مہمند ایجنسی کی مسجد میں’خودکش‘ دھماکہ، 28 شہید


\"edit\"وفاق کے زیر انتظام علاقے مہمند ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے مبینہ خودکش دھماکے میں اب تک 28 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ہے۔ بعض زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جا رہی ہیں جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

اطلاعات کے مطابق یہ دھماکہ جمعے کی دوپہر ڈیڑھ بجے نماز جمعہ کے دوران گل مسجد میں ہوا اور دھماکے کے وقت مسجد میں دو سو کے قریب نمازی موجود تھے۔ اپر مہمند ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ محمد حسیب نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے میں بائیس لوگ ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ زخمی افراد کو باجوڑ، یکہ غنڈ اور پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق ابتدائی معلومات کے مطابق یہ دھماکہ خودکش تھا ان کے مطابق اس علاقے میں مواصلاتی نظام کی خرابی کے باعث معلومات مشکل سے پہنچ رہی ہیں تاہم ان کے مطابق مسجد کی عمارت گرنے کے بعد وہاں ریسکیو اپریشن جاری ہے۔ کالعدم تنظیم جماعت احرار نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف حکومت کے حامی امن کمیٹی کے اراکان تھے۔

شدید زخمیوں میں سے سات کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کیاگیا ہے جبکہ پینتیس زخمیوں کو باجوڑ کے ہسپتال منتقل کردیاگیا ہے۔ جن میں ایک بچہ عارف گل ہسپتال میں ہلاک ہوگیا ہے۔ مقامی شخص شاکر کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد مسجد کا برآمدہ گرنے سے متعدد لوگ ملبے تلے دب گئے ہیں جس کے بعد خدشہ ظاہر کیاجا رہا ہے کہ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ دشوار گزار راستوں اور ٹرانسپورٹ کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاک شدگان اور زخمیوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔

مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ نماز جمعہ کے دوران علاقے میں مساجد پر کسی قسم کی سکیورٹی تعینات نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ خودکش بمبار باآسانی مسجد میں داخل ہو سکا۔ مہمند ایجنسی افغانستان سے متصل سرحدی علاقہ ہے اور ماضی میں یہ علاقہ شدت پسندوں کا گڑھ رہا ہے۔ فوجی آپریشن کے بعد یہ علاقہ شدت پسندوں سے خالی کروا لیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود علاقے میں باردوی سرنگوں کے دھماکوں میں ہلاکتوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ مہمند ایجنسی میں گذشتہ چند ہفتوں سے سکیورٹی اہلکاروں اور حکومت کے حامی قبائلی مشران اور سرداروں پر حملوں میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments