پاکستان کی اکلوتی ہندو اسپورٹس گرل: تلسی میگھواڑ


\"mukhs\"پاکستان جہاں اکثر ہندو لڑکیوں کی اغوا کی خبریں میڈیا کی زینت ہوتی ہیں وہیں تلسی میگھواڑ تمام مذہبی اقلیتوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہو رہی ہیں، ساتویں جماعت کی طالبہ تلسی میگھواڑ تمام روایتوں کو توڑ کر سندھ سمیت پورے ملک کی پہلی اسپورٹس گرل بنیں۔

ضلع جامشورو سندھ کی تحصیل کوٹری کے چھوٹے سے محلے سادھو پاڑو کے غریب میگھواڑ کے گھر جنم لینے والی ایک کمسن لڑکی کب سندھ کی سافٹ بال ٹیم میں جگہ بنا لے گی کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا، تلسی اس وقت گورنمنٹ گرلز ھائی اسکول کوٹڑی میں ساتویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ 14 سالہ یہ بچی نہ صرف سندھ کی سافٹ بال کی چیمپئن ہے بلکہ کوٹری شہر میں بغیر کسی خوف سے موٹر سائیکل بھی چلاتی ہیں۔ سندھ کی ان تمام لڑکیوں کی رول ماڈؒل ہے جو کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔

اسی سلسلے میں تلسی کے والد ھرجی لال کا کہنا تھا کہ تلسی کی کامیابی میرے خوابوں کا نتیجہ ہے جو ٹوٹے، بکھرے، منتشر ہوئے اور پھر سمیٹے، میں جو کچھ کرنا چاہتا تھا، وقت اور حالات نے نہیں کرنے دیا، سو سوچا اپنے بچوں کو حالات اور وقت کی ستم ظریفی کی بھینٹ نہ چڑھنے دوں۔ اسی وجہ سے میں نے اپنے بچوں پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی، ان کی ہر خوشی کو اپنی خوشی سمجھا۔

تلسی بچپن سے ہی شرارتی تھی، محلے کے لڑکوں سے لڑنا جھگڑنا، گھر سے چوری چھپے سائیکلیں چلانا، اس کا مشغلہ تھا، ھم جو بھی \"tulsi02\"جیب خرچی دیتے تھے اس سے پیسے بچا کر وہ نائی کے پاس چلی جاتی اور لڑکوں کے جیسے بال بنوا لیتی، جینس اور شرٹ پہنتی۔ جب 4 سال کی عمر میں اسکول میں داخل کروایا تو وہاں پڑھائی میں بھی آگے تھی، وقت گذرتا گیا اور پتہ ہی نہیں چلا کب تلسی ہائی اسکول میں پہنچی، اور کب سافٹ بال کی ٹیم کا حصہ بن گئی۔

تلسی کے والد ہرجی لال میٹرک تک پڑھے ہوئے ہیں، ہرجی لال کی بھی ابتدائی زندگی موچی کے کام سے شروع ہوئی، کاٹن فیکٹری میں بھی کام کیا، مگر ساتھ ساتھ صحافت بھی کرتے رہے۔

ھرجی لال اور ان کے ایک ساتھی مکیش نے 2010 میں پاکستان کا پہلا ہندو اخبار نکالا تھا۔ 3 سال مسلسل چھپنے کے بعد بلآخر 2014 میں کچھ معاشی مسائل کی وجہ سے اخبار بند کرنا پڑا۔ ہرجی لال اس وقت گھر کا چولہا جلانے کے لیے ایک مقامی سندھی اخبار عبرت میں بطور سب ایڈیٹر کام کر ہے ہیں۔

