے کے بچے انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔

بہرحال جب کوئی پوچھتا ہے کہ تم لوگ امریکہ کیسے آئے تو اس کا یہی جواب ہوتا ہے کہ بڑے ماموں کی وجہ سے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے تمام خاندان کو آگے بڑھایا اور دوسرے بھی بہت سارے لوگوں کی مدد کی۔ ہماری ریزیڈنسی کے دوران ایک مریض‌ افریقہ سے سفر کر کے آیا تھا تو اس کو ملیریا ہوگیا تھا۔ وہ پینسلوینیا میں‌ ایک منفرد کیس سمجھا گیا اور اس پر میں‌ نے رویو آرٹیکل لکھا تھا تو بڑے ماموں‌ نے فون کیا اور تعریف کی۔ جو لوگ خود پڑھنے لکھنے میں‌ دلچسپی رکھتے ہیں‌ ان کو ہی دوسروں‌ کا لکھنا پڑھنا اور سوچنا اچھا لگتا ہے۔ اور جو لوگ خود کچھ نہیں‌ پڑھتے وہ دوسروں‌ کو بھی آگے جاتا نہیں‌ دیکھ سکتے۔ اس پیپر میں میں نے اپنے نانا کا ذکر کیا تھا جن کو 80 کی دہائی میں‌ امریکہ آکر ملیریا ہوگیا تھا جو بہت مشکلوں سے تشخیص ہوا کیونکہ امریکہ میں ملیریا صرف باہر سے آتا ہے اور یہاں کے ڈاکٹر اس کو آسانی سے نہیں پہچان سکتے ہیں۔ ایک سال میں تین سو بیس ملین کی آبادی والے یو ایس اے میں صرف 1500 ملیریا کے کیس ہوتے ہیں۔ خاندان میں‌ یہ کہانی ہے کہ نانا کا چالیس بار خون نکالا گیا تو اس کے بعد جاکر ان کی تشخیص ممکن ہوسکی۔

ہمارے تمام خاندان میں ایک شخص بھی چاہے وہ خواتین ہوں یا مرد ایسا نہیں جو تعلیم یافتہ نہ ہو۔ جب تعلیم حاصل کی تو پیسے خود بخود پیچھے آ گئے۔ سب لوگ ایک آرام دہ مڈل کلاس زندگی بسر کرنے کے لائق بنے۔ ہماری دوستوں میں یا خاندان میں کبھی بحث ہوتی ہے دنیا کے کسی بھی علاقے کے خراب حالات پر تو لوگ حکومت کو بہت ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ حکومت کی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کی طاقت بھی زیادہ ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ لوگ انفرادی لیول پر بھی کوشش کریں تو وہ اپنے حالات بہتر کرسکتے ہیں۔ حکومت میں‌ افراد بھی تو اسی معاشرے سے آتے ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ مڈل کلاس ہی ہے جو اپنی حکومت کو مثبت رخ میں موڑ سکتی ہے۔ حبیب ماموں کی زندگی مثال ہے کہ ایک انسان بھی نہ صرف اپنی زندگی بدل سکتا ہے بلکہ وہ ایک تمام نسل کا رخ موڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments