روس کو افغانستان میں ہم کھینچ کر لائے تھے: امریکی صدارتی مشیر
افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے وقت امریکی صدر کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زبیگنیف برزنسکی کا 1998 میں ایک فرانسیسی جریدے ”لا نویل آبزرویتر“ کو دیا گیا ایک انٹرویو۔ اس سے سات مہینے پہلے جون 1997 میں وہ سی این این کی کولڈ وار سیریز میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکے تھے۔ سوویت یونین کی گرم پانیوں کی چاہ پر ابال کھانے والوں کے لیے یہ انٹرویو دلچسپ ہو گا۔ اور ان کے لیے بھی جو جہادیوں اور امریکیوں کی دوستی دشمنی پر حیران ہوتے رہتے ہیں۔
سوال: سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ گیٹس نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں نے سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت سے چھے مہینے پہلے ہی مجاہدین کو امداد دینی شروع کر دی تھی۔ اس دور میں آپ صدر کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر تھے۔ اس صورت میں آپ کا اس معاملے میں ایک کلیدی کردار رہا تھا۔ کیا یہ درست ہے؟
برزنسکی: درست۔ تاریخ کے آفیشل بیانیے کے مطابق مجاہدین کے لیے سی آئی کی امداد 1980 میں شروع ہوئی، یعنی سوویت فوج کے 24 دسمبر 1979 میں افغانستان پر حملے کے بعد۔ لیکن حقیقت، جسے اب تک بہت سختی سے راز رکھا جاتا رہا ہے، بالکل مختلف ہے۔ بلاشبہ، یہ تین جولائی 1979 کی تاریخ تھی، جب صدر کارٹر نے سوویت یونین کی حامی افغان حکومت کے مخالفین کو خفیہ امداد دینے کے حکم پر دستخط کیے تھے۔ اور یہ وہی دن تھا جب میں نے صدر کو ایک نوٹ لکھا جس میں میں نے وضاحت کی کہ میری رائے میں اس کا نتیجہ سوویت فوجی مداخلت کی صورت میں نکلے گا۔
سوال: اس خطرے کے باوجود، آپ اس خفیہ اقدام کے حامی تھے؟ لیکن شاید آپ خود اس جنگ میں سوویت شمولیت چاہتے تھے اور اس کے لیے کوئی طریقہ ڈھونڈ رہے تھے۔
برزنسکی: یہ بالکل درست نہیں ہے۔ ہم نے سوویت یونین کو مداخلت پر مجبور نہیں کیا۔ لیکن ہم نے سمجھتے بوجھتے ہوئے اس کا امکان بڑھا دیا کہ وہ ایسا کریں۔
سوال: جب سوویت یونین نے اپنی مداخلت کو یہ کہہ کر جواز دیا کہ ان کا ارادہ افغانستان میں خفیہ امریکی مداخلت سے لڑنے کا ہے، تو کسی نے بھی ان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ لیکن اس بات میں سچائی تھی۔ آپ کو آج اس سب کچھ پر افسوس تو نہیں ہوتا ؟
برزنسکی: افسوس کس چیز کا؟ یہ خفیہ آپریشن ایک کمال کا تخیل تھا۔ اس کا نتیجہ روسیوں کو افغان پھندے میں پھنسانے کی صورت میں نکلا اور آپ چاہتے ہیں کہ میں اس پر افسوس کروں؟ جس دن سوویت نے سرکاری طور پر افغان بارڈر کراس کیا، اس دن میں نے صدر کارٹر کو لکھا ”ہمارے پاس اب سوویت یونین کو ان کا ویت نام دینے کا موقع ہے“۔ بلاشبہ تقریباً دس سال تک ماسکو کو ایک ایسی جنگ لڑنا پڑی تھی جو کہ ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ایک ایسا قضیہ جو کہ ان کی ہمت ختم کرنے اور آخر کار سوویت سلطنت کے خاتمے کا سبب بن گیا۔
سوال: اور آپ کو مسلم انتہاپسندی کی حمایت کرنے کا بھی افسوس نہیں ہے، جس نے مستقبل کے دہشت گردوں کو اسلحہ اور سمت دی؟
برزنسکی: دنیا کی تاریخ میں اہمیت کس چیز کو حاصل ہے؟ طالبان کو یا پھر سوویت سلطنت کے خاتمے کو؟ کیا اہم ہے، چند مشتعل مسلمان یا پھر وسطی یورپ کی آزادی اور سرد جنگ کا خاتمہ؟
سوال: ”کچھ مشتعل مسلمان“؟ لیکن یہ کہا جاتا ہے اور بار بار اس کی تکرار سننے میں آتی ہے کہ اسلامی انتہاپسندی آج دنیا کے لیے ایک عذاب ہے۔ [نوٹ: یہ نائن الیون سے پہلے کی بات ہے]۔
برزنسکی: خرافات۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مغرب کی اسلام کے متعلق ایک عالمی پالیسی ہے۔ یہ احمقانہ بات ہے کیونکہ عالمی اسلام نامی چیز وجود نہیں رکھتی ہے۔ اسلام پر جذباتی خطابت کا شکار ہوئے بغیر ایک منطقی نظر ڈالیں۔ یہ دنیا کا ایک ممتاز مذہب ہے جس کے ڈیڑھ ارب ماننے والے ہیں۔ لیکن بنیاد پرست سعودی عرب، اعتدال پسند مراکش، عسکریت پسند پاکستان، مغرب نواز مصر، اور سیکولر وسطی ایشیا میں کیا چیز مشترک نظر آتی ہے؟ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس کی بنا پر عیسائی ملک جڑتے ہیں۔
یہ انٹرویو نائن الیون سے پہلے کا ہے۔ اس میں انتہاپسندوں کے بارے میں کمنٹ دلچسپ ترین ہیں جب برزنسکی پوچھتا ہے کہ تاریخ کی نظر میں کیا اہم ہے، سوویت یونین کی تباہی اور سرد جنگ کا خاتمہ یا چند مشتعل مسلمان۔
پہلا حصہ
روس اور گرم پانیوں کا افسانہ
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
- پاکستان کے برادران یوسف ہمسائے - 18/01/2024
- ہائے اللہ، سیاسی مداخلت کا یہ سائیکل کب تک چلے گا؟ - 16/01/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).