تلسی کا کہنا تھا کہ پورے سندھ میں اسکول لیول پر اسپورٹس کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں ، جب میں چھٹی جماعت میں آئی تو میں نے بھی کھیلوں میں حصہ لیا، مختلف گیمز کھیلیں، 2016 میں سافٹ بال ایسوسیئشن جامشورو کی جانب سے سافٹ بال گیمز اسکول میں متعارف کرائی گئی ، جس میں فزیکل ایجوکیشن کے ڈائریکٹر، اور میڈم آئشا ارم (ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن ڈسٹرکٹ جامشورو) نے گورنمینٹ ھائی اسکول کوٹڑی کی 13 رکنی ٹیم بنائی جس میں میں بھی شامل تھی۔ اس کے بعد 2 ماہ کی ٹریننگ  کرائی گئی۔

سندھ سافٹ بال ایسوسیئشن کے صدر جہانگیر مغل کی سربراہی میں ایک ٹیم کوٹری پہنچی جنہوں نے سندھہ کے مختلف اسکول، کالجز میں \"tulsi03\"کھیلے جانے والیے کھیلوں میں کھلاڑیوں کی سلیکشن کی کوٹری کی 13 رکنی ٹیم میں سے صرف 6 لڑکیاں سندھ کی ٹیم میں سلیکٹ ہوئیں جن میں میرا نام بھی تھا۔

واضح رہے کہ سندہ میں بسنے والی ہندو برادری میں تلسی میگھواڑ پہلی ہندو لڑکی ہے جوکہ صوبائی سطح پر سندھ گیمز کا حصہ بنی، اور 16 اپریل 2016 کو کوئٹہ میں منقعد ہونے والی 13 ویں نیشنل سافٹ بال چیمپئن شپ میں سندھ سافٹ بال کی ٹیم نے بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخواہ، اور اسلام آباد کی ٹیم کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی، مگر سندھ کی ٹیم فائنل میں آرمی کی ٹیم سے ہار گئی، چار دن کے ان مقابلوں میں تلسی میگھواڑ کی کارکردگی بہت ہی نمایاں رہی۔

ہرجی لال بتاتے ہیں کہ تلسی کی نمایاں کارکردگی اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ہندو لڑکی کے اسپورٹس میں شامل ہونے کو سندھ سمیت پوری دنیا کے لوگوں نے بہت سراہا، امریکا سمیت پوری دینیا سے مبارکباد کے پیغام موصول ہو رہے ہیں۔  تلسی کی واپسی پر اس کا شاندار استقبال کیا گیا، مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں نے تلسی کے اعزاز میں تقریبات رکھیں، جن میں ینگ جنریشن فورم کوٹڑی، دامن آرگینائیزیشن حیدرآباد، پیپلز پارٹی مینارٹی ونگ کوٹڑی، اور روشن ہیلپ لائن فورم  شامل ہیں۔  مقامی سندھی اخبارات، اور میڈیا چیلنز نے خصوصی طور پر تلسی میگھواڑ کی خبریں اور اینٹرویو نشر کئے۔

سندھ کی ٹیم کی فائنل میں پہنچنے کی خوشی میں کمشنر کراچی کی جانب سے پوری ٹیم کا شاندار استقبال کیا گیا، پوری ٹیم کے لیے ایک لاکھ روپیہ نقد اور گولڈ میڈل دیا گیا، تلسی سمیت پورے سندھ کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس وقت تلسی اور سندھ کی ٹیم کی کپتان ارم کے نام قومی ٹیم کے لیے بھیجے گئے ہیں۔\"tulsi01\"

تلسی کی والدہ جمنا جو کہ اکثر کھر پر سلائی کڑھائی کا کام کرکے ہرجی لال کے شانہ بہ شانہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش میں ہیں، تلسی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ، یہ بچپن سے ہی بہت شرارتی اور لڑاکو رہی ہے محلے کے لوگوں کی شکایتوں پر مار بھی بہت کھائی ہے، مگر اس مار کا اس لڑکی پر کوئی اثر نہیں ہوا، تلسی کا لڑکپن مجھے بہت خوفزدہ بھی کرتا تھا کیونکہ ہر روز یہ ہی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ ہر  روز کسی نہ کسی کی بیٹی کو اغوا کر لیا جاتا ے اور کوئی داد فریاد سننے والا بھی نہیں، ایسے میں لڑکیوں کو اسکول بھیجنا بھی عذاب سے کم نہیں، اور اوپر سے لوگوں کی باتیں مجھے اور مایوس کرتی تھی، مگر جب بھی میں تلسی کو دیکھتی تو سوچتی کہ میں تو نہیں پڑھ سکی، مگر اپنی بیٹیوں کو ضرور پڑھاؤں گی، اس لیے تلسی کو کبھی نہیں روکا، آج جس مقام پر تلسی ہے اور لوگ جب تلسی کی وجہ سے مجھے جانتے ہیں تو دل کو تسلی ملتی ہے کہ میں نے شاید اچھا ہی کیا ہے، بھگوان سے یہی پرارتھنا ہے کہ تلسی اور آگے جائے۔

تلسی اپنی اسکول کی باتیں بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ جب میں اسکول کی ٹیم کے لیے منتخب ہوئی تو میری کافی ساری اسکول اور محلے کی لڑکیاں ناراض ہوئیں، جب میں اسکول میں پریکٹس کرتی تو وہ مجھ پر ہنستی تھیں، مجھ پر فقرے کستی تھیں، مگر میں کبھی بھی ان کی باتوں کو دل پر نہیں لیا، ان کی روک ٹوک اور مذاق نے میرے حوصلے کو اور مضبوط کیا، آج میں سندھ کی ٹیم کا حصہ ہوں، نیشنل لیول پر کھیل کر بھی آ گئی، اب جب بھی وہ ساری دوست ملتی ہیں تو مجھ پر رشک کرتی ہیں، اب وہ بھی کہتی ہیں کہ ائندہ کھیلوں کے مقابلے میں ہم بھی حصہ لیں گے، میری پہلی کامیابی بس یہ ہی ہے۔ میری اس سفر میں میری فیملی کے ساتھ ساتھ میرے اساتذہ اور ساتھی کھلاڑیوں نے بھی بہت سپورٹ کیا، میں ان تمام لوگوں کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں، امید کرتی ہوں کہ یہ ساتھ زندگی بھر کا رہے گا۔

آج کل اسکول کی چھٹیوں کی وجہ سے تلسی گھر پر ہی پریکٹس کرتی ہے، سافٹ بال کھیل کا سامان نہ ہونے کی وجہ سے تلسی کپڑے دھونے\"tulsi04\" والے ڈنڈے اور ٹینس بال سے پریکٹس کرتی ہے، ہرجی لال کے مطابق تلسی نے گھر کی کھڑکیوں کے سارے شیشے توڑ دیے ہیں، بس سارا دن بال اور ڈنڈا ہاتھ میں لیے سارے بہن بھائیوں کو تنگ کرتی ہے پریکٹس کے لیے۔

یاد رہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے سندھ میں ہندو لڑکیوں کے جبری تبدیلی مذھب میں کافی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں ہندو خاندان بھارت ہجرت کرچکے ہیں، اور باقی جو یہاں رہ رہے ہیں وہ خوف میں مبتلا ہیں، اسی خوف کی وجہ سے بہت سے والدین نے اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا چھوڑ دیا ہے۔ مگر اس ساری صورتحال میں تلسی کے ساتھ تلسی کے والد ہرجی لال اور جمنا کے حوصلے کی داد دینی ہوگی جنہوں نے اتنی بڑی مخالفت کے باوجود بھی حوصلہ نہیں ہارا اور ہر موڑ پر اپنی بیٹی کی ہمت افزائی کی۔ اگر حکومت وقت اور ریاست اقلیتوں کو حقوق اور تحفظ کو یقینی بنائے تو سندھ کی زرخیز مٹی سے لاکھوں تلسی میگھواڑ پیدا ہوسکتی ہیں، جو اس ملک کا نام روشن کر سکیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments