نگارشاتِ اسلام شاہ


\"mustansarجب کبھی میں لاہور ریڈیو سٹیشن جاتا، اسلام شاہ وہاں ہمیشہ موجود ہوتا، درمیانے قد کا باریش، لباس سے بے پروا، بوسیدہ جناح ٹوپی سے ڈھکا ایک مولوی لگتا شخص، میں اس سے دور دور رہتا۔۔۔ اِن مولویوں کی نہ دوستی اچھی، نہ دشمنی اچھی۔۔۔ پھر شنید ہوئی کہ مولانا نہایت باقاعدگی سے ہیرا منڈی جاتے ہیں، سر سنگیت کی پہچان رکھتے ہیں تو میں نے سوچا کہ یہ تو کوئی وکھری ٹائپ کا مولوی ہے۔ بعد ازاں اسلام شاہ نے نہایت فخر سے ہمیں بتایا کہ میں تو وہاں میوزیکل ٹیلنٹ ہنٹ ہَنٹ کے سلسلے میں سرکاری طور پر جاتا تھا اور مجھے اس کا ٹی اے ڈی اے ملتا تھا۔ مجھے ہیرا منڈی کے کوٹھوں پر طوائفیں اس لیے خوش آمدید کہتی تھیں، میرے سامنے تقریباً بچھ بچھ جاتی تھیں کہ اگر میں اُن میں سے کسی ایک گانے والی کا انتخاب کر کے اسے ریڈیو پروگرام میں شرکت کی دعوت دیتا تھا تو ملک بھر میں اس کی گائیکی کی دھوم مچ جاتی تھی۔

ان زمانوں میں ریڈیو پاکستان میں ایک وقوعہ گردش کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام شاہ لنڈورا پھرتا تھا، کچھ ناگہانی وجوہات کی بنا پر اس کا رشتہ قبول نہ ہوتا تھا اور اُدھر میری دوست اور انقلاب کی سہیلی نسرین انجم بھٹی بھی چھڑی چھانٹ تنہا پھرتی تھی تو کسی ہمدرد نے نسرین سے یونہی چھیڑ چھاڑ کی کہ نسرین ادھر وہ اکیلا اور ادھر تم بھی اکیلی تو تم اسلام شاہ کو کیوں قبول نہیں کر لیتی۔ اور نسرین نے۔۔۔ اور یاد رہے کہ وہ ایک واجبی عیسائی لڑکی تھی، اس نے کہا کہ میں۔۔۔ اسلام تو قبول کر سکتی ہوں، اسلام شاہ کو قبول نہیں کر سکتی۔

ریڈیو سے ریٹائر ہو کر وہ ماڈل ٹاؤن پارک میں آ نکلا اور ’’تکیہ تارڑ‘‘ میں شامل ہو گیا اور تب اس کے بھید کھلے اور میں اس کے قریب ہوا۔ وہ ایک شاندار رفاقت ثابت ہوا۔ اس کی حس مزاح کی دھار بہت تیز تھی اور وہ ہمیشہ جمعرات کا لفظ بگاڑ کر ادا کرتا یعنی م کے ساتھ ایف لگا دیتا ۔۔۔ ایک روز نہایت سنجیدگی سے اپنی سفید ہوتی ڈاڑھی کو سہلاتا ہوا گویا ہوا ’’ایک شخص آنکھوں کے ایک ڈاکٹر کے پاس پر تشویش حالت میں گیا، کہنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب میری آنکھیں چیک کریں ان میں کچھ خرابی ہے۔۔۔ ایک کلو میٹر دور کوئی خوبصورت لڑکی نظر آجاتی ہے لیکن۔۔۔ اگر چند میٹر دور ایک بل ڈوزر مجھ پر چڑھا آتا ہو، وہ نظر نہیں آتا‘‘۔۔۔ تو ڈاکٹر نے کہا کہ ’’کیا آپ کا نام مستنصر حسین تارڑ ہے؟‘‘

ندیم شیخ بھی موسیقی کا کن رس رکھتا تھا وہ اسلام شاہ کا معتقد ہو گیا۔ ہم ’’آل پاکستان میوزک کانفرنس‘‘ میں شرکت کے بعد گئی رات واپس آئے۔ میں نے دیکھا کہ شاہ صاحب جس گلی میں رہتے ہیں وہاں متعدد خونخوار کتے غراتے پھرتے ہیں تو میں نے کی ’’شاہ جی۔۔۔ اب آپ کیسے کار سے اتر کر گھر جائیں گے‘‘ تو اسلام شاہ نے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا ’’فکر نہ کرو۔۔۔ اس گلی میں جتنے بھی آوارہ کتے ہیں، میں ان کی ماں کو جانتا ہوں اور وہ مجھے جانتے ہیں، مجھے بے خطر ڈراپ کر دو‘‘۔
ایک اور ایسی ہی شب تھی جب میں اُنہیں گھر چھوڑنے کے لیے گیا تو انہوں نے کار سے اترنے سے انکار کر دیا ’’ندیم۔۔۔ میں ان آوارہ کتوں کو جانتا ہوں لیکن ان میں ایک ایسا کتا ہے جس کی ماں کو میں نہیں جانتا‘‘۔

اسلام شاہ ہمیشہ رات گئے گھر لوٹتا تھا اور اس کی سجنی زریں ہمیشہ دروازہ کھولتی تھی، اسے نہ صرف اپنی بیگم پر فخر تھا بلکہ اپنی اولاد کو بھی اپنی جان جانتا تھا۔اس نے کچھ خبر نہ کی کہ اس نے مر جانا ہے۔ چپکے سے مر گیا۔

وہ گمنام ہی رہتا اگر اس کی بیگم ایک زر کثیر خرچ کر کے، جو کچھ اس نے تحریر کیا تھا اسے ’’دو جلدوں میں‘‘ نگارشاتِ اسلام شاہ کے عنوان سے شائع نہ کرتی۔
ان نگارشات میں اسلام شاہ ایک کمال کا محقق، موسیقی کا فلسفی ایک شاعر اور ایک بے بدل دانشور ظاہر ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا سمندر تھا جس میں شاعری اور موسیقی کی بادبانی کشتیاں تیرتی تھیں۔ اور ان سب میں میرے لیے تاریخ ساز دستاویز ’’داراشکوہ کے عقائد (تاریخ اور تنقید کے آئینے میں‘‘ تھی۔ داراشکوہ میاں میر صاحب کا مرید اور شاہدرہ کا شاہ دارا میرا سب سے پسندیدہ شہزادہ ہے اور میرا ایمان ہے کہ اگر وہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا، ہندوستان کے تخت کا قانونی حقدار۔ اپنے بھائی اورنگ زیب کے ہاتھوں ہلاک نہ کیا جاتا تو مغل سلطنت زوال پذیر نہ ہوتی۔ اسلام شاہ کی تحقیق نے داراشکوہ کے سب خفیہ تاریخی در کھول دیئے۔ ایک مختلف باب کے دروازے وا کر کے ہمیں اصل داراشکوہ کی شخصیت کے قریب لے گیا۔ میں ہر سویر جب ماڈل ٹاؤن پارک میں داخل ہوتا ہوں تو یونہی خیال آتا ہے کہ اسلام شاہ یہیں کہیں ہو گا۔ پر وہ نہیں ہوتا۔ اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ادھر نسرین انجم بھٹی بھی مر گئی جس نے کہا تھا کہ میں اسلام تو قبول کر سکتی ہوں ،اسلام شاہ کو قبول نہیں

کر سکتی تو اب وہ عالم ارواح میں فیصلہ کر لیں کہ کس نے کس کو قبول کرنا ہے۔۔۔
اسلام شاہ مولوی کو میں بہت اور اکثر یاد کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments