ایک جمہوری ڈکٹیٹر کا انجام


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دہشت کے اس دور میں 17 ہزار افراد کو گیلوٹین کے ذریعے یا قید میں تشدد کر کے مار دیا گیا۔ لیکن یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ جو بے گناہ لوگ طاقتور ریاست کے ہاتھوں مرنے لگتے ہیں تو ان کا مکمل ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ ان کے گھر والے انہیں لاپتہ افراد Missing Persons سمجھ کر ساری زندگی روتے رہتے ہیں۔

فرانس ایک زرعی ملک تھا لیکن راب سپئیر اپوزیشن سے انتقام کی آگ میں اتنا جل رہا تھا کہ وہ اپوزیشن کے اراکین کی ہر روز گرفتاریوں اور سزاؤں سے ہونے والی جگ ہنسائی سے لطف لینے لگ گیا تھا۔ وہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق اور سہولیات دینے کے اہل ہی نہ رہا تھا۔ راب سپئیر کی حکومت فرانس کو اناج میں خود کفیل نہ کر سکی۔ فرانس معاشی بدحالی کی دلدل میں پھنستا جا رہا تھا۔ قوم یہ سوچنے پر مجبور ہو چکی تھی کہ غداری کے نام پر شہریوں کو ہراساں کرنے اور غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو سزائیں دینے کے علاوہ یہ حکومت کوئی اور کام کر بھی سکتی ہے یا نہیں۔

عوام کے ساتھ حکومتی اراکین بھی راب سپئیر کے مخالف ہوتے جا رہے تھے۔ لیکن انہیں موت سے ڈر لگتا تھا۔ راب سپئیر نے صحافیوں کی حق گوئی پر بھی پابندی لگارکھی تھی۔ اگر اس دور میں ٹی وی چینلز ہوتے تو آزادی صحافت کی آڑ میں راب سپئیر نے ہر چینل پر بادشاہ کی ہر خبر اور ہر اطلاع اور ہر تقریر پر سخت ترین پابندی لگائی ہوتی اورصحافتی تنقید کو بھی غداری قرار دے کر صحافیوں کو سزائے موت دیتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بچپن کے دوست کمیل کو بھی سزا دینے سے نہیں رکا۔ کمیل ایک اخبار نویس تھا اس نے راب کو سمجھانے کی خاطر اخبار میں ایک کہانی لکھی جس کے آخرمیں اس نے یہ لکھنے کی غلطی کر دی کہ اس کی کہانی کا کردار بھی راب سپئیر کی طرح ڈکٹیٹر تھا۔ بس پھر کیا تھا اسے بھی راب نے گیلوٹین کے سپرد کر دیا۔

ظلم جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے ظالم حکمران ہمیشہ اپنی غلطی سے کی گئی غلطی کی وجہ سے انجام کو پہنچتے ہیں۔ پیرس سے ساڑھے چار سو کلو میٹر دور (Lyon) لیون نامی شہر کے لوگوں نے جب بغاوت کی توراب سپئیر نے اس شہر میں فوج بھج کر ان کے گھروں کو جلا دیا۔ لوگوں کو فوج نے گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔ جہاں لیون شہر میں ہونے والی قتل عام کی خبر جاتی لوگ راب سپئیر کے لئے ڈپٹی یا نائب صدر کے بجائے ڈکٹیٹر کا لفظ استعمال کرتے۔

کچھ حکمران سلیکٹیڈ کے لفظ سے چڑ جاتے ہیں، راب سپئیر کو ڈکٹیٹر کے لفظ سے چڑ ہو گئی۔ راب کے دوست کی موت اور لیون شہر کی تباہی فرانس کی عوام کے لئے لمحہ فکریہ بن گئی۔ ہر طرف یہ بحث چل نکلی کہ راب سپئیر اپنے دوست کا نہ بن سکا تو یہ ہمارا خیر خواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کابینہ اور عوام کی تنقید راب کے کانوں تک پہنچی تو اس نے نیشنل کونسل میں دو گھنٹے کا طویل خطاب کیا۔ جس میں اس نے اپنے تحفظات اراکین کے سامنے رکھتے ہوئے انہیں دھمکی دی کہ جو حکومت کے خلاف سازش کر رہا ہے ان کے ناموں کی فہرست اس کے پاس موجو د ہے اور سازش کا مطلب غداری ہے جس کی سزا موت ہے۔ موت کے ڈر نے تمام اراکین کو یکجاں کر دیا اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ راب سے جان چھڑانے کا وقت آن پہنچا۔ اگلے دن راب سپئیر کنونشن ہال میں پہنچا تو تمام اراکین نے اتنا شور مچایا کہ راب غصے سے ہال چھوڑ کر چلا گیا۔ تمام اراکین نے متفقہ فیصلہ کیا کہ راب سپئیر کی گرفتاری کا حکم دیا جائے۔

وقت کی ستم ظریفی دیکھیں راب سپئیر بالکل شاہ فرانس کی طرح سٹی حال میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مقید ہو کر رہ گیا تھا۔ 27 اور 28 جولائی کی درمیانی شب سرکاری فوج نے سٹی ہال پر حملہ کیا راب سپئیر کو باقاعدہ گرفتار کیا گیا۔ فوج کے ساتھ مزاحمت میں اس کے منہ پر گولی لگنے سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔ اسے اسی جیل میں لایا گیا جہاں ملکہ فرانس کو اس کے حکم سے قید کیا گیا تھا۔ راب سپئیر کے اپنے ظالمانہ اصولوں کی وجہ سے زخموں سے چور ہونے کے باوجود مزید طبی سہولت نہ لے سکا۔

گیلوٹین تک پہنچنے کے لئے راب سپئیر کے بال کاٹ دیے گئے۔ اسے دیکھ کر ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا کہ یہ وہی راب سپئیر ہے جس کی خوبصورتی دیکھنے والے پر سحر طاری کر دیتی تھی، جس کی تقاریر سننے والے کو دیوانہ بنا دیتی تھیں آج وہ جمال ہیبت ناک شکل اختیار کر چکا تھا۔ اسے اس کے کیے کی سزا دی جانے والی تھی۔ اس کے سفر آخرت کے لئے وہی چھکڑا منگوایاگیا جس پر اس نے ہزاروں بے گناہوں کو موت کے سفر پر روانہ کیا تھا۔

جب وہ چھکڑے پر سوار گیلوٹین کے قریب پہنچا تو لگتا تھا جیسے پورا فرانس آج اس کی موت کا تماشا دیکھنے پہنچ گیا ہے۔ راب سپئیر کو جب گیلوٹین پر باندھا گیا اور جلاد نے بلیڈ اس کی گردن پر چلایا تو اس کا سر کٹ کے ٹوکری میں گرتے ہی وہاں موجود ہزاروں فارنسیسیوں نے سکھ کا سانس لیا اور خوشی میں 15 منٹ تک تالیاں بجاتے رہے۔ یہ ہے روسو کے جمہوری ڈکٹیٹر راب سپئیر کا عبرت ناک انجام، جس کے بعد فرانس میں دہشت کے دور کا خاتمہ ہوا۔ راب سپئیر کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ خوبصورتی، شہرت، اقتدار اور کامیابی ریت کی مانند ہوتی ہے جسے جتنا مرضی سنبھالیں ہاتھ سے نکل ہی جاتی ہے۔ پیچھے رہ جاتے ہیں اس کے اچھے اور برے اعمال جوآپ کی آخرت کے اچھے اور برے ہونے کا فیصلہ بھی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